ڈاکٹر علوی قاضی اور مرد صحرا
ہمارے کچھ اہم لوگوں میں نظر نہ آنے والا ایک عمرانی معاہدہ ہو چکا ہے کہ انھوں نے سارا دن صرف اور صرف مایوسی پھیلانی ہے
FAISALABAD:
میں سارا دن سرکاری افسروں سے ملتا رہتا ہوں۔ اسٹاف کالج میں ہونے کی وجہ سے میں شائستگی سے ان کے ذہن کا جائزہ لیتا ہوں، ان سے حساس موضوعات پر باتیں کرتا ہوں۔ شام تک میں تھک کر اپنی اسٹڈی میں بیٹھ کر کافی دیر تک سوچتا ہوں کہ آج کا دن کیسا گزرا۔ بلاشبہ یہ ہمارے نظام کے ذہین اور منجھے ہوئے لوگ ہیں۔ لیکن یہ تمام لوگ ٹیبل کے اُس طرف بیٹھے ہیں جہاں صرف وہ حکم دیتے ہیں۔ میز کی مخالف سمت میں ان کے سامنے مسائل میں پِسے ہوئے عوام کی ان گنت لمبی قطاریں ہیں۔ ٹاک شوز میں کچھ اینکر پرسنز (Anchor Persons) اتنی بلند آواز سے ملک کی برائیاں کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ پروگرام ختم ہونے سے پہلے پاکستان میں قیامت برپا ہو چکی ہو گی۔ ہمارے چند اہل علم، اہل قلم اور دانشور ہر روز اس ملک میں باتوں سے غدر کی سی کیفیت پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ اہم لوگوں میں نظر نہ آنے والا ایک عمرانی معاہدہ ہو چکا ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے سارا دن اور رات گئے، صرف اور صرف مایوسی پھیلانی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ملک مضبوطی سے قائم ہے اور ہر شہر اور دیہات میں زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی ہے۔
یہ درست ہے کہ صورت حال مثالی نہیں مگر میرا سوال یہ ہے کہ دنیا کا کوئی خطہ بتا دیں جہاں صورت حال واقعی مثالی ہو۔ ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں اور ہر ملک میں لوگوں کی اپنی زندگی اور جدوجہد ہے۔ مایوسی اور یاس کے اس سمندر میں وہ کون لوگ ہیں جو کشتی کا کام کر رہے ہیں؟ وہ کون ہیں جو اُس سمندر سے بالکل نہیں گھبراتے۔ بلکہ اِس کے سامنے ایک بند باندھ دیتے ہیں اور سمندر کو اپنی ہمت سے در حقیقت خشک کر دیتے ہیں۔ یہ ہر ایک کو روشنی دکھاتے ہیں اور وہ زندگی کی علامت اور خوشبو ہیں۔ صاحبان! یہ ہمارے عام لوگ ہیں۔ جی ہاں! ہمارے عام آدمی خود کش حملوں کے دوران بھی اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں مناتے ہیں۔ غم تو زندگی کا لازم جزو ہے ہی، اس کے تو وہ ویسے ہی عادی ہو چکے ہیں۔ ہماری یہ طاقت اور زندگی کی یہ رمق کوئی بھی ہم سے نہیں چھین سکتا۔
فاروق علوی ایک ایسا شخص ہے جسے کوئی بھی پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ اُس میں ظاہری طور پر کوئی بھی ایسا وصف نہیں کہ کوئی اُس پر دوسری بار غور کرے۔ اس نے Fsc کے امتحان میں ملتان بورڈ میں پرائیویٹ طالب علموں کی درجہ بندی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ کِنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج میں آ کر دو سال اُس نے شدید محنت کی۔ وہ دن میں آٹھ سے دس گھنٹے بڑے آرام سے پڑھ لیتا تھا۔ پھر اُس نے پڑھنا بالکل چھوڑ دیا۔ جیسے تیسے ڈاکٹر بنا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد اُس نے ایک سال کا ہاؤس جاب تقریباً تین سال میں مکمل کیا۔ وہ پورے ہاسٹل میں بادشاہ سلامت کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔ وہ مختلف ہاسٹلز میں تقریباً پندرہ برس رہا۔ اُس کا کمرہ ہر بندے کے لیے ہر وقت حاضر تھا۔ ڈاکٹر بننے کے اُس نے دس پندرہ سال بے مقصد مٹر گشت میں ضایع کر دیے۔ سب کا خیال تھا کہ علوی کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ ایک بے مقصد زندگی کی مجسم تصویر بن چکا تھا۔ آٹھ سال پہلے وہ ایک دم غائب ہو گیا۔ منڈی بہاؤالدین کے شہر سے کچھ فاصلے پر کھدر شریف میں ایک خانقاہ ہے۔ ڈاکٹر علوی اُس سے منسلک ہو چکا تھا۔ خانقاہ کے روح رواں آنکھوں کے ایک ڈاکٹر تھے۔
علوی نے ملک کے ان علاقوں میں آئی کیمپ لگانے شروع کر دیے جہاں کسی قسم کی کوئی بھی طبعی سہولت موجود نہیں تھی۔ وہ اب عشاء کی نماز کے بعد آپریشن شروع کرتا ہے اور فجر پڑھ کر سو جاتا ہے۔ پھر صبح ساڑھے آٹھ سے مریضوں کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سلسلہ سارا دن جاری رہتا ہے۔ ڈاکٹر علوی مریض دیکھنے اور آپریشن کرنے کے کوئی پیسہ نہیں لیتا۔ یہ سارا کام اور مشقت وہ خدا کی راہ میں کرتا ہے۔ اس کے پاس سفید کُرتے شلوار کے صرف دو جوڑے ہیں۔ وہ اپنے کپڑے خود دھوتا ہے۔ نہانے کے لیے گرم پانی استعمال نہیں کرتا۔ وہ خانقاہ کے درویشوں اور خدام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ اور رات کو انھیں میں سو جاتا ہے۔ وہ آزاد کشمیر، شمالی علاقہ جات اور جنگلوں میں کیمپ لگاتا ہے۔ وہ روز پیدل جا کر ہر اُس جگہ پر پہنچ جاتا ہے جہاں کوئی حکومت، کوئی ادارہ یا این جی او نہیں پہنچ سکتی۔ وہ لوگوں کی بِلا معاوضہ خدمت کرتا ہے۔
چھ سال قبل ڈاکٹر علوی اور اُس خانقاہ کے انچارج ڈاکٹر نے پاک بیگھہ میں ایک مسجد بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہندوستان میں موتی محل مسجد کا نقشہ منگوایا گیا۔ اس مسجد کا تخمینہ کروڑوں میں تھا۔ ان لوگوں نے وہ مسجد بنانی شروع کر دی۔ کئی ماہرین تعمیرات نے اُن کو پاگل قرار دیا لیکن ان لوگوں نے سیمنٹ اور لوہے کے بغیر پاکستان کی فن تعمیر کا ایک معجزہ بنا ڈالا۔ ڈاکٹر ہفتہ میں ایک دن مسجد کی جگہ پر پتھر کاٹتا ہے اور مزدوری کرتا ہے۔ مسجد اب تقریباً بن چکی ہے۔ ڈاکٹر اپنی مزدوری کے کوئی پیسے نہیں لیتا۔ اب اُس جگہ پر سیکڑوں لوگ کام کرتے ہیں۔ اُس کا مہینہ کا خرچہ بارہ ہزار سے کم ہے۔ وہ سارا دن اور رات کام کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ انتہائی خوش و خرم اور پُر امید رہتا ہے اور ہر وقت مسکراتا رہتا ہے۔
قاضی پرانی گاڑیوں کی خرید و فروخت میں بروکر کا کام کرتا ہے۔ اسے صرف یہی کام آتا ہے۔ وہ گاڑی کو دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ اُس پر رنگ دوبارہ ہوا ہے یا نہیں؟۔ وہ گاڑی پر انگلی رکھتا ہے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ گاڑی میں کوئی نقص ہے کہ نہیں؟۔ کوئی حصہ بدلا تو نہیں گیا؟ پہلے وہ سارا دن گاڑیوں کا کام کرتا تھا لیکن اب وہ صرف ایک دن کام کرتا ہے۔ وہ سمن آباد کے نزدیک ایک چھوٹے سے محلہ میں قیام پذیر ہے۔ اپنے کاروبار سے چھ سات ہزار روپے ہفتہ کما لیتا ہے۔ گاڑیوں کے جمعہ بازار میں تو وہ چار گھنٹوں میں یہ رقم حاصل کر لیتا ہے۔ اُس کے بعد وہ خاموشی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ قاضی انتہائی غریب بستی میں رہتا ہے۔ ہر ہفتے وہ اپنی تمام کمائی میں سے دو سو روپے اپنے پاس رکھتا ہے اور باقی تمام رقم ان ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیتا ہے جو اُس بستی میں رہتے ہیں۔ کئی انتہائی مفلس لوگ جو دوائی نہیں خرید سکتے، قاضی اطمینان سے ان کے پاس جا کر ان سے پرچی لیتا ہے اور دوائی خرید کر ان کے حوالے کر دیتا ہے۔ وہ بازار سے کھانا نہیں بنواتا، وہ خود کھانا بناتا ہے کہ اُس میں کم پیسے لگتے ہیں۔ وہ کھانا بنا کر ان لوگوں کے گھر دے آتا ہے جو لاہور شہر، جی ہاں اسی شہر میں دنوں سے فاقہ سے ہیں۔ وہ انتہائی اطمینان سے زندگی گزار رہا ہے۔ قاضی کوئی فالتو بات نہیں کرتا۔ اُس نے کوئی داڑھی نہیں رکھی ہوئی۔ وہ کسی کو نصیحت نہیں کرتا۔ وہ سارا کام خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا۔ اُس کو کوئی شخص نہیں جانتا۔ شائد کوئی اُس کے نام سے بھی واقف نہیں۔ اسے کوئی سرٹیفیکٹ یا ستائش کا کوئی کاغذ یا کسی کی شاباش نہیں چاہیے۔
ڈاکٹر ارشد بٹ ایک عجیب شخص ہے۔ وہ مرد صحرا، انتہائی نفیس مگر سادہ کپڑے پہنتا ہے۔ اس کے پاس چھوٹی سی گاڑی ہے۔ اُس گاڑی کو وہ اکثر خود صاف کرتا ہے۔ ارشد کے والد پی ایچ ڈی (P.H.D) کرنے 1956ء میں امریکا گئے۔ انھیں وہاں شہریت کی پیشکش کی گئی۔ وہ انکار کر کے لائل پور میں زرعی یونیورسٹی میں تدریس کا کام کرنے لگ گئے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ انھوں نے امریکی شہریت نہیں لی اور پاکستان آ کر تیس سال تک طالب علموں کو کیمسڑی کی تعلیم دیتے رہے۔ ارشد بٹ سے آپ موسیقی، تاریخ یا دین پر بات کریں تو آپ حیران ہو جائیں گے۔ اُس کے سامنے آپ نور جہاں، غلام علی، مہدی حسن، امانت علی خان یا کسی گلوکار کا کوئی پاکستانی گانے رکھ دیں۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو اس کے شاعر کا نام بتائیں گے۔ وہ موسیقار کے نام کے بعد آپ کو سمجھائیں گے کہ اُس گانے میں کون سا راگ استعمال ہوا ہے۔ پھر وہ اُس گانے میں استعمال ہونے والے سازوں کے متعلق بھی تفصیل سے بات کریں گے۔ موسیقی کے متعلق اتنی معلومات میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھیں یا سنیں۔ آپ دین پر بات کریں تو آپ مزید حیران ہو جائینگے۔ اُس کا مطالعہ اس اونچے اور پختہ درجہ کا ہے کہ آپ سطحی لیول پر اس شخص سے قطعاً بات نہیں کر سکتے۔
روحانیت کی جزئیات، آقا کی سیرت کے متعلق بیان اور قرآن کے مفہوم پر وہ گھنٹوں لیکچر دے سکتا ہے۔ سیرت کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جو اُس کی نظروں سے نہ گزری ہو۔ وہ لاہور کینٹ میں ایک بازار میں پریکٹس کرتا ہے۔ ڈاکٹر نے صبح کی پریکٹس ختم کر دی ہے۔ وہ اب صبح کے وقت باغ جناح کی لائبریری میں پانچ گھنٹے مطالعہ کرتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ پریکٹس چھوڑنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ مطالعہ میں حرج ہوتا ہے۔ مزید کہ شام کی پریکٹس سے اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ آرام اور عزت سے گزارا ہو جاتا ہے۔ اُس مرد صحرا کو کوئی نہیں جانتا۔ کوئی اُس کی شکل سے واقف نہیں۔ کسی اخبار میں کبھی اُس کی تصویر نہیں چھپی۔ وہ مشکل سے مشکل ترین موضوع پر بھی ایک مدلل رائے رکھتا ہے۔
یہ تمام لوگ بالکل عام سے لوگ ہیں۔ یہ سرکار کے کسی شعبہ سے منسلک نہیں۔ انھیں کسی نے آج تک کوئی شاباش نہیں دی۔ ان کو شائد ان کے اہل خانہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان کو سڑک پر روک کر کوئی آٹو گراف نہیں لیتا۔ ان کی کوئی پہچان نہیں۔ لیکن یہ تینوں لوگ بلکہ ان جیسے لاکھوں لوگ روشنی کے وہ مینار ہیں جو آپ کو زندگی کا جواز مہیا کرتے ہیں۔ یہ صرف اپنا کام کرتے ہیں۔ جب تک، اس طرح کے لوگ موجود ہیں کوئی حکمران، کوئی دانشور اور مایوسی پھیلانے والا کوئی عالم اس ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ ہی دراصل پاکستان ہیں؟