جانے بھی دیں

کچھ بھی ہو دو ارب کیا چار ارب بھی مانگے جاسکتے ہیں پر خریدنے والوں کو خیال کچھ دیر سے آیا۔

ان دنوں برگد کا سو سالہ پرانا درخت بہت مشہور ہو رہا ہے، جسے بچانے کی خاطر پہلے بہت سی ترکیبیں سوچی گئیں، دماغ لڑائے گئے لیکن سوائے اس کے مزید زمین خریدکر اسے رنگ روڈ پروجیکٹ میں شامل کیا جائے کوئی اور سبیل نظر نہ آئی۔

یہ وہی سو سالہ پرانا درخت ہے جس کے سائباں تلے نجانے کتنے لوگوں نے شدت سے پڑتی دھوپ سے بچنے کے لیے وقت گزارا ہوگا، اس کی تاریخ کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو یہ ایک وفادار پرانا جیتا جاگتا درخت ہے، جو آج بھی بھرپور انداز میں سانس لے رہا ہے اور اپنے ارد گرد خوبصورت ماحول اور لوگوں کے لیے تازہ سانس لینے کے مواقع فراہم کررہا ہے۔

برگد کا یہ پیڑ جب اس بڑے پروجیکٹ کی زد میں آیا تو پروجیکٹ ڈائریکٹر راولپنڈی کے کمشنر کو یہ مشن سونپا گیا جس میں اس درخت کو بچانے کو سب سے اہم قرار دیا گیا تھا اس کی تکمیل میں گو دس کروڑ روپے خرچ ہوئے اور نئی زمین خریدی گئی لیکن تاریخ کے اس شاہد درخت کو بچا لیا گیا۔ اس بڑے منصوبے میں 6,500 درختوں کوکاٹنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

ان کی جگہ تیس ہزار نئے درخت لگانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ درخت ہمارے ماحول کو تندرست اور سازگار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے اس لیے اس نیک کام کو جس قدر بڑھایا جائے بہتر ہے کیونکہ ماحول میں بڑھتی آلودگی نے پاکستان کے بڑے شہروں کی زندگی کو خاصا گمبھیر بنا دیا ہے۔ آلودگی کے حوالے سے کبھی لاہور سرفہرست نظر آتا ہے تو کبھی کراچی۔ لیکن تاریخی حوالے سے برگد کے سو سالہ درخت کو بچانے کے لیے جتنی بھی کاوشیں کی گئیں وہ یقین قابل ستائش ہیں۔

حال ہی میں اسرائیل کے آرکیالوجسٹ کو قدیم نوادر یروشلم کے جنوب میں تقریباً ایک سو پینتیس میل کی مسافت پر ٹمنا کے مقام ''سلیوز ہلز'' پر جامنی رنگت کے ملے ہیں یہ نہایت نایاب اور بیش بہا قیمتی دکھائی دیتی ہیں جس کے بارے میں ڈاکٹر سکئے نک کے مطابق یہ جامنی رنگ عظیم پادریوں کے جاہ و جلال سے ملتے جلتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ بے پناہ قیمتی رنگ جامنی ماند نہیں پڑتا یہ بیش بہا قیمتی رنگ کو بنانا آسان نہیں ہے۔ یہ گھونگھوں کی باڈی میں نہایت قلیل مقدار میں پائی جاتی ہے جس سے بہت اعلیٰ معیارکے رنگ بنائے جاتے ہیں۔ جن کی قیمت سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔

اس جامنی رنگ کا یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتابوں میں تذکرہ ہے جس کے مطابق کنگ ڈیوڈ کنگ سولومن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس رنگ کے لباس پہنا کرتے تھے۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہ قدیم اشیا اندازاً ایک ہزار قبل مسیح کی ہیں جب کنگ ڈیوڈ کا دور حکومت تھا۔ 2019 میں بھی تعمیرات کے دوران ایک قدیم مسجد کو دریافت کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے ...شہر میں یہ سادی سی مسجد اندازاً بارہ سو سال پرانی ہے، ماہرین کے مطابق یہ مسجد اسلام کی آمد کے بعد کے ابتدائی دورکی ہے جب عربوں نے اس خطے پر حکمرانی کی اور آج یہ علاقہ اسرائیلی ریاست میں شامل ہے۔

کھلی فضا میں مستطیل شکل کی اس سادہ سی پتھروں سے بنی مسجد میں محراب نمایاں ہے، جس کا رخ مکہ کی جانب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہی ہے جسے اس وقت کے مقامی کاشت کاروں نے تعمیر کیا ہوگا۔ تاریخی مقامات کی آج کی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے تاریخ اور تاریخی مقامات کو کھنگالنے اورکھوجنے میں بہت فرق ہے گو بظاہر ان دونوں کا تعلق تاریخ سے ہی ہے لیکن مادی طور پر تاریخی شواہد اور مقامات ودیگر اشیا کی جانچ اور دیگر تجربات سے ان کی عمر اور ادوارکا اندازہ لگانا ایک الگ علم ہے۔ ماہرین کی ایک بہتات ہے جو اس علم سے جڑے ہیں اور وہ دنیا بھر میں اپنے تحقیقی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔


رنگ روڈ کا برگد کا پرانا درخت جس کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن اس کی زندگی ہی دراصل اس کی اہمیت ہے۔ جو آج بھی لوگوں کو اپنی چھاؤں سے مستفید کر رہی ہے اس کی ساخت گزرتے وقت کے ساتھ کچھ اور بھی توانا اور پیچیدہ ہوتی چلی گئی ہے اس میں بھی اس کی انفرادیت اور بھی ابھرتی ہے۔ لاہورکے تاریخی مقامات میں ایسے ہی لاتعداد درخت ہیں جن کی عمر کے بارے میں اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ مغل بادشاہوں کے دور کے بنے شاندار تعمیراتی شاہکار جہاں اپنے عہد کے سنہری دور کی کہانی سناتے ہیں وہیں یہ جاندار درخت اپنی جاندار ساخت سے بہت سے بڑے امرا، بادشاہ، نوابین کو دیکھ چکے ہیں پر کیا قدرت کی خوبصورتی ہے کہ یہ درخت داستان گوئی کے فن سے محروم ہیں لیکن ماحول کی آلودگی کو کم کرنے میں ہمہ تن جتے رہتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے بھارتی فلم انڈسٹری کے بڑے اداکار راج کپور اور دلیپ کمار جن کی پیدائش پاکستان کی ہے ان کے آبائی گھروں سے متعلق ایک بحث سی چل رہی ہے کہ ان کے وہ گھر جہاں فن کار پیدا ہوئے اپنی ابتدائی زندگی بسر کی انھیں ثقافتی ورثے کے طور پر محفوظ کر لیا جائے یہ دونوں بڑے فنکار جن کی یقینا اپنی اہمیت ہے انھوں نے ماضی میں فلم انڈسٹری کو اس وقت منتخب کیا جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی ان کی پیدائش بھی پارٹیشن سے پہلے کی ہے۔

اس حوالے سے یہ مقامات دونوں ممالک کے لیے ثقافتی حوالے سے خاصے اہم ہیں لیکن یہاں صورتحال اس قدر دلچسپ ہے کہ خیبرپختونخوا میں راج کپور کی آبائی حویلی آج کل جن حضرت کے پاس ہے وہ اسے پوری طرح کیش کرانے کے موڈ میں ہیں، انھوں نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی حکومت کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے اور اس کے لیے دو ارب روپے کی خطیر رقم کا مطالبہ کیا ہے۔

مالک مکان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں حد بندی میں اتنے پیسوں میں تو آدھ مرلہ بھی نہیں ملتا تو چھ مرلے کے مکان کو وہ ڈیڑھ کروڑ میں کیسے فروخت کر سکتے ہیں، جب کہ حکومت اپنے ڈی سی ریٹ کے مطابق زمین کی قیمت ایک کروڑ پندرہ لاکھ ستائیس ہزار روپے اور دلیپ کمار کے چار مرلہ گھر کی زمین کی قیمت بہتر لاکھ اسی ہزار روپے جب کہ دونوں کے گھروں کے ڈھانچے بالترتیب 34 لاکھ 73 ہزار اور 7 لاکھ 76 ہزار روپے کے ساتھ راج کپور کا گھر ایک کروڑ پچاس لاکھ اور دلیپ کمار کا گھر اسی لاکھ چھپن ہزار روپے کا بنتا ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ نے گھروں کی خریداری کے لیے فنڈز کا کیس سیکریٹری کھیل ثقافت، آثار قدیمہ کو بھجوا دیے لیکن گھر والے نہیں مان رہے، فی الحال راج کپورکے گھرکا کیس ان دنوں گردش میں ہے دلیپ کمار کے گھر کے سلسلے میں فی الحال باتیں ہی چل رہی ہیں۔ ان کے مالک کا کیا کہنا ہے ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

بہرحال کچھ بھی ہو دو ارب کیا چار ارب بھی مانگے جاسکتے ہیں پر خریدنے والوں کو خیال کچھ دیر سے آیا جو لاکھوں کی چیزکروڑوں اور کروڑوں کے بھی پر لگائے جا رہے ہیں، اب چاہیں تو یہ مناسب دام پر محفوظ کردیں ورنہ جانے بھی دیں۔ بقول پروین شاکر کے:

ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے

یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
Load Next Story