حکومت مقامی سرمایہ کاروں کو بھی سہولیات فراہم کرے کراچی کی اہمیت گھٹائی نہیں جا سکتی شمیم فرپو کی کتھا

پہلی نوکری 12 سال کی عمر میں کرنی پڑی، ایوان صنعت وتجارت، کراچی کے صدر شمیم فرپو کی کتھا

جتنا نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اُتنا ہی آگے بڑھتا چلا گیا، شمیم فرپو (فوٹو: ایکسپریس)

23 مارچ 1947ءکو دلی میں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اسی برس ہندوستان کا بٹوارہ ہوا خاندان نے ہجرت کی تو چھے ماہ کے تھے۔ برنس روڈ پر رہائش رہی، چھے سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھا، مال واسباب والد کی پہلی بیوی کی اولاد کے حصے میں آگیا، ان کی زندگی مشکلات کا شکار ہوگئی 12 سال کی عمر میں ماموں کی دکان پر 80 روپے ماہانہ کے عوض نوکری کی۔


دن میں کام کرتے اور رات میں پڑھتے، میٹرک کے بعد بی کام تک ساری تعلیم پرائیوٹ طالب علم کے طور پر جاری رہی۔ 18 سال کی عمر میں تنخواہ 120 روپے ہوگئی، جو ایک معقول رقم تھی۔ اپنا کاروبار شروع کرنا چاہا، تو ابتداً والدہ نے کم عمری اور ناتجربے کاری کی بنا پر اجازت نہیں دی اور کہا کہ بہتر یہی ہے کہ ملازمت ہی جاری رکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ پس انداز کیے ہوئے روپے بھی ضایع ہو جائیں، لیکن انہوں نے ضد کر کے اجازت لی۔ والدہ نے نصیحت کی کہ 'زندگی میں کام یاب ہونا چاہتے ہو، تو کبھی کسی کے نقصان میں اپنا نفع تلاش نہ کرنا اور ہو سکے، تو اپنے نفع میں دوسروں کو شامل کرنا، اس سے اللہ عطا کرے گا۔' کہتے ہیں کہ اس بات کو پلو سے باندھ لیا اور سرخرُو ہوئے۔

یہ تذکرہ ہے ایوان صنعت وتجارت کراچی کے صدر شمیم فِرپو کا، جنہوں نے 1968ءمیں طارق روڈ پر 'فِرپو' کے نام سے ریستوران قائم کر کے باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کیا۔ اُس زمانے میں شاذونادر ہی کسی گھر میں ٹی وی ہوتا تھا، لہٰذا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ریستوران میں ٹی وی لگایا، یہ نہایت کارگر نسخہ ثابت ہوا اور لوگ یہاں پیشگی اپنی نشستیں مختص کرانے لگے۔ کہتے ہیں یہ وہ زمانہ تھا جب طارق روڈ سے ایک گاڑی گزر جائے، تو دوسری گاڑی کو دوربین لگا کر دیکھنا پڑتا تھا، آج اُسی طارق روڈ پر اتنی گاڑیاں ہیں کہ گزرنا محال ہے۔ سستا زمانہ تھا، 45 پیسے کی بوتل اور آٹھ آنے کی چائے مل جاتی۔ ریستوران صبح سات سے رات ڈھائی بجے تک کھلا رہتا، کبھی تو اتنی مصروفیت ہوتی کہ تین، تین دن گھر نہیں جا پاتے۔

ریستوران کے قیام کے تین، چار سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آگئی۔ شمیم فِرپو کہتے ہیں کہ اُن کی حکومت نے آجر کو اجیر سے لڑا دیا، اِن کے ریستوران میں بھی ملازمین کی یونین بن گئی، جس نے مطالبات شروع کر دیے۔ یونین میں صدر یا جنرل سیکریٹری باہر سے لانے کی گنجائش تھی، چناں چہ ایک بڑے وکیل نے ملازمین کو ورغلایا کہ میں تمہیں اس سارے کاروبار کا مالک بنادوں گا وغیرہ وغیرہ۔ کہتے ہیں کہ اس سے دل بہت کھٹا ہوا اور پھر انہوں نے ریستوران کو مزید وسعت دینے کے بہ جائے کاروبار کی دوسری راہیں تلاشنی شروع کر دیں۔

1973ءلکشمی بلڈنگ میں دفتر لیا اور اپنے نومولود بیٹے کے نام پر 'سہیل انٹر پرائزز' کے ذریعے درآمدات کے کام کی داغ بیل ڈالی۔ 1975ءمیں نئے کاروبار کے حوالے سے ہانگ کانگ، چین اور چاپان کا دورہ کیا۔

1988ءمیں باقاعدہ صنعت کاری کی سمت آئے، جہاں بُہتیری مشکلات آئیں، لیکن اُن کا یہ ماننا رہا کہ روپیا جہاں گرا ہے، وہیں تلاش کیا جائے، اگر کہیں وقت صرف کیا ہے، تو اس کا نتیجہ بھی وہیں ملے گا۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مشکلات آسانیوں میں ڈھلتی چلی گئیں، آج وہ گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ کاروباری طور پر مستحکم ہونے کے بعد 1988ءمیں سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور برادری کی انجمن میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

1996ء1997ءمیں اللہ والا ٹاﺅن (کورنگی، کراچی) میں 'عارف گلاس ویئر والا اسکول' قائم کیا، جو ان کے والد سے موسوم ہے۔ کراچی آرٹس کونسل کی انتخابی سیاست میں بھی فعال رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں فن کار نہیں، اس لیے کوئی عہدہ قبول نہیں کرتا، لیکن فن کے دل دادہ ہونے کی حیثیت سے ان کی معاونت کرتا ہوں، وہ میری باتوں کو سنتے اور مانتے ہیں۔ سالانہ چناﺅ میں ہم جو پینل بناتے ہیں، وہ کام یاب ہوتا ہے۔ انتخابات میں مدمقابل ایک بڑی شخصیت کے پینل کا تذکرہ ہوا، تو گویا ہوئے کہ میں نے انہیں بہت سمجھایا تھا کہ یہ کام پیسے سے نہیں دل جیتنے سے ہوتا ہے اور آپ کے پاس دل جیتنے کے لیے وقت ہی نہیں۔

موجودہ دور کو تاجر برادری کے لیے کٹھن قرار دیتے ہیں کہ جب نواز شریف کی حکومت آئی، تو ہم نے سوچا کہ وہ چوں کہ وہ تجارتی پس منظر رکھتے ہیں، اس لیے تاجروں کے لیے دوستانہ ثابت ہوں گے، لیکن ان کے آنے کے بعدگزشتہ چار سال سے مسلسل برآمد گر رہی ہے، نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور کراچی کے حالات پہلے کے مقابلے میں اگرچہ بہتر ہوئے ہیں، لیکن حکومت کی حکمت عملی ایسی ہے، کہ جو ٹیکس دے رہا ہے، اسی کی گردن کو مروڑے جا رہے ہیں، جس سے تاجروں میں بد دلی پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسے کالے قوانین ختم کریں۔

شمیم فِرپو چاہتے ہیں کہ حکومت مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو مساوی مواقع دے۔ یہ نہ کریں کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو تو ساری مراعات دینے کی پیش کش کریں، اور مقامی ٹیکس دھندگان کو محرورم رکھیں۔ حکومت پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ سب لوگ ٹیکس دینا شروع کریں۔ 20 کروڑ کی آبادی میں 12 لاکھ ٹیکس پیئر تھے، جو اب 9 لاکھ رہ گئے ہیں، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت بہ بہ آسانی جان سکتی ہے کہ کون پرتعیش زندگی گزار رہا ہے اور ٹیکس نہیں دے رہا۔ ان سے ٹیکس وصول کریں۔ حکومت شرح ٹیکس ایک ہندسے میں لے کر آئے، جو تاجر بھتا دے سکتے ہیں، وہ ٹیکس کیوں نہیں دیں گے، چوں کہ انہیں تنگ کیا جاتا ہے، اس لیے وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے۔ اگر اسے ٹھیک کریں، تو دینے والے بہت ہیں۔ ناگہانی آفات ور مشکل لمحات میں جتنی فلاحی کام پاکستان بالخصوص کراچی میں ہوئے، اتنے کہیں نہیں ہوئے۔

شمیم فرپو کو شکوہ ہے کہ 'کراچی کی افادیت کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب بھی بہت سے مرکزی دفاتر یہاں سے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو یہ بہت چبھتا ہے کہ کراچی سے اتنی آمدن ہوتی ہے۔ اس کے بہ جائے اگر یہ کہا جائے کہ لاہور سے ملک کو اتنی آمدن ہوتی ہے، تو شاید انہیں خوشی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ ساری چیزیں اٹھا کر کراچی سے لے جائی جا رہی ہیں، اسٹیٹ بینک کے چار اہم شعبے لاہور لے جانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ 'وہ چاہے سب کچھ لے جائیں، لیکن وہ نہ یہاں سے سمندر اٹھا کر لے جا سکتے ہیں اور نہ قائداعظم کا مزار کراچی کی اہمیت تھی اور رہے گی۔'

ماضی قریب میں کراچی کی بدترین بے امنی کا ذمہ وہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو سمجھتے ہیں کہ اگر یہ جماعتیں چاہتیں تو حالات ٹھیک ہو سکتے تھے، لیکن علاقے بٹے ہوئے تھے، بھتا خوری عروج پر تھی۔ بھتے اگرچہ اب بھی جاری ہیں، لیکن کم ہیں۔ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے امید رکھتے ہیں کہ اس پر بھی قابو پایا جائے گا۔ صرف کراچی میں آپریشن کیا گیا، تو ملزمان نے دیگر علاقوں میں جا کر خود کو منظم کرلیا۔ اب پورے پاکستان میں رینجرز کو محدود اختیار ملے ہیں، انہیں مزید اختیارات ملنے چاہئیں، تاکہ وہاں بھی کارروائی ہو اور صورت حال بہتر ہو۔

شمیم فِرپو 1972ءمیں رشتہ ¿ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، سب شادی شدہ ہیں۔ 1992ءمیں نانا اور 1997ءمیں دادا بنے۔ اب نواسی اور نواسے کی شادیاں بھی ہونے کو ہیں۔ جب سے ایوان صنعت وتجارت کی مسند صدارت پر فائز ہوئے ہیں، اپنے کاروبار کو وقت نہیں دے پاتے، ورنہ صبح 11 تا سہ پہر چار بجے مرکزی دفتر، پرچیز آفس یا فیکٹری وغیرہ میں مصروف رہتے تھے۔ اب تمام کاروباری امور تینوں بیٹے سہیل شمیم ، عدنان شمیم اور کامران شمیم سنبھالے ہوئے ہیں۔

نیک اولاد کو بڑا تحفہ قرار دیتے ہیں کہ پیسہ تو آنی جانی چیز ہے۔ عام دنوں میں وہ سات ساڑھے سات بجے گھر لوٹتے ہیں۔ شام کا اکثر وقت شادی بیاہ، اور میل ملاقات کی دیگر تقاریب میں صَرف ہوتا ہے، جن میں شرکت یوں بھی یقینی بناتے ہیں کہ احباب شاکی نہ ہوں کہ صدر بنتے ہی بدل گئے۔ ایوان کی ذمہ داریوں کے سبب ٹائی سوٹ پہننا پڑتا ہے، لیکن گھر جاتے ہی شلوار قمیص زیب تن کرتے ہیں۔ گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے، عہدہ ¿ صدارت سے فرصت پا کر سیاحت پر توجہ دیں گے۔ ماضی میں ابن صفی کے ناول بہت تندہی سے پڑھے، اب یہ سمجھتے ہیںکہ پڑھنے کا وقت ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل لے گئے۔


پہلے اُن کا خیال تھا کہ بچوں کی شادیاں کر کے فرصت ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہوا، کہتے ہیں کہ مصروفیات کی نوعیت بدل جاتی ہے، فراغت نہیں ہوتی۔ شمیم فِرپو کے گھر پر خاندان بھر کے افراد کا اکٹھ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سالانہ دو بڑی تقاریب منعقد ہوتی ہیں، رمضان کی 21 ویں شب کو ختم قرآن کی تقریب اور آرٹس کونسل کے چُناﺅ کے موقع پر انتخابی پینل کے ساتھ عشائیہ۔

منظر اکبر آبادی اور فیض احمد فیض کی شاعری دل لبھاتی ہے۔ بڑے بیٹے کی شادی اور پہلے پوتے کی پیدائش کو زندگی کی بڑی خوشیوں میں شمار کرتے ہیں۔ شادی تو بیٹی کی پہلے ہوئی، کیا وجہ ہے کہ اُس لمحے کو خوش کُن قرار نہیں دیتے؟ تو کہا کہ اس وقت خوشی کے ساتھ فکر بھی بہت ہوتی ہے، کہ بیٹی ایک دوسرے گھر جا رہی ہے، جب کہ بہو لاتے ہیں، تو بات اپنی طرف زیادہ ہوتی ہے کہ ہم نے اسے بیٹیوں سے بڑھ کر چاہنا ہے۔ اس لیے وہ خوشی کچھ اور ہوتی ہے۔

24جنوری 1954ءکو والد اور 25 فروری 2000ءکو والدہ کا انتقال زندگی کے دُکھ بھرے لمحات ہیں۔ اپنے نشیب وفراز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کئی موقعوں پر ایسا لگا کہ سب کچھ ختم ہو گیا، لیکن امید تھامے رکھی۔ کئی بار جانے اور اَن جانے لوگوں نے مجھے کاری نقصان پہچانے کی کوشش کی، جب بھی انہوں نے ایسا کیا، تو اللہ نے اور آگے بڑھا دیا۔ اپنی والدہ کو زندگی کی سب سے متاثرکُن اور راہ نما شخصیت قرار دیتے ہیں، جنہوں نے باپ بن کر پالا اور ان کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہتیں۔ کام سے گھر لوٹنے پر والدہ کے چہرے پر آنے والی اطمینان بخش مسکراہٹ ان کے لیے ناقابل فراموش ہے۔ ریستوران کے قیام سے بلب، بوتیک، چشمے اور آٹو پارٹس وغیرہ کے کام تک 'فرپو گروپ آف کمپنیز' کی ساری کام یابی کو وہ والدہ ہی کی دعاﺅںکا ثمرہ قرار دیتے ہیں۔

شمیم فِرپو مثبت سوچ کے حامل ہیں، آدھا گلاس پانی کو آدھا خالی نہیں، بلکہ آدھا بھرا ہوا قرار دیتے ہیں۔ زندگی میں غلطیوں اور غلط فیصلوں کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن کسی بات کا روگ یا پچھتاوا نہیں۔ کہتے ہیں جو ہوا سو ہوا۔ اب جو باقی ہے، اس پر مرکوز ہوں اور آگے بڑھیں۔ عبدالستار ایدھی کی بلا رنگ ونسل اور تفریق انسانیت کی خدمت نے انہیں گرویدہ کیا، جو خدمت کے لیے کسی عہدے کے محتاج نہ رہے اور ضیاالحق کی مجلس شوریٰ کی نشست چھوڑ کر آگئے کہ یہاں تو لوگ کیک پیسٹری کھانے آتے ہیں۔

شمیم فِرپو آنے والی زندگی خدمت انسانیت کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ ضرورت مندوں کے لیے ایک اسپتال بنانے کا ارادہ ہے، جہاں کسی کو دوا کے لیے پریشان نہ ہونا پڑے۔ عزت اور کام یابی کو توقع سے بڑھ کر قرار دیتے ہیں۔ دعاگو ہیں کہ اللہ کسی کو بھی کچھ دے کر واپس نہ لے، جو دے اسے قائم رکھے۔

شمیم فِرپو اپنے اداروں کے کارکنان کو خاندان کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ باتے ہیں کہ کچھ کارکن ایسے بھی ہیں جو 40 روپے مہینے پر برتن دھونے آئے اور اپنی محنت اور لگن کی بنا پر آج 80 ہزار روپے پر پرچیز مینجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ نوجوان کسی بھی شعبے کے چناﺅ سے پہلے یہ جائزہ لیں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور جب طے کر لیں، تو پھر مضبوطی سے اس پر کاربند ہوں اور مشکلات کی وجہ سے اپنا فیصلہ نہ بدلیں۔

اگر چھے مہینے صرف کرنے کے بعد کوئی کام چھوڑ دیں گے، تو پھر یہ محنت رائیگاں جائے گی، لیکن اگر مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں گے، تو امید ہے کہ مسلسل محنت اور عزم کا صلہ ملے۔

صدر کا عہدہ اعزازی ہے

شمیم فِرپو 1975ءمیں کراچی ایوان صنعت وتجارت کے رکن بنے اور اب ان کی تمام فرمیں اس کی رکن ہیں۔ ایوان کے مرکزی عہدے پر فائز ہونے سے پہلے یہاں کی مختلف کمیٹیوں کسٹم، ٹیکس، ویلیویشن، کمیونیکشن وغیرہ میں متحرک رہے۔ 2012ءمیں پہلی بار سینئر نائب صدر بنے، جب کہ صدارت کی مسند اکتوبر 2016ءمیں اِن کے نام ہوئی۔ کہتے ہیںکہ ہم اپنے اراکین کا خیال رکھتے ہیں، اس لیے تمام عہدے داران گزشتہ دس سال سے بلا مقابلہ منتخب ہو رہے ہیں۔ ہم کراچی سے تعلق رکھنے والے ہر تاجر کے مسئلے کو اسی طرح حل کراتے ہیں، جیسے اپنے کسی بڑے اہم رکن، صنعت کار کے۔ ایوان صنعت وتجارت کی صدارت مکمل طور پر ایک اعزازی عہدہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نائب صدارت کی طرح صدارت میں بھی خوش اسلوبی سے تمام ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوں۔ 2002ءاور 2008ءمیں انہیں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے انتخابات لڑنے کی پیش کش ہوئی، لیکن وہ سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتے، سو انہوں نے معذرت کرلی۔

چھٹی والے دن تو چھٹی ملے!

طارق روڈ پہ 'فِرپو ریستوران' 28 سال قائم رہنے کے بعد 1996ءمیں بند ہوا۔ شمیم فرپو کے بقول اُس وقت بھی ریستوران بہت اچھا چل رہا تھا، لیکن اُن کے بچے ریستوران کے سخت معمولات کے سبب یہاں نہیں آنا چاہتے تھے، یہاں نہ صرف اوقات کار سخت تھے، بلکہ تعطیل پر بھی چھٹی کے بہ جائے معمول سے زیادہ کام ہوتا تھا۔ کبھی دوست احباب کہیں سیر وتفریح کا ارادہ کرتے، تو ان کے جانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے اولاد نے دوسرے کاروبار کو زیادہ بہتر جانا، جہاں کم سے کم وہ عام چھٹیوں میں چھٹی تو کر سکیں اور آرام کے وقت فرصت پا سکیں۔ یوں پہلے ریستوران ملازمین پر چھوڑا، لیکن اس فیصلے سے مطمئن نہ ہوئے، انہیں محسوس ہوا کہ اس طرح کام خراب ہوگا، چناں چہ انہوںنے ریستوران بند کر دیا۔

'اراکین اسمبلی بلدیاتی مسائل کے بہ جائے قانون سازی پر توجہ دیں'

شمیم فرپو کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں شہری مسائل کو مقامی حکومت دیکھتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو کام کرنے کے لیے اختیارات اور وسائل دیں، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کا کام سڑکیں بنوانا اور نالیاں کھلوانا نہیں، ان کاکام موجودہ حالات کے مطابق قانون سازی کرنا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں پولیس کے 1861ءکے قوانین چل رہے ہیں۔ آج نئے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے، ایک شخص ٹی وی پر دو ڈھائی کروڑ ناظرین کے سامنے اعتراف قتل کرتا ہے، اور اس کے بعد دندناتا پھرتا ہے۔ ہمارے قوانین میں اسے سزا دینے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ جج کے سامنے ہی آکر اس کا اعتراف کرے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اگر کوئی ٹی وی پر اعتراف کرلے، تو اس کو مانا جائے، کیوں کہ اس کے تو کروڑوں لوگ گواہ ہیں، اس کے بعد جج کے سامنے کسی اعتراف کی ضرورت نہیں رہنی چاہیے۔ اگر اسے اعتراف مان کر سزائیں نہیں دی جائیں گی، تو امن وامان اس طرح قائم نہیں ہو سکے گا، جیسا ہونا چاہیے۔ اس لیے صوبائی اور وفاقی ایوانوں میں بیٹھنے والے بلدیاتی مسائل چھوڑ کر قانون سازی پر توجہ مرکوز کریں۔

'چین کی آمد سے خوف زدہ نہ ہوں'

شمیم فرپو 'پاک چین اقتصادی راہ داری' منصوبے کو گیم چینجر سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا عالمی تاثر بدلا ہے، پہلے دہشت گردی کی وجہ سے یہاں سفر سے روک دیا جاتا تھا، اب وہ یہاں آنا چاہتے ہیں۔ ہمیں چین کا شکر گزار ہونا چاہے کہ اس نے یہاں اتنا سرمایہ لانے کا اعلان کیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہوٹلوں میں چار ہزار روپے میں کمرہ لینے ولا کوئی نہ ہوتا تھا۔ غیر ملکیوں کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس جاتی تھیں، آج اتنے غیر ملکی آرہے ہیں کہ 18، 20ہزار میں بھی کمرے دست یاب نہیں۔ چین کی آمد سے مقامی صنعت کو لاحق خطرات کے سوال پر کہتے ہیں کہ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی رہتی ہیں۔ جیسے پہلے بندر روڈ پر چھتری اور ٹوپی وغیرہ کی دکانیں تھیں، جو اب برقی آلات کی دکانوں میں بدل گئیں، آج وہ اس سے بدرجہا بڑا کاروبار کر رہے ہیں۔ اسی طرح موبائل کی دکانیں ہیں، چار کے بہ جائے 36 بینک ہیں اور ان کی ہزار ہا شاخیں ہیں۔ چین کے آنے سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں چین گیا، وہاں کی معیشت ختم نہیں ہوئی، بلکہ وہ بہت آگے گئے ہیں، ہمیں بھی اپنی قوت بازو اور نصیب پر بھروسا ہونا چاہیے، جب ہم چھپ چھپا کر ایٹم بم بنا سکتے ہیں، تو اگر کھل کر موقع ملے، تو وہ کیا کچھ نہیں کر سکتے۔
Load Next Story