بلدیاتی نظام اور سندھ کی ترقی
بلدیاتی نظام جمہوری نظام کا بنیادی ادارہ ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کی بڑی جماعتیں اس نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں
SIALKOT:
سندھ ہائی کورٹ نے بلدیاتی آرڈیننس کی تیسری ترمیم کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم سے بلدیاتی تنازعہ طے کرنے کے لیے کمیٹی قائم کر دی۔ متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان سمیت 10 جماعتوں نے بلدیاتی آرڈیننس میں کی گئی تیسری ترمیم کو چیلنج کیا تھا۔ بلدیاتی آرڈیننس میں کی گئی تیسری ترمیم کے تحت اگر کوئی آزاد امیدوار 9 امیدواروں پر مشتمل پینل میں شامل نہ ہوتا تو وہ خودبخود نا اہل ہو جاتا۔ اس ترمیم کے تحت یونین کمیٹی میں 6 جنرل نشستیں اور ایک ایک نشست خاتون، کسانوں، مزدوروں اور اقلیتوں کے نمایندوں کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ ان نشستوں کے لیے امیدواروں کا پینل انتخاب میں حصہ لیتا۔ اگر کسی سیاسی جماعت کا امیدوار یا آزاد امیدوار ان نشستوں پر 9 امیدواروں کا پینل بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا تو خودبخود انتخاب لڑنے سے نا اہل ہو جاتا۔ اس طرح اس ترمیم کے تحت سیاسی جماعتوں کی حیثیت کو مزید مضبوط کرتے ہوئے تحریر کیا گیا تھا کہ سیاسی جماعت یونین کمیٹی اور یونین کونسل کی اقلیتی نشست کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرست پیشگی طور پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں کے پاس جمع کرائیں گی۔
اس فہرست میں ضمنی فہرست بھی شامل ہو گی تا کہ اگر ایک امیدوار کا انتقال ہو جائے تو اس فہرست میں درج دوسرے فرد کو منتخب قرار دیدیا جائے۔ اس ترمیم کے تحت حلقہ بندی کرتے ہوئے متعلقہ حکام دیہی علاقے کو شہری علاقے میں شامل کر سکیں گے۔ اسی طرح اس ترمیم کی دفعہ 7 کے تحت یونین کونسل جو پہلے 40 ہزار سے 50 ہزار افراد کی آبادی پر مشتمل ہوتی تھی اب صرف 10 ہزار پر مشتمل ہو سکتی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 17 اور 25 سے متصادم ہیں اور شہری کے انتخاب لڑنے کے بنیادی حق کو سلب کرتی ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے 18 جنوری 2014ء کو انتخابات کرانے یا انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے، اسی طرح حلقہ بندیوں کے لیے آزاد ادارہ کے قیام کی تجویز دی ہے یا بلدیاتی انتخابات 2001ء کی حد بندیوں کے مطابق کرانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ گنجلک ہو جائے گا۔
بلدیاتی نظام جمہوری نظام کا بنیادی ادارہ ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کی بڑی جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اس نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008ء میں برسر اقتدار آئی۔ اس وقت ایم کیو ایم اقتدار میں شریک تھی۔ کراچی اور حیدرآباد سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ناظمین کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ نواب شاہ اور خیر پور کی ناظمین صدر زرداری کی ہمشیرہ اور قائم علی شاہ کی صاحبزادی تھیں۔ باقی اضلاع میں مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ ق کے نمایندے ناظمین تھے۔ مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو کسی سطح پر سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا مگر پیپلز پارٹی کے وزراء اور منتخب اراکین اس سیاسی منظرنامے سے مطمئن نہیں تھے۔ سب سے پہلے اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے کہا کہ اسکولوں اور کالجوں کا کنٹرول بلدیاتی اداروں کے پاس جانے سے تعلیمی صورتحال ابتری کا شکار ہے۔ اگرچہ کالج اور ہائر سیکنڈری اسکول مکمل طور پر سٹی گورنمنٹ کے کنٹرول میں نہیں تھے مگر ناظم کی نگرانی میں ای ڈی او کام کر رہے تھے۔ ہائر سیکنڈری اسکولوں اور کالجوں میں تقرر یوں اور تبادلوں کا اختیار محکمہ تعلیم کو تھا مگر پیر مظہرالحق نے مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ جب منتخب بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوئی تو پیر مظہرالحق پرائمری سطح سے کالجوں کی سطح تک تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات کے مالک ہو گئے۔ اسی طرح ترقیاتی منصوبے بنانے اور عملدرآمد کا اختیار بھی صوبائی حکومت کو حاصل ہو گیا۔ پیر مظہرالحق کے دور میں چپراسی سے لے کر اعلیٰ افسروں کے تقرر اور تبادلوں کی جو منڈی لگی اس کا ذکر باعث خجالت ہے۔ پھر ایسے ہزاروں افراد موجود ہیں جو لاکھوں روپے خرچ کر کے استاد اور دوسرے عہدے کے تقرر نامے کے ساتھ تنخواہوں کے منتظر ہیں۔ یہی صورتحال بلدیاتی، صحت اور ورکس کے شعبوں میں ہوئی۔
اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی اور سماجی کارکن گزشتہ ماہ اندرون سندھ دورے پر گئے تھے۔ وہ دادو اور دوسرے شہروں کی زبوں حالی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ بلدیاتی نظام متحرک نہ ہونے کی بنا پر سب سے زیادہ نقصان اندرون سندھ میں ہوا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے گزشتہ 5 برسوں کے دوران بلدیاتی ڈھانچے پر طویل مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات میں کبھی سندھ کے سینئر وزیر اور ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت شریک ہوئی تو کبھی نچلی سطح کے رہنما اور پھر معاملہ صدر زرداری کے سامنے پیش ہوا۔ 2002ء کے بلدیاتی نظام میں تبدیلیوں پر اتفاق رائے ہوا اور 2012ء میں ایک مسودہ قانون منظور ہوا۔ اس قانون کے خلاف قوم پرستوں نے مسلم لیگ فنکشنل کے ساتھ مل کر تحریک چلائی۔ بعض دانشوروں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے نافذ کردہ کمشنری نظام میں فائدے نظر آنے لگے اور یہ دانشور میڈیا پر اس کی اچھائیاں بیان کرنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کے پس پردہ پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کی حمایت شامل تھی۔ یہ قیادت قوم پرستوں اور پیر پگارا کے ذریعے دباؤ ڈال کر نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی نظام کا خاتمہ چاہتی تھی۔ سابق صدر زرداری اور ان کے قریبی معاونین اس نظام کے حق میں تھے مگر ترقی کے نقطہ نظر سے اس نظام کا دفاع کرنے کے بجائے اقتدار کے لیے ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس کا دفاع کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نچلی سطح تک بلدیاتی نظام کی اہمیت کو اپنے کارکنوں پر واضح نہیں کر سکی۔ یہی وجہ تھی کہ ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدہ ہونے کے فیصلے کے ساتھ نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کو منسوخ کر کے جنرل ضیاء الحق کا نافذ کردہ نظام نافذ کر دیا۔ صوبائی وزیر اطلاعات 2002ء کے بلدیاتی نظام کو فوجی آمر پرویز مشرف کا نظام قرار دے کر اس کی مذمت کرنے لگے اور جنرل ضیاء الحق کے نظام کی تعریفیں کرنے لگے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی حکومت کا بلدیاتی انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے یہ بحث میڈیا تک ہی محدود رہی۔ مگر جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا معاملہ از خود اپنے سپرد کیا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک مفلوج بلدیاتی نظام نافذ کر دیا۔ اس نظام میں شہریوں کے بنیادی حق کو غصب کیا گیا اور منتخب بلدیاتی قیادت کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ یوں معاملہ اعلیٰ عدالت میں گیا۔ جب ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور فنکشنل نے سندھ اسمبلی میں اس قانون پر اعتراض کیا تو وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے واضح طور پر کہا کہ اب معاملہ عدالت میں ہے اس لیے عدالتی فیصلہ قبول کیا جائے گا۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے واضح ہو گیا کہ بلدیاتی آرڈیننس کی تیسری ترمیم بنیادی حقوق کے باب سے متصادم تھی مگر اس صورتحال کی ایک اہم بات یہ ہے کہ سابق صدر زرداری نے صورتحال کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہوئے ایم کیو ایم سے مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی سندھ کی قیادت کو ایم کیو ایم سے مذاکرات کرنے کو کہا۔ دوسری طرف سندھ حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کر رہی ہے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی قانون کے بارے میں دیا ہے مگر حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ میں اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت سندھ اس معاملے کو مزید التوا میں ڈالنا چاہتی ہے۔ مگر یہ مذاکرات فوری طور پر شروع ہونے چاہئیں۔
ان مذاکرات کی بنیاد نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم ہونا چاہیے۔ دنیا کے جدید ممالک میں جس طرح کا خودمختار بلدیاتی نظام ہے اسی طرح کا نظام سندھ میں بھی قائم ہونا چاہیے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کے منشور میں New Social Contract نئے سماجی معاہدے کے تصور کو شامل کیا تھا، اس نئے سماجی معاہدے کے تحت بلدیاتی ادارے خودمختار اور بااختیار ہونے چاہئیں۔ بلاول کی زندگی کا ایک حصہ برطانیہ میں گزرا ہے۔ برطانیہ کا کاؤنٹی کا نظام وہاں کی ترقی کی بنیاد ہے۔ کاؤنٹی کے دائرہ اختیار میں تعلیم، صحت اور امن و امان کے تمام معاملات آتے ہیں۔ سندھ میں بھی ایسا ہی جدید نظام قائم ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو محض ایم کیو ایم کے تناظر میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں، سندھ کی ترقی کے تناظر میں فیصلے ہونے چاہئیں۔ سندھ میں جدید بلدیاتی نظام نافذ کر کے دوسرے صوبوں کے لیے ایک ماڈل دے سکتے ہیں۔ ویژن اور جرات مندانہ فیصلوں سے ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔