نئے حالات میں پرانی یاد

ہمارے ہاں کچھ معاملات واقعتاً ایسے ہیں جہاں ’’ہم ہوئے کہ تم ہوئے‘‘ سب ’’اسی زلف‘‘ کی پابندی میں جکڑے محسوس کرتے ہیں


Nusrat Javeed January 03, 2014
[email protected]

اس کالم میں یہ واقعہ میں دو بار لکھ چکا ہوں۔ آج پھر دہرانے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ ہوا یوں کہ 2010ء کے ابتدائی مہینوں میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے درمیان افتخار چوہدری کو بحال نہ کرنے کی وجہ سے اختلافات سنگین تر ہونا شروع ہو چکے تھے۔ صدر زرداری نے معاملات کو کسی صورت قابو میں رکھنے کے لیے بطور صدر رائے ونڈ جا کر نواز شریف سے اچانک تنہائی میں ایک لمبی ملاقات کر ڈالی۔ اس ملاقات کے عین دوسرے روز میری آصف علی زرداری سے دوپہر کے کھانے پر ملاقات کئی دن پہلے طے ہو چکی تھی۔ اس ملاقات کے لیے ایوان صدر جاتے ہوئے میں بہت شاداں محسوس کرتا رہا۔ بطور رپورٹر طے کر لیا کہ زرداری صاحب سے اپنی ملاقات کے دوران سارا فوکس یہ جاننے پر رکھوں گا کہ تنہائی میں ان کے اور نواز شریف صاحب کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔ ایوانِ صدر پہنچ جانے کے بعد ''موگابو'' یہ جان کر مزید خوش ہوا کہ میرے اور ان کی ملاقات کے درمیان کوئی تیسرا شخص موجود نہیں ہو گا۔

''دوٹکے کا رپورٹر'' وفورِ جذبات میں لیکن یہ بھول چکا تھا کہ صدر بن جانے کے بعد آصف علی زرداری نے اپنی زبان پر تالے لگا لیے تھے۔ آپ کے ''معصوم'' سوالات کو بھی وہ مسکرا کر ٹال دیتے اور ساری گفتگو کا رُخ ایسے موضوعات پر مرکوز رکھتے جن میں ہماری لوک شاعری کا تذکرہ ہوتا اور ماحولیات کا خیال رکھتے ہوئے فصلوں سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے منصوبے بھی بتائے جاتے۔ ان سے ملاقات خواہ کتنی بھی طویل ہو جاتی گھر لوٹتے ہوئے کسی ''ٹھوس خبر'' کے حوالے سے میں ایک فقرہ بھی یاد نہ کر پاتا۔

ہماری یہ ملاقات جس کا میں ذکر کر رہا ہوں شروع ہوئی تو واضح ہو گیا کہ زرداری کسی صورت نواز شریف کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کچھ بیان کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ میرے بیٹھنے اور حال احوال پوچھنے کے فوراَ بعد انھوں نے چین کی معجزہ نما اقتصادی ترقی کے بارے میں ایک بہت ہی لمبی تقریر فرمانا شروع کر دی۔ پھر دادو سے شروع ہونے والے اس طویل و عریض رقبے کا ذکر شروع کر دیا جہاں ان کے خیال میں چینی اپنی ٹیکنالوجی کی بدولت نقد آور فصلیں اُگا سکتے ہیں۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ اگر چینی اس امر پر تیار ہو جائیں تو وہ سندھ کی ہاری خواتین کو بے نظیر انکم اسکیم کے تحت زمینیں آباد کرنے کے اس منصوبے کا حصہ دار بنا سکیں۔

میں منافقانہ ہوں ہاں کرتے ہوئے ان کے خواب مصنوعی گرم جوشی سے سنتا رہا۔ آصف علی زرداری مگر Street Smart ہیں۔ سامنے بیٹھے شخص کا چہرہ فوراَ پڑھ لیتے ہیں۔ میرے دلی جذبات انھوں نے محسوس کر لیے اور سوال کر ڈالا کہ میں اتنا بیزار کیوں دکھائی دے رہا ہوں۔ چونکہ بڑے اشتیاق سے اس ملاقات کے لیے گیا تھا اس لیے ڈھیٹ بن کر جواباَ یہ بیان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ ذات کا رپورٹر ہوں۔ صدرِ پاکستان سے تنہائی میں ملاقات کروں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اپنے ''دھندے'' کے حوالے سے میں ان ''قیمتی لمحات'' سے کیا حاصل کر پایا ہوں۔ جواباَ انھوں نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور بڑی فراخ دلی سے پوچھ ڈالا کہ اس دن کی ملاقات سے کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہوں۔ میں نے نواز شریف سے ان کی رائے ونڈ والی ملاقات کا ذکر کر ڈالا۔ وہ تھوڑی دیر کو چپ ہو گئے۔ پھر چھت کو دیکھنا شروع کر دیا۔ کافی طویل محسوس ہوتے وقفے کے بعد انھوں نے بڑی سادگی سے پوچھا ''تم نے نوٹس کیا کہ نواز شریف سے ملاقات کے دوران میں نے سندھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی''۔

میں نے نوٹس تو نہیں لیا تھا۔ مگر یاد آ گیا تو زور دار ہاں سے جواب دیا۔ میرے جواب کے بعد زرداری صاحب نے انکشاف کیا کہ تنہائی میں ان سے ملاقات کے دوران نواز شریف بار بار ایک ہی فقرہ دہراتے رہے اور وہ یہ کہ ''تسی پرویز مشرف نوں گارڈ آف آنر دے کے کیوں بھیج دتّا۔ اوہدا ٹرائل ہونا چاہیے دا سی'' بالآخر بقولِ آصف علی زرداری انھوں نے نواز شریف کو اپنے سر پر پہنی سندھی ٹوپی اُنگلی کے اشارے سے دکھائی اور کہا کہ ''ہم لوگ پہلے ہی بہت لاشیں دے چکے ہیں۔ اب مزید پنگے لینے کی ہمت نہیں رہی''۔ یہ اعتراف کرنے کے بعد آصف علی زرداری نے بقول ان کے بڑے خلوص سے نواز شریف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے رہنما ہیں۔ عوام میں ان کی مقبولیت بھی مسلّم ہے اور آیندہ انتخابات تک شاید وہ کہیں زیادہ مضبوط ہوجائے گی۔ ہو سکتا ہے وہ ایک بار پھر بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں۔ ایسا ہو گیا تو نواز شریف صاحب جنرل مشرف کا ٹرائل ضرور کریں اور آصف زرداری کا یہ خیال بھی تھا کہ ''آزاد عدلیہ'' کی وجہ سے شاید وہ یہ کام ان سے زیادہ بہتر صورت کر پائیں گے۔

بہرحال اس سال مئی 2013ء میں نواز شریف اس ملک کے تیسری بار ایک بھاری اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بن گئے۔ دریں اثناء جنرل مشرف بھی وطن لوٹ آئے اور پھر 3 نومبر 2007ء کے حوالے سے غداری وغیرہ کا کیس بھی ان کے خلاف بن گیا۔ اس کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہو جانے کے پہلے دن سے جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے، اس کے بارے میں اپنی زبان نہ ہی کھولوں تو بہتر ہے۔ بس اتنی خواہش ضرور ہے کہ آصف علی زرداری سے آیندہ چند دنوں میں آمنے سامنے والی ملاقات ہو جائے۔ میں ان کی خدمت میں عرض کروں گا تو صرف اتنا کہ پاکستان کا صدر منتخب ہو جانے کے بعد انھوں نے نواز شریف کو جنرل مشرف کے حوالے سے رائے ونڈ میں جو کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی اسے یعنی اپنی بات کو مزید موثر بنانے کے لیے انھیں سندھی ٹوپی پہننے کی ضرورت نہ تھی۔ ہمارے ہاں کچھ معاملات واقعتاً ایسے ہیں جہاں ''ہم ہوئے کہ تم ہوئے'' سب ''اسی زلف'' کی پابندی میں جکڑے محسوس کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں