مودی کا فلسفۂ حکمرانی
آئے دن مسلمانوں کو گائے کا گوشت فروخت کرنے کے جھوٹے الزام میں قتل و غارت گری کا سامنا ہے۔
جس طرح عام استعمال کی اشیا کو فروخت کرنے کا اشتہاری انداز ہے، اس طرح لیڈر حضرات بھی اپنے خیالوں کی دنیا کو مقبول انداز میں پیش کرتے ہیں اور عوام میں اس کا ردعمل دیکھ کر اپنے پروگرام کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ خواہ اس کا نتیجہ کسی طبقے پر منفی ہی کیوں نہ ہو، ان کو جمہوری جنگ جیتنے کے لیے خونریزی سے بھی گریزکرنا پڑتا ہے۔
عام طور سے جمہوری انتخابات کا مقابلہ جیتنے کے لیے کسی بھی حربے کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آج سے تقریباً ستر سال قبل آر ایس ایس نے بھارت کے مہان لیڈرمہاتما گاندھی پرگولیاں چلا کر آنے والے وقت کا انتظارکرتے رہے اور آخرکار آر ایس ایس نے ستر سال بعد یہ جنگ کانگریس پارٹی سے جیت لی۔
پرانے وقتوں کے لوگ کہتے ہیں کہ جس روز مہاتما گاندھی پرگولیاں چلائی گئیں اور وہ جان گنوا بیٹھے اس روز پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک خوف کی فضا تھی کیونکہ ذرایع آمد و رفت اتنا تند و تیز نہ تھا اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا۔ البتہ ریڈیو نے جب یہ خبر چلائی کہ مارنے والا نتھورام گوڈسے ہے تو مسلمانوں کو اطمینان ہوا کہ مارنے والا کوئی مسلمان نہیں۔ تقریباً چالیس سال تک کانگریس پارٹی حکومت میں رہی۔ لیکن چالیس سال تک نتھو رام گوڈسے کے ڈالے ہوئے بیج نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلی جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بھی شامل ہے۔
جس سے یہ معلوم ہوا کہ نفرت کی آگ جمہوری آشتی سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی کے بعد گجرات میں ہندو مسلم فساد کروا کے نریندر مودی نے اپنا بت مضبوطی سے تراش لیا اور اس کے بعد گؤ رکھشا کے نام پر کٹرپنتھی حکومت قائم کرلی جس میں نسل پرست لیڈروں کی پرورش کی اور آخرکار ایک بار مرکزی حکومت بنانے کے بعد نریندر مودی دو تہائی اکثریت سے دوسری بار بھارت کا وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گیا۔
اب کہنا کیا تھا جمہوریت کی اس خامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو دو تہائی اکثریت دیتی ہے نریندر مودی نے اپنی آرزوئیں پوری کرنا شروع کردیں۔ پہلے نشانے پر بھارت کے مسلمان تھے اور دوسرے نمبر پر سکھ۔ دوسری مرتبہ اپنی اس طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے کشمیر پر قبضے کا اعلان کرکے اسے بھارت میں شامل کرلیا۔ایسا کرکے بھارت کے تینتیس کروڑ مسلمانوں پر ایک بڑا حملہ کردیا۔ ان کے لیے ایک نیا آئینی دستاویز تیار کیا گیا اور بھارت کی رائے شماری میں من مانی تبدیلیاں پیدا کرکے مسلمانوں کو بھارت سے ملک بدر کرنے کا آئینی پیکیج تیار کیا۔
بالآخر مسلمان یہاں پر دیوار کے اس پار جانے کے بجائے دیوار کے اسی پار جنگ پر تیار ہوگئے۔ کیونکہ ان کو یہ معلوم تھا اگر وہ اس بار کھڑے نہیں ہوتے تو ان کی تعداد کو کم ازکم آئینی ترمیم کے ذریعے بائیس کروڑ تک لے آئے گا، اس کام کے لیے اس نے بنگال، یوپی اور آسام کو ہدف بنایا جہاں کے رہنے والوں کو آسانی سے غیر ملکی قرار دے سکتے ہیں، کیونکہ میانمار (برما)، بنگال اور یوپی کے لوگوں کو آسانی سے وہ اپنے نشانے پر لے سکتے ہیں، لیکن کیا کہیں کہ قدرت کا ایک اپنا قانون ہے، جب زیادتیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو قانون قدرت حرکت میں آجاتا ہے۔ واقعی میانمارکے روہنگیا مسلمانوں سے بنگال بھرنے لگا جس کو حسینہ واجد نے جلد محسوس کر لیا اور انھوں نے بنگال کے مسلمانوں کو بنگلہ دیش آنے پر قدغن ختم کردی جس سے نریندر مودی کو پہلا جھٹکا لگا۔ یہ جھٹکا سفارتی اندازکا تھا لیکن اصل جھٹکا ان کو اس وقت لگا، جب یوپی کے مسلمان سربکف ہوئے اور یوپی سے بہار تک اور بہار سے حیدرآباد دکن تک مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔
اس موقع پر ہم جواہر لال یونیورسٹی کے صدرکنہیا کمار کا بھی شکریہ ادا کریں۔ جنھوں نے یونیورسٹی کیمپس میں کشمیری مسلمانوں کی حمایت کی جس پر انھیں غدار کے خطاب سے بھی نوازا گیا، مگرکنہیا کمار بہار کے اپنے حلقے سے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ جیت کر لوک سبھا کے ممبر بن گئے اور بھارت میں کوئی ایسا قانون نہیں تھا کہ کسی کو غدار کہہ دیا جائے تو اس کو ملک بدر کردیا جائے۔ البتہ نریندر مودی یوں ہی جیتتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ بھارتی جمہوری پارلیمنٹ ایسا کوئی دستور منظورکرلے جس میں کسی کو بھی غدار قرار دے کر ملک بدر کیا جاسکے، لیکن بھارت مسلمانوں کا احتجاج ہر صوبے میں شروع ہو گیا لیکن ایک خوش آیند بات یہ رہی کہ نریندر مودی کی مسلمان دشمنی، اردو دشمنی میں بدل گئی۔
اس نے کوشش کی کہ دلی کی نیشنل لینگویج سے اردو کو خارج کردیا جائے لیکن وہ ناکام ہو گیا اور اب دلی کی نشست نریندر مودی کے پاس نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی کے پاس ہے تو اس پارٹی نے بھی بھارتی دستاویز کی دھجیاں اڑا دیں اور بھارت کی پانچ سو جامعات اور تعلیمی اداروں میں احتجاج شروع ہو گئے، جس میں حبیب جالب اور فیض احمد فیض کی نظمیں سنائی جاتی رہیں۔
سکھ برادری بھی مسلمانوں سے قریب ہوگئی اور ان کی طرف سے شاہین باغ میں خواتین کے لیے چندی گڑھ سے طعام و قیام کا انتظام کیا گیا جس سے دہلی میں تحریک زور پکڑتی چلی گئی اور مسلمانوں کو تقویت ملی۔ ابھی یہ تحریک زور پکڑتی جا رہی تھی کہ حیدرآباد دکن کا الیکشن بھی نریندر مودی کی پارٹی ہار گئی اور دکن کے مسلمانوں نے سن اڑتالیس اننچاس کی یاد تازہ کردی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے بھی سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور صاحب کے لیے راہداری کھول دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم ہند کے بعد سکھوں اور مسلمانوں میں جو دراڑیں پڑگئی تھیں وہ پر ہوگئیں۔
ایک اور اہم واقعہ یہ ہوا کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں لال قلعہ پر خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا۔ اس موقعے پر دونوں طرف سے لوگ زخمی ہوئے اور ایک ہلاکت بھی ہوئی۔ یہ واقعہ دراصل کسانوں کی تحریک کا ایک حصہ تھا۔ یہ تحریک گزشتہ تین مہینے سے جاری ہے جس میں سیکڑوں کسان بیمار اور ہلاک ہوئے کیونکہ انھوں نے کھلے آسمان کے نیچے دسمبر اور جنوری میں خیمے لگائے تھے۔ کسان تحریک کے کارکنوں کی اموات کے نتیجے میں اب یہ تحریک واپس نہیں لی جاسکتی لہٰذا اس گومگو کی صورتحال میں بھارت کا سپریم کورٹ جو اب تک خاموش تھا اس نے کسانوں کے قانون کی اس ترمیم کو روک دیا ہے۔
دراصل اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی جانبدار رویہ رکھنے والے دو تجارتی گروپ امبانی اور ادانی کے خلاف فیصلہ دینے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اس لیے انھوں نے تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فی الحال حکومتی فیصلہ اناج کی مارکیٹ پہ روک دیا ہے، واضح رہے کہ یہ گروپ لیدر گارمنٹس اور لیدر گڈز اور لیدر ایکسپورٹ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ لیدر گڈز کی مارکیٹ مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی کیونکہ چمڑے اورکھالوں اورگوشت کی سپلائی کا کام عام طور پر مسلمان اور دلت کرتے تھے۔
گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھ سے یہ بزنس چلا گیا اور یہ انڈسٹری اب انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھ میں آگئی۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہب کے نام پر زرگری کی جنگ جاری ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ دلت ہندو جنھیں عرف عام میں چمارکہا جاتا تھا وہ بھی چمڑے کے کاروبار میں بے نام ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں میں قصاب پیشے کے لوگ بھارتی معیشت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ وہ بھی اب زرگری میں اپنا نام گنواتے جا رہے ہیں۔
اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ آئے دن مسلمانوں کو گائے کا گوشت فروخت کرنے کے جھوٹے الزام میں قتل و غارت گری کا سامنا ہے، مگر بھارتی میڈیا مجموعی طور پر خاموش تماشائی ہے اور ان دونوں انتہا پسند گروپوں کی مارکیٹ کے اصل خریدار عرب ممالک ہی ہیں۔ بھارتی میڈیا نے اپنی زبان اس طرح بند رکھی ہے کہ عرب دنیا کو ان انتہا پسند گروپوں کی کارکردگی کا اندازہ بھی نہ ہو سکا۔ اب البتہ دنیا کے آزاد میڈیا کی بدولت عرب دنیا کے نوجوانوں نے بھارتی انتہا پسندی کا پردہ چاک کرنا شروع کردیا ہے۔
بھارتی الیکٹرانک میڈیا کے تقریباً چار سو چینل زرد صحافت کا لباس اوڑھے ہوئے ہیں، لیکن اناج کی کاروباری اصلاحات جس میں ان سیٹھوں کو آٹے دال کا بھی اصل مالک بنانا مقصد تھا، کسانوں کے زبردست احتجاج نے ان انتہا پسندوں کو اناج کا سوداگر بننے سے روک دیا۔ ابھی مسلمانوں کی جدوجہد کا وہ حصہ جو کورونا کی وجہ سے رخصتی پہ چلا گیا تھا اب وہ بھی واپس آنے پر ہے۔
اس طرح بھارت میں سکھ اور مسلمان اتحاد کا پہلو نمایاں ہوتا نظر آ رہا ہے، یہی وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے سکھ برادری نے اتنی جرأت کی کہ لال قلعے پر خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا اور اب مغربی دنیا بھی بھارتی جمہوریت کی نسل پرستی میں ڈوبی ہوئی جمہوریت کو نمایاں کرنے میں مصروف ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ دنیا پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ بھارت کی جمہوریت عوامی نہیں بلکہ بھارت نتھورام گوڈسے راج کی طرف بڑھ رہا ہے،کیونکہ بھارت میں اب آزادی ہند کے لیڈر مہاتما گاندھی کے قاتلوں کو امتیازی میڈل سے نوازا جا رہا ہے اور دنیا کو یہ بات سمجھ میں آنے کو ہے کہ بھارت میں عوامی پارلیمانی جمہوریت نہیں بلکہ احیائے گوڈسے راج ہے۔