قبولیت کی گھڑی
جامعہ ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا دعا عبادت ہے، دعا عبادت کا مغز ہے۔
KARACHI/
KARACHI ':
دعا ایسی عبادت ہے جو کسی وقت کرسکتے ہیں، سیرت النبیؐ کا مطالعہ کریں تو آپؐ کی زندگی کی کوئی گھڑی کوئی پہلو ایسا نہ تھا جس میں آپ نے دعا نہ کی ہو، امت کو دعا نہ سکھائی ہو، خود دعا کرتے اور دوسروں کو سکھایا کرتے۔
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ بھی ایک قسم کی دعائیں ہیں شریعت میں دعاؤں کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ مصیبت، پریشانی میں دعا کریں بلکہ دعا ہمیں خوشحالی میں بھی کرنی چاہیے ،اللہ تعالیٰ دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ کسی سے کہتے سنا کہ ہم نے دعائیں کیں لیکن ہماری دعائیں قبول نہ ہوئیں۔
مثلاً کسی شئے کی دعا کی، وہ نہیں ملی، کسی کام کے لیے دعا کی وہ نہیں ہوا، یہ کہنا قطعی مناسب نہیں اللہ نے فرمایا'' تم دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔'' قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نبی سے میرے بندے سوال کرتے ہیں میرے بارے میں تم کہہ دو، ان سے میں ان سے قریب ہوں اور جو بھی مجھ سے دعا کرتے ہیں میں ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ ان کی دعاؤں کا جواب دیتا ہوں وہ صرف مجھ ہی سے دعا کریں مجھ پر ایمان لائیں شاید کہ وہ ہدایت یافتہ ہوں۔
جامعہ ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا دعا عبادت ہے، دعا عبادت کا مغز ہے۔ حضورؐ فرماتے ہیں مسلمان دعا کرتا ہے جس میں گناہ کی بات نہ ہو نہ ہی رشتہ توڑنے کی دعا ہو، اللہ تین میں سے ایک ضرور عطا کرتا ہے۔
1۔مومن جو دعا مانگتا ہے، خواہش پوری کردیتا ہے جو مانگتا ہے مل جاتا ہے۔2۔ دعا کو آخرت کے لیے اٹھا کر ذخیرہ بنا دیتا ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوتی ہے۔3۔دعا کے برابر مصیبت کو ٹال دیتا ہے۔ ہم کوئی شے مانگتے ہیں نہیں ملتی اور کہتے ہیں ہماری دعا قبول نہیں ہوئی۔ اگر وہ شے مل جاتی تو نقصان ہوتا لہٰذا اللہ دعا کے بدلے مصیبت کو دور کردیتا ہے۔
بندے کے لیے جو باعث نقصان، الجھن وپریشانی ہو اس سے بچا لیتا ہے، وہ دعا قبول نہ کرکے قبول کر رہا ہے اور اس کا بدل دے رہا ہے۔ میں جس چیزکو اچھا سمجھ رہا ہوں، اس میں شر تھا اللہ نے مجھے شر سے بچا لیا وہ دعا نہ قبول کرکے کسی بداعمالی سے بھی بچ گیا۔انسان جب اللہ کے پاس جائے گا تو اس کو کچھ حاصل ہوگا، وہ رب تبارک تعالیٰ سے پوچھے گا یہ اشیا تو میں نے نہیں مانگی تھیں تو اللہ کہے گا دنیا میں جو دعائیں قبول نہیں کیں اس کے بدلے میں یہ سب ہیں۔
نہ قبول ہونے والی دعاؤں کا اس قدر اجر پا کر بندہ کہے گا ،کاش میری اور دعائیں قبول نہ ہوتیں مجھ کو اور زیادہ اجر ملتا۔ ہم لوگ ظاہری دیکھتے ہیں اللہ وہ سب جانتا ہے جو ہمیں نہیں معلوم۔ وہ دعائیں نہ قبول کرکے ہم پر بڑا رحم کرم کرتا ہے، یہ اس کا بڑا احسان ہے اگر وہ اس دعا کو قبول کرلیتا جوکہ ہم نہیں جانتے تو نہ جانے کس قدر ہوتا، مصیبت میں پھنس جاتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے بار بار دعا کرتے ہیں اللہ انھیں اصرار کرنے پر عطا فرماتا ہے بندہ کو نقصان پہنچتا ہے پھر اللہ بچاتا ہے، جو دعائیں اللہ تعالیٰ فوری قبول فرماتا ہے اس کے دو طریقے ہیں۔
(الف)۔ پہلی شکل یہ ہے دعا مانگی فوری قبول ہوئی، مثلاً جو آج دعا کی، کل قبول ہوئی۔ جو مانگا فوری مل گیا۔ دعا مانگی نتیجہ آیا کامیاب ہوگئے اسی قسم کی متعدد دعائیں ہیں جو فوری قبول ہو جاتی ہیں۔(ب)۔کبھی اس دعا کو اللہ تعالیٰ بعد میں قبول کرتا ہے ایسا لمبا عرصہ جو ہم نہیں جانتے بہت دن، کافی عرصہ بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا '' ابراہیم نے کہا میری اولاد میں سے ایک رسول پیدا کر۔ جب اسماعیلؑ اور حاجرہؑ کو مکہ میں لا کر چھوڑا، کہا'' اے اللہ میری اولاد اسماعیلؑ سے اس کی نسل سے انھی میں سے ایک رسول پیدا کر، جو تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے اور تیری کتاب کا علم انھیں دے اور انھیں حکمت عطا فرمائے اور ان کے نفس گناہوں سے پاک کرے۔'' اس دعا کے چار ہزار سال بعد نبی اکرمؐ آئے۔
یہ حضرت ابراہیمؑ کی دعا چار ہزار سال بعد قبول ہوئی۔ دعا ہر مسلمان کی قبول ہوتی ہے کبھی فوری ،کبھی بعد میں، دعاؤں کے بڑے فضائل ہیں مسلمان کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جو شخص دعا کو عبادت سمجھ کرکرتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے وہ مجاہد جو میدان جنگ میں جاتا ہے سوچتا ہے اللہ فتح دے گا یا شہید ہو جائیں گے، اس کا مقصد عبادت ہے مال غنیمت نہیں۔ کوئی اپنے لالچ میں دعا کرتا ہے کہ مال غنیمت حاصل ہو۔ یہ دعا اس کی لالچ پر مبنی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے دعا مستقل کرنا لازم ہے خواہ فائدہ ہو یا نہ ہو۔
دعا بہترین ہدیہ، تحفہ ہے جو ایک دوسرے کو ہم دے سکتے ہیں۔ چند لوگوں میں یہ بات سنی ہے کہ دعا ضعیف (بوڑھے) لوگ دیتے ہیں، ایسی بات ہرگز نہیں، عمر رسیدہ کے ساتھ نوجوان بھی دعا دے سکتے ہیں اللہ قبول کرنیوالا ہے۔ اسلام علیکم بھی دعا ہے۔ دعا مومن کا ہتھیار بھی ہے ہر مصیبت و پریشانی میں مدد دیتی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے سجدہ میں دعا قبول ہوتی ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث درج ہے کہ جمعہ کو ایک ایسی گھڑی ہے جب دعا قبول ہوتی ہے وہ گھڑی عصر اور مغرب کے درمیان آتی ہے۔ نو ذی الحجہ کو دعا کی قبولیت ہے گناہ گارکی توبہ اور دعا اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ مظلوم، بیمار اور مسافر کی دعا رب کبھی رد نہیں کرتا، باپ کی دعا بیٹے، اپنی اولاد اکے لیے کبھی رد نہیں ہوتی۔ تین آدمیوں کی دعا قبول ہوتی ہے۔ 1۔مظلوم۔ 2۔ مسافر۔ 3۔ والد۔
حضورؐ نے فرمایا خوشحالی میں اللہ سے خوب دعا کریں تاکہ مشکل میں دعا قبول ہو۔ خوشحالی میں جو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے وہ تنگ دستی، بدحالی میں اللہ اپنے بندے کو یاد کرتا ہے۔ روزے دار، بیمارکی دعا اللہ قبول کرتا ہے۔ رزق حرام کھانے اورکھلانے والا، رشوت لینے والا، لوٹ مارکرنیوالا، جھوٹ فریب مکاری عیاری والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی اس وقت جب تک وہ برے اعمال کا شکار ہو، صدق دل کے ساتھ توبہ کرنے برے کام چھوڑنے کے بعد اللہ دعا قبول کرتا ہے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا ''دعا میں غیر ضروری باتیں کرنا گناہ ہے۔''اپنے گناہوں کی سزا دنیا میں مانگنا گناہ ہے۔ مسلم کی روایت ہے ایک صحابی نے دعا کی کہ میرے گناہوں کی سزا دنیا میں دے دے۔ وہ صحابی بیمار ہو گیا حضورؐ اس کی عیادت کے لیے گئے تو کہا کیا ایسا کیا ۔
اس نے کہا میں نے ایک دعا مانگی اے اللہ میرے گناہوں کی سزا دنیا میں دے دے۔ حضورؐ نے کہا کیا تجھ میں اتنی طاقت ہے کہ اپنے گناہوں کی سزا دنیا میں بھگت سکے، تُو نے یہ دعا کرنی تھی کہ اے اللہ دنیا بھی آسان کر آخرت بھی آسان کر، عذاب سے بچا۔ جامع ترمذی کی روایت ہے اپنے لیے، اپنے خادم کے لیے، اپنے بھائی کے لیے بدعا کرنا منع ہے۔ بیوی بچوں، بھائی بہن کو جانے انجانے میں برا مت کہو اپنی موت کی بدعا مت مانگو۔ حضورؐ نے فرمایا اپنی جان، خود کو، اپنی اولاد، اپنے خدام اور اپنے مال کے لیے بدعا مت کرو کہ تمہاری زبان سے کہیں ایسے وقت بدعا کے کلمات نکل جائیں جس کو اللہ قبول کرلے۔دعا مستقل عبادت ہے، دعا کرتے رہیں،کبھی مایوس نہ ہوں اور دعا میں کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ مومن کی ہر پریشانی، مصیبت، ہر خوشی، خوشحالی پر دعا ہے۔ اللہ ہم کو اچھے اعمال، سمجھ، خوشیاں عطا فرمائے، دعاؤں کی توفیق دے۔(آمین)