مشرف کا بھلا حکومت کی خیر
ہمارے یہاں تو آنا جانا لگا رہتا ہے کبھی ر یمنڈ ڈیوس آ کر چلا جاتا ہے تو کبھی امریکی کمانڈو ایبٹ آباد سے ہو کر
حکومتوں کو کبھی کبھار سچ بول دینا چاہیے۔ صحت اور ساکھ دونوں کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ مگر جس طرح میاں محمد نواز شریف کی حکومت جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے معاملے کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے اُس سے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ وہ تمام تر دھچکوں کے باوجود حقائق کو بیان کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا نے پچھلے کئی ماہ میں میاں نواز شریف کے قریبی حلقوں سے جنرل مشرف کو پاکستان سے باہر نکالنے کے مسئلے کو اٹھایا۔ عام حالات میں 'دوست'ممالک کے اس 'اتحاد برائے تحفظ مشرف' کو تمام تر مشکلات کے باوجود باآسانی ٹالا جا سکتا تھا۔ صرف یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ ''یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس کے بارے میں فیصلہ ہم اپنی ضرورت اور قواعد و ضوابط کے مطابق کر لیں گے۔
آپ کی درخواست کا شکریہ''۔ مگر چونکہ تمام تر جمہوری ترقی کے باوجود نواز شریف صاحب کی حکومت پر سرور محل کا سحر ابھی باقی ہے لہذا یہ دو جملے نہ کہے جا سکے ۔ اس کے برعکس تقریبا ہر قابل احترام دوست ملک کو بالواسط (اور بعض کو بلاواسط) طور پر یہ یقین دہانی کرا دی کہ اگرچہ سابق جرنیل کے بارے میں وزیر اعظم محترم بڑے سخت جذبات رکھتے ہیں مگر وہ اُن کو ویسے ہی ملک سے باہر جانے دیں گے جیسے انھوں نے اپنے دور میں نواز لیگ کی مرکزی قیادت کو لمبی مگر بروقت اُڑان کا موقع فراہم کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق سعودی عرب کے نمایندے سے جب اس معاملے پر بات چیت ذرا طویل ہو گئی تو انھوں نے فورا یہ اعتراض اٹھایا کہ جرنیل موصوف سے میاں صاحبان کی ملک بدری کا قصہ تو جھٹ سے طے ہو گیا تھا اب یہ الجھنیں کیوں پیدا کی جا رہی ہیں؟ آپ اصول وغیرہ کو اگر ایک لمحے کے لیے ایک طرف کر دیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ خادمین حرمین شریفین نے نکتہ تو صحیح اٹھایا۔ اگر اُس وقت اُن کا کہا پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں تھی تو اب کیونکر ہو سکتی ہے۔ ابھی تک کی معلومات کے مطابق میں آپ کو یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جرنیل صاحب کے دل پر دباؤ آنے سے پہلے ہمار ے حکمران خود پر اتنا دباؤ لے چکے تھے کہ وہ ''آئین کی پامالی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا'' دینے کا خالی ڈھول پیٹنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
مگر نواز شریف صاحب کی حکومت نے مشرف مسئلے کے حل کو صرف بیرونی طور پر ہی طے نہیں کیا، اندرونی طور پر افواج پاکستان کے سابق اور موجودہ سربراہ، بالترتیب جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا بھی بہترین بندوبست کیا۔ جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے حکو مت سے جنرل مشرف کیس کے بارے میں کارروائی کی رپورٹ طلب کی تھی تو نواز شریف کے قریب ترین ساتھی اور معتمدین خاص نے ایک نہیں بلکہ کئی ملاقاتوں میں راولپنڈی والوں کے ساتھ ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس کی تمام ترتفصیلات کا علم جنرل راحیل شریف کو بھی ہے اور اُن کور کمانڈرز کو بھی جن سے کوئی بات بھی مخفی نہیں رکھی جاتی۔ اس لائحہ عمل کے مطابق عدالت کو یہ یقین دہانی کرانی تھی کہ حکومت اس مقدمے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس کو منطقی نتیجے تک پہنچانے میں کوئی پس و پیش نہیں کرے گی۔ ظاہر ہے اس وقت یہ سب کچھ کہہ کے حکومت نے اس وقت کے چیف جسٹس کی طرف سے آنے والے دباؤ سے تو وقتی طور پر آزاد کر لیا مگر یہ کرتے ہوئے خود کو فوج کے ساتھ اُس وعدے کے بندھن میں بھی باندھ لیا کہ جنرل مشرف کی جان بخش دی جائے گی۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی ایجنڈے کا حصہ بنایا کہ مو قع ملنے پر سابق سربراہ آرمی پر باہر جانے والا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے گا۔
درمیان میں نہ جانے کن وجوہات کی بنیاد پر جب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مشرف کیس میں حکومت کی طر ف سے حیرت انگیز پھرتی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو راولپنڈی والوں نے یاد دہانی کے پے درپے اور بااثر پیغامات ارسال کر دیے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آ گیا کہ جب راولپنڈی ایک پریس ریلیز کے ذریعے مشرف کیس پر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اُن خبروں کی تردید کرنا چاہ رہا تھا جو اُن کے خیال کے میں نواز شریف کیمپ ایک مخصوص اخبار میں چھپوا کر یہ تصور پیدا کر رہا تھا کہ آرمی جنرل مشرف کو عدالتوں کے ذریعے سزا دلوانے کے حق میں ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے نائب وزیر اعظم اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کا، ان کے کہنے پر یہ تلخی دور ہو گئی اور فریقین اس معاہدے پر واپس آ گئے جو اِس سے پہلے طے پا چکا تھا۔ یہ معاہدہ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد بھی قائم ہے۔ آرمی کے تمام اعلی افسران کو اپنی اعلی ترین کمان کی طرف سے یہی بتایا گیا ہے کہ اگرچہ جنرل مشرف نے اپنی حماقتوں سے خود کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پھر بھی سابق آرمی کمانڈر ہونے کے صدقے آرمی اُن کو سیاست دانوں کے ہاتھوں بھیانک مثال نہیں بننے دے گی۔
جنرل راحیل شریف کے لیے اس پیغام کو واضح انداز میں دہرانا اس وجہ سے بھی ضروری تھا کہ اُن کی تعیناتی کے حوالے سے پہلے سے ہی الٹی سیدھی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ اگر جنرل مشرف کو اُن کے ہوتے ہو ئے پھانسی یا عمر قید کی سزا ہو جاتی تو جنرل شریف کے بارے میں افواہوں کی دھند مزید گہری ہو جاتی۔ اس تناظر میں آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ جرنیل موصوف کے دل کی نسیں کیوں اور کیسے بند ہوئی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ آنے والے دنوں میں اُن کے مقدمے کی فائل کیسے بند ہو سکتی ہے۔ مگر ان وعدوں کی دلدل میں پھنسنے کے بعد اب وزیر اعظم نواز شریف کو یہ احساس ہو رہا ہو گاکہ اس مسئلے کو کسی اور طر یقے سے حل کرنا چاہیے تھا۔ مشرف کے دل میں نواز لیگ کی سیاسی دھڑکنیں اتنی تیز کر دی ہیں کہ پارٹی کی تمام قیادت کا سانس چڑھ گیا ہے۔ ہر کوئی وزیر اعظم کو یہ مشورہ دے رہا ہے کہ مشرف کا اس وقت ملک سے چلے جانا جماعت کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔ دیکھتے ہیں وزیر اعظم اگلا قدم کیا اٹھاتے ہیں۔
بہر حال حکومت کی طرف سے تردیدی بیان اور وضاحتیں جا رہی رہیں گی۔ وہ یہ کہتے رہیں گے کہ اس تما م مقدمے میں اُن کا کردار صاف و شفاف ہے۔ نہ انھوں نے جنرل مشرف کی بروقت بیماری میں کوئی حصہ ڈالا ہے اور نہ ہی عدالت کی طرف سے چلنے والے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ان دلیلوں اور جملوں پر کوئی کان دھرے یا نہ دھرے یہ جاری وساری رہیں گے۔ اور کیوں نہ رہیں۔ پاکستان میں منتخب ہونے کا مطلب ہے کھلی چھٹی۔ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دن کو رات اور رات کو دن بیان کر دیں۔ آسمان نہیں گرے گا۔ زمین نہیں پھٹے گی۔ ویسے حکومت اگر وضاحتی بیان نہ بھی دے تو کیا ہو گا؟ کچھ نہیں۔ ہما رے یہاں قومی یاداشت 24 گھنٹے سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ایک دن بعد ہم کسی اور مسئلے میں الجھے ہوں گے۔ ہمارے یہاں تو آنا جانا ویسے بھی لگا رہتا ہے کبھی ر یمنڈ ڈیوس آ کر چلا جاتا ہے تو کبھی امریکی کمانڈو ایبٹ آباد میں سے ہو کر نکل جاتے ہیں۔ حسین حقانی بھی نکل گیا اور شوکت عزیز بھی۔ جنر ل مشرف چلا جائے گا تو کیا فرق پڑے گا۔ سب کچھ جوں کا توں رہے گا۔ پا ئیدار جمہوریت۔ نمایندہ حکومت۔ سب کا بھلا۔ سب کی خیر۔
آپ کی درخواست کا شکریہ''۔ مگر چونکہ تمام تر جمہوری ترقی کے باوجود نواز شریف صاحب کی حکومت پر سرور محل کا سحر ابھی باقی ہے لہذا یہ دو جملے نہ کہے جا سکے ۔ اس کے برعکس تقریبا ہر قابل احترام دوست ملک کو بالواسط (اور بعض کو بلاواسط) طور پر یہ یقین دہانی کرا دی کہ اگرچہ سابق جرنیل کے بارے میں وزیر اعظم محترم بڑے سخت جذبات رکھتے ہیں مگر وہ اُن کو ویسے ہی ملک سے باہر جانے دیں گے جیسے انھوں نے اپنے دور میں نواز لیگ کی مرکزی قیادت کو لمبی مگر بروقت اُڑان کا موقع فراہم کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق سعودی عرب کے نمایندے سے جب اس معاملے پر بات چیت ذرا طویل ہو گئی تو انھوں نے فورا یہ اعتراض اٹھایا کہ جرنیل موصوف سے میاں صاحبان کی ملک بدری کا قصہ تو جھٹ سے طے ہو گیا تھا اب یہ الجھنیں کیوں پیدا کی جا رہی ہیں؟ آپ اصول وغیرہ کو اگر ایک لمحے کے لیے ایک طرف کر دیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ خادمین حرمین شریفین نے نکتہ تو صحیح اٹھایا۔ اگر اُس وقت اُن کا کہا پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں تھی تو اب کیونکر ہو سکتی ہے۔ ابھی تک کی معلومات کے مطابق میں آپ کو یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جرنیل صاحب کے دل پر دباؤ آنے سے پہلے ہمار ے حکمران خود پر اتنا دباؤ لے چکے تھے کہ وہ ''آئین کی پامالی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا'' دینے کا خالی ڈھول پیٹنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
مگر نواز شریف صاحب کی حکومت نے مشرف مسئلے کے حل کو صرف بیرونی طور پر ہی طے نہیں کیا، اندرونی طور پر افواج پاکستان کے سابق اور موجودہ سربراہ، بالترتیب جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا بھی بہترین بندوبست کیا۔ جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے حکو مت سے جنرل مشرف کیس کے بارے میں کارروائی کی رپورٹ طلب کی تھی تو نواز شریف کے قریب ترین ساتھی اور معتمدین خاص نے ایک نہیں بلکہ کئی ملاقاتوں میں راولپنڈی والوں کے ساتھ ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس کی تمام ترتفصیلات کا علم جنرل راحیل شریف کو بھی ہے اور اُن کور کمانڈرز کو بھی جن سے کوئی بات بھی مخفی نہیں رکھی جاتی۔ اس لائحہ عمل کے مطابق عدالت کو یہ یقین دہانی کرانی تھی کہ حکومت اس مقدمے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس کو منطقی نتیجے تک پہنچانے میں کوئی پس و پیش نہیں کرے گی۔ ظاہر ہے اس وقت یہ سب کچھ کہہ کے حکومت نے اس وقت کے چیف جسٹس کی طرف سے آنے والے دباؤ سے تو وقتی طور پر آزاد کر لیا مگر یہ کرتے ہوئے خود کو فوج کے ساتھ اُس وعدے کے بندھن میں بھی باندھ لیا کہ جنرل مشرف کی جان بخش دی جائے گی۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی ایجنڈے کا حصہ بنایا کہ مو قع ملنے پر سابق سربراہ آرمی پر باہر جانے والا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے گا۔
درمیان میں نہ جانے کن وجوہات کی بنیاد پر جب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مشرف کیس میں حکومت کی طر ف سے حیرت انگیز پھرتی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو راولپنڈی والوں نے یاد دہانی کے پے درپے اور بااثر پیغامات ارسال کر دیے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آ گیا کہ جب راولپنڈی ایک پریس ریلیز کے ذریعے مشرف کیس پر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اُن خبروں کی تردید کرنا چاہ رہا تھا جو اُن کے خیال کے میں نواز شریف کیمپ ایک مخصوص اخبار میں چھپوا کر یہ تصور پیدا کر رہا تھا کہ آرمی جنرل مشرف کو عدالتوں کے ذریعے سزا دلوانے کے حق میں ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے نائب وزیر اعظم اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کا، ان کے کہنے پر یہ تلخی دور ہو گئی اور فریقین اس معاہدے پر واپس آ گئے جو اِس سے پہلے طے پا چکا تھا۔ یہ معاہدہ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد بھی قائم ہے۔ آرمی کے تمام اعلی افسران کو اپنی اعلی ترین کمان کی طرف سے یہی بتایا گیا ہے کہ اگرچہ جنرل مشرف نے اپنی حماقتوں سے خود کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پھر بھی سابق آرمی کمانڈر ہونے کے صدقے آرمی اُن کو سیاست دانوں کے ہاتھوں بھیانک مثال نہیں بننے دے گی۔
جنرل راحیل شریف کے لیے اس پیغام کو واضح انداز میں دہرانا اس وجہ سے بھی ضروری تھا کہ اُن کی تعیناتی کے حوالے سے پہلے سے ہی الٹی سیدھی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ اگر جنرل مشرف کو اُن کے ہوتے ہو ئے پھانسی یا عمر قید کی سزا ہو جاتی تو جنرل شریف کے بارے میں افواہوں کی دھند مزید گہری ہو جاتی۔ اس تناظر میں آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ جرنیل موصوف کے دل کی نسیں کیوں اور کیسے بند ہوئی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ آنے والے دنوں میں اُن کے مقدمے کی فائل کیسے بند ہو سکتی ہے۔ مگر ان وعدوں کی دلدل میں پھنسنے کے بعد اب وزیر اعظم نواز شریف کو یہ احساس ہو رہا ہو گاکہ اس مسئلے کو کسی اور طر یقے سے حل کرنا چاہیے تھا۔ مشرف کے دل میں نواز لیگ کی سیاسی دھڑکنیں اتنی تیز کر دی ہیں کہ پارٹی کی تمام قیادت کا سانس چڑھ گیا ہے۔ ہر کوئی وزیر اعظم کو یہ مشورہ دے رہا ہے کہ مشرف کا اس وقت ملک سے چلے جانا جماعت کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔ دیکھتے ہیں وزیر اعظم اگلا قدم کیا اٹھاتے ہیں۔
بہر حال حکومت کی طرف سے تردیدی بیان اور وضاحتیں جا رہی رہیں گی۔ وہ یہ کہتے رہیں گے کہ اس تما م مقدمے میں اُن کا کردار صاف و شفاف ہے۔ نہ انھوں نے جنرل مشرف کی بروقت بیماری میں کوئی حصہ ڈالا ہے اور نہ ہی عدالت کی طرف سے چلنے والے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ان دلیلوں اور جملوں پر کوئی کان دھرے یا نہ دھرے یہ جاری وساری رہیں گے۔ اور کیوں نہ رہیں۔ پاکستان میں منتخب ہونے کا مطلب ہے کھلی چھٹی۔ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دن کو رات اور رات کو دن بیان کر دیں۔ آسمان نہیں گرے گا۔ زمین نہیں پھٹے گی۔ ویسے حکومت اگر وضاحتی بیان نہ بھی دے تو کیا ہو گا؟ کچھ نہیں۔ ہما رے یہاں قومی یاداشت 24 گھنٹے سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ایک دن بعد ہم کسی اور مسئلے میں الجھے ہوں گے۔ ہمارے یہاں تو آنا جانا ویسے بھی لگا رہتا ہے کبھی ر یمنڈ ڈیوس آ کر چلا جاتا ہے تو کبھی امریکی کمانڈو ایبٹ آباد میں سے ہو کر نکل جاتے ہیں۔ حسین حقانی بھی نکل گیا اور شوکت عزیز بھی۔ جنر ل مشرف چلا جائے گا تو کیا فرق پڑے گا۔ سب کچھ جوں کا توں رہے گا۔ پا ئیدار جمہوریت۔ نمایندہ حکومت۔ سب کا بھلا۔ سب کی خیر۔