چوہتر سالہ گریٹ احتساب سرکس حصہ چہارم
مہران گیٹ اول (انیس سو ستر) کی کبھی تفتیش نہیں ہوئی اور مہران گیٹ دوم (انیس سو نوے) کا میم بھی آج کہیں نظرنہیں آتا۔
بیس اپریل انیس سو چورانوے کو قومی اسمبلی میں وزیرِ داخلہ نصیر اللہ بابر نے بم پھوڑا کہ اگست انیس سو نوے میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد انتیس اکتوبر انیس سو نوے کو جو عام انتخابات منعقد ہوئے۔اس میں حسبِ منشا نتائج حاصل کرنے اور پیپلز پارٹی کو باندھ کر رکھنے کے لیے مہران بینک کے ذریعے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی)کے سیاستدانوں کو بھاری رقوم تقسیم کی گئیں۔
آئی جے آئی کو دو سو سترہ عام نشستوں میں سے ایک سو چھ اور پیپلز پارٹی کو صرف چوالیس نشستیں حاصل ہوئیں۔بعد ازاں بے نظیر بھٹو نے اپنے متعدد انٹرویوز میں نوے کے انتخابات چرانے کا الزام دہرایا۔لیکن کیا ایسا پہلی بار ہوا؟آئیے تھوڑی دیر کے لیے فلیش بیک میں چلتے ہیں۔
یحییٰ حکومت نے انیس سو انہتر کے آخری مہینے میں اعلان کیا کہ اگلے برس اکتوبر میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔( بعد ازاں مشرقی پاکستان میں شدید سمندری طوفان کے سبب ان انتخابات کی تاریخ کو دسمبر کے پہلے ہفتے تک بڑھا دیا گیا )۔
ایک برس پہلے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی جماعتوں نے جنوری انیس سو ستر میں ہی انتخابی مہم شروع کر دی۔ گیارہ ماہ پر مشتمل یہ مہم غالباً دنیا کی سب سے طویل انتخابی مہم تھی۔ تاریخ میں ان انتخابات کو اب تک کے سب سے شفاف انتخابات بتایا جاتا ہے۔
مگر اس کا ذکر خال خال ہی ہوتا ہے کہ یحییٰ خان نے انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کے لیے ایک نیشنل سیکیورٹی کونسل تشکیل دی جس کا نگراں میجر جنرل غلام عمر کو بنایا گیا۔کونسل میں انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) سمیت جملہ حساس اداروں کی نمایندگی تھی۔
دی نیشن لاہور میں سترہ اگست انیس سو ستانوے میں شایع ہونے والے الطاف گوہر کے ایک مضمون میں کہا گیا کہ سیکیورٹی کونسل کو انتیس لاکھ روپے کا بجٹ دیا گیا تاکہ مشرقی و مغربی پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتوں( قیوم لیگ،جماعتِ اسلامی وغیرہ ) اور بائیں بازو کی چین نواز نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کی انتخابی مدد ہو سکے۔خدشہ یہ تھا کہ کوئی ایک سیاسی جماعت ملک کے دونوں بازؤں میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ کر لے۔
سابق ڈائریکٹر آئی بی اور آئی جی پنجاب راؤ عبد الرشید نے انیس سو پچاسی میں شایع ہونے والی اپنی کتاب '' جو میں نے دیکھا '' میں بتایا کہ یحیی دور کے ڈائریکٹر آئی بی این اے رضوی نے قیوم خان کی مسلم لیگ کی انتخابی مدد کے لیے صنعت کاروں اور بڑے تاجروں سے سیاسی چندہ وصول کیا۔
جب بھٹو صاحب برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے این اے رضوی سے کچھ جمع شدہ فنڈز نکلوا لیے۔جب کہ میجر جنرل غلام عمر جبری ریٹائر ہونے والے کلیدی فوجی افسروں میں شامل تھے ( غلام عمر آخری وقت تک اپنے پر عائد الزامات کی تردید کرتے رہے ۔)
( راؤ رشید ریٹائرمنٹ کے بعد بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں اندرونی سلامتی سے متعلق مشیر رہے۔ مرتصی بھٹو کے قتل کے بعد وہ پی پی پی شہید بھٹو میں چلے گئے اور پھر تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے۔ نومبر دو ہزار سات میں انتقال ہوا ۔)
بھٹو صاحب نے اختیارات سنبھالتے ہی جن اعلیٰ فوجی افسروں کو فوری ریٹائر کیا ان میں میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا بھی شامل تھے۔ ان کا انتقال انیس سو ننانوے میں ہوا۔ دو ہزار تین میں شایع ہونے والی ان کی سوانح حیات '' ان لائیکلی بگننگز ، اے سولجرز لائف'' میں ذکر ہے کہ اکتوبر انیس سو ستر میں ایک معروف انشورنس کمپنی کے مالک روشن علی بھیم جی نے بتایا کہ کس طرح این اے رضوی نے دھمکی آمیز لہجے میں ان سمیت متعدد صنعتی و کاروباری لوگوں سے انتخابات میں استعمال کے لیے چندہ جمع کیا۔
ایکسپریس ٹریبون میں مارچ دو ہزار بارہ میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کے شایع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق نیشنل سیکیورٹی کونسل نے حکومت نواز اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی مالی پشت پناہی کی۔
(اسد منیر نے دو برس سے جاری تین نیب انکوائریوں سے دل برداشتہ ہو کر سولہ مارچ دو ہزار انیس کو خود کشی کر لی۔انھوں نے چیف جسٹس کے نام ایک نوٹ چھوڑا۔اس کے مطابق '' میں ہتھکڑی میں میڈیا کے سامنے پریڈ کروائے جانے کی ذلت برداشت کرنے کے بجائے خودکشی کر رہا ہوں۔میں عزت مآب چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ نیب کے اہلکاروں کے رویے کا نوٹس لیں تاکہ دیگر افسران ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچ سکیں''۔)
یحییٰ خان کو تمام انٹیلی جنس رپورٹوں میں تسلی دی گئی کہ مشرقی و مغربی پاکستان میں کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔مخلوط حکومت بنے گی چنانچہ جنابِ صدر کی پوزیشن کو کوئی بقائی خطرہ نہیں ہوگا۔حالات پر ان کی گرفت مضبوط رہے گی۔
پھر یوں ہوا کہ تین سو نشستوں کے ایوان میں عوامی لیگ کو ایک سو ساٹھ اور پیپلز پارٹی کو اکیاسی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی)نے انتخابی بائیکاٹ کر دیا۔جب کہ قیوم لیگ اور جماعتِ اسلامی سمیت منظورِ نظر چھوٹی بڑی جماعتوں کو کل ملا کے سینتیس نشستیں حاصل ہوئیں۔ بعد ازاں بدلے ہوئے سیاسی دھارے کو طاقت کے بل پر اپنی مرضی کا رخ دینے کی کوشش میں آدھا ملک ہی بہہ گیا۔
اور اب دوبارہ آتے ہیں مہران گیٹ اسکینڈل کی طرف۔نصیر اللہ بابر کے انکشاف کے دو برس بعد انیس سو چھیانوے میں اس بابت ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کے خط کو سپریم کورٹ نے مفادِ عامہ میں بطور پیٹیشن شنوائی کے لیے منظور کر لیا۔اگلے تین برس میں تین سے چار سماعتیں ہوئیں۔اس کے بعد گیارہ برس کا تعطل آ گیا۔
اصغر خان نے جسٹس ارشاد حسن خان سے لے کر افتخار چوہدری تک ہر آنے والے چیف جسٹس کو یہ مقدمہ نمٹانے کے لیے یاد دہانی کروائی۔بالاخر جنوری دوہزاربارہ میں مقدمے کی سماعت بحال ہوئی۔انیس اکتوبر دو ہزار بارہ کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور سابق آرمی چیف اسلم بیگ کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔ ایف آئی اے کو تفتیش نمٹانے کا حکم دیا گیا۔ایک برس کے وقفے کے بعد ایف آئی اے نے کچھ ہل جل دکھائی۔
مگر دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں ایف آئی اے نے بھی اس کیس کو یہ کہہ کر داخلِ دفتر کرنے کی استدعا کی کہ متعدد سیاست دانوں نے تحریری بیانات دینے سے انکار کر دیا ہے۔جنھوں نے بیانات جمع کروائے ہیں ان میں بھی خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔کچھ کردار دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔لہٰذا ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔
سپریم کورٹ کے دو ہزار بارہ کے فیصلے میں جن شخصیات کی شہادتوں کو فیصلے کا حصہ بنایا گیا ۔ان میں اسد درانی کے مطابق اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر ایک سو چالیس ملین روپے مہران بینک کے مالک یونس حبیب کو تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔چھ ملین تقسیم ہوئے جب کہ باقی رقم '' اسپیشل فنڈ '' میں جمع کر دی گئی۔اسد درانی نے اپنے بیان میں '' یادداشت کے زور پر''کچھ سیاستدانوں کے نام اور انھیں دی گئی رقم کی تفصیل دی۔یہ نام بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔
ان کے بیان کے برعکس یونس حبیب نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے سیاست دانوں میں تقسیم کے لیے ایک ارب اڑتالیس کروڑ روپے جمع کیے۔اس رقم میں سے ایک سو چالیس ملین بانٹے گئے اور باقی واپس کر دیے گئے۔یونس حبیب نے پیسے لینے والوں کی جو فہرست جمع کروائی۔اس میں اضافی ناموں کے علاوہ دی گئی رقم کی مالیت میں بھی واضح فرق نظر آتا ہے (یہ تفصیل بھی فیصلے کا حصہ ہے)۔شاید اسی تضاد کے پیشِ نظر سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو حتمی کھوج لگانے پر مامور کیا مگر آخر میں ایف آئی اے بھی کانوں کو ہاتھ لگا کے الگ ہو گئی۔
( یونس حبیب کا اپریل دو ہزار انیس میں انتقال ہوگیا۔ غلام اسحاق خان کا دو ہزار چھ میں اور اصغر خان کا جنوری دو ہزار اٹھارہ میں انتقال ہو چکا ہے۔ اسد درانی کو را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مشترکہ کتاب لکھنے پر تادیبی انکوائری اور ملک چھوڑنے پر پابندی کا سامنا ہے۔جنرل اسلم بیگ ضعیفی کے سبب تقریباً گوشہ نشین ہیں۔ )۔
مہران گیٹ اول ( انیس سو ستر ) کی کبھی تفتیش نہیں ہوئی اور مہران گیٹ دوم ( انیس سو نوے ) کا میم بھی آج کہیں نظر نہیں آتا۔ (قصہ جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
آئی جے آئی کو دو سو سترہ عام نشستوں میں سے ایک سو چھ اور پیپلز پارٹی کو صرف چوالیس نشستیں حاصل ہوئیں۔بعد ازاں بے نظیر بھٹو نے اپنے متعدد انٹرویوز میں نوے کے انتخابات چرانے کا الزام دہرایا۔لیکن کیا ایسا پہلی بار ہوا؟آئیے تھوڑی دیر کے لیے فلیش بیک میں چلتے ہیں۔
یحییٰ حکومت نے انیس سو انہتر کے آخری مہینے میں اعلان کیا کہ اگلے برس اکتوبر میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔( بعد ازاں مشرقی پاکستان میں شدید سمندری طوفان کے سبب ان انتخابات کی تاریخ کو دسمبر کے پہلے ہفتے تک بڑھا دیا گیا )۔
ایک برس پہلے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی جماعتوں نے جنوری انیس سو ستر میں ہی انتخابی مہم شروع کر دی۔ گیارہ ماہ پر مشتمل یہ مہم غالباً دنیا کی سب سے طویل انتخابی مہم تھی۔ تاریخ میں ان انتخابات کو اب تک کے سب سے شفاف انتخابات بتایا جاتا ہے۔
مگر اس کا ذکر خال خال ہی ہوتا ہے کہ یحییٰ خان نے انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کے لیے ایک نیشنل سیکیورٹی کونسل تشکیل دی جس کا نگراں میجر جنرل غلام عمر کو بنایا گیا۔کونسل میں انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) سمیت جملہ حساس اداروں کی نمایندگی تھی۔
دی نیشن لاہور میں سترہ اگست انیس سو ستانوے میں شایع ہونے والے الطاف گوہر کے ایک مضمون میں کہا گیا کہ سیکیورٹی کونسل کو انتیس لاکھ روپے کا بجٹ دیا گیا تاکہ مشرقی و مغربی پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتوں( قیوم لیگ،جماعتِ اسلامی وغیرہ ) اور بائیں بازو کی چین نواز نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کی انتخابی مدد ہو سکے۔خدشہ یہ تھا کہ کوئی ایک سیاسی جماعت ملک کے دونوں بازؤں میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ کر لے۔
سابق ڈائریکٹر آئی بی اور آئی جی پنجاب راؤ عبد الرشید نے انیس سو پچاسی میں شایع ہونے والی اپنی کتاب '' جو میں نے دیکھا '' میں بتایا کہ یحیی دور کے ڈائریکٹر آئی بی این اے رضوی نے قیوم خان کی مسلم لیگ کی انتخابی مدد کے لیے صنعت کاروں اور بڑے تاجروں سے سیاسی چندہ وصول کیا۔
جب بھٹو صاحب برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے این اے رضوی سے کچھ جمع شدہ فنڈز نکلوا لیے۔جب کہ میجر جنرل غلام عمر جبری ریٹائر ہونے والے کلیدی فوجی افسروں میں شامل تھے ( غلام عمر آخری وقت تک اپنے پر عائد الزامات کی تردید کرتے رہے ۔)
( راؤ رشید ریٹائرمنٹ کے بعد بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں اندرونی سلامتی سے متعلق مشیر رہے۔ مرتصی بھٹو کے قتل کے بعد وہ پی پی پی شہید بھٹو میں چلے گئے اور پھر تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے۔ نومبر دو ہزار سات میں انتقال ہوا ۔)
بھٹو صاحب نے اختیارات سنبھالتے ہی جن اعلیٰ فوجی افسروں کو فوری ریٹائر کیا ان میں میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا بھی شامل تھے۔ ان کا انتقال انیس سو ننانوے میں ہوا۔ دو ہزار تین میں شایع ہونے والی ان کی سوانح حیات '' ان لائیکلی بگننگز ، اے سولجرز لائف'' میں ذکر ہے کہ اکتوبر انیس سو ستر میں ایک معروف انشورنس کمپنی کے مالک روشن علی بھیم جی نے بتایا کہ کس طرح این اے رضوی نے دھمکی آمیز لہجے میں ان سمیت متعدد صنعتی و کاروباری لوگوں سے انتخابات میں استعمال کے لیے چندہ جمع کیا۔
ایکسپریس ٹریبون میں مارچ دو ہزار بارہ میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کے شایع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق نیشنل سیکیورٹی کونسل نے حکومت نواز اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی مالی پشت پناہی کی۔
(اسد منیر نے دو برس سے جاری تین نیب انکوائریوں سے دل برداشتہ ہو کر سولہ مارچ دو ہزار انیس کو خود کشی کر لی۔انھوں نے چیف جسٹس کے نام ایک نوٹ چھوڑا۔اس کے مطابق '' میں ہتھکڑی میں میڈیا کے سامنے پریڈ کروائے جانے کی ذلت برداشت کرنے کے بجائے خودکشی کر رہا ہوں۔میں عزت مآب چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ نیب کے اہلکاروں کے رویے کا نوٹس لیں تاکہ دیگر افسران ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچ سکیں''۔)
یحییٰ خان کو تمام انٹیلی جنس رپورٹوں میں تسلی دی گئی کہ مشرقی و مغربی پاکستان میں کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔مخلوط حکومت بنے گی چنانچہ جنابِ صدر کی پوزیشن کو کوئی بقائی خطرہ نہیں ہوگا۔حالات پر ان کی گرفت مضبوط رہے گی۔
پھر یوں ہوا کہ تین سو نشستوں کے ایوان میں عوامی لیگ کو ایک سو ساٹھ اور پیپلز پارٹی کو اکیاسی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی)نے انتخابی بائیکاٹ کر دیا۔جب کہ قیوم لیگ اور جماعتِ اسلامی سمیت منظورِ نظر چھوٹی بڑی جماعتوں کو کل ملا کے سینتیس نشستیں حاصل ہوئیں۔ بعد ازاں بدلے ہوئے سیاسی دھارے کو طاقت کے بل پر اپنی مرضی کا رخ دینے کی کوشش میں آدھا ملک ہی بہہ گیا۔
اور اب دوبارہ آتے ہیں مہران گیٹ اسکینڈل کی طرف۔نصیر اللہ بابر کے انکشاف کے دو برس بعد انیس سو چھیانوے میں اس بابت ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کے خط کو سپریم کورٹ نے مفادِ عامہ میں بطور پیٹیشن شنوائی کے لیے منظور کر لیا۔اگلے تین برس میں تین سے چار سماعتیں ہوئیں۔اس کے بعد گیارہ برس کا تعطل آ گیا۔
اصغر خان نے جسٹس ارشاد حسن خان سے لے کر افتخار چوہدری تک ہر آنے والے چیف جسٹس کو یہ مقدمہ نمٹانے کے لیے یاد دہانی کروائی۔بالاخر جنوری دوہزاربارہ میں مقدمے کی سماعت بحال ہوئی۔انیس اکتوبر دو ہزار بارہ کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور سابق آرمی چیف اسلم بیگ کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔ ایف آئی اے کو تفتیش نمٹانے کا حکم دیا گیا۔ایک برس کے وقفے کے بعد ایف آئی اے نے کچھ ہل جل دکھائی۔
مگر دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں ایف آئی اے نے بھی اس کیس کو یہ کہہ کر داخلِ دفتر کرنے کی استدعا کی کہ متعدد سیاست دانوں نے تحریری بیانات دینے سے انکار کر دیا ہے۔جنھوں نے بیانات جمع کروائے ہیں ان میں بھی خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔کچھ کردار دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔لہٰذا ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔
سپریم کورٹ کے دو ہزار بارہ کے فیصلے میں جن شخصیات کی شہادتوں کو فیصلے کا حصہ بنایا گیا ۔ان میں اسد درانی کے مطابق اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر ایک سو چالیس ملین روپے مہران بینک کے مالک یونس حبیب کو تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔چھ ملین تقسیم ہوئے جب کہ باقی رقم '' اسپیشل فنڈ '' میں جمع کر دی گئی۔اسد درانی نے اپنے بیان میں '' یادداشت کے زور پر''کچھ سیاستدانوں کے نام اور انھیں دی گئی رقم کی تفصیل دی۔یہ نام بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔
ان کے بیان کے برعکس یونس حبیب نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے سیاست دانوں میں تقسیم کے لیے ایک ارب اڑتالیس کروڑ روپے جمع کیے۔اس رقم میں سے ایک سو چالیس ملین بانٹے گئے اور باقی واپس کر دیے گئے۔یونس حبیب نے پیسے لینے والوں کی جو فہرست جمع کروائی۔اس میں اضافی ناموں کے علاوہ دی گئی رقم کی مالیت میں بھی واضح فرق نظر آتا ہے (یہ تفصیل بھی فیصلے کا حصہ ہے)۔شاید اسی تضاد کے پیشِ نظر سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو حتمی کھوج لگانے پر مامور کیا مگر آخر میں ایف آئی اے بھی کانوں کو ہاتھ لگا کے الگ ہو گئی۔
( یونس حبیب کا اپریل دو ہزار انیس میں انتقال ہوگیا۔ غلام اسحاق خان کا دو ہزار چھ میں اور اصغر خان کا جنوری دو ہزار اٹھارہ میں انتقال ہو چکا ہے۔ اسد درانی کو را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مشترکہ کتاب لکھنے پر تادیبی انکوائری اور ملک چھوڑنے پر پابندی کا سامنا ہے۔جنرل اسلم بیگ ضعیفی کے سبب تقریباً گوشہ نشین ہیں۔ )۔
مہران گیٹ اول ( انیس سو ستر ) کی کبھی تفتیش نہیں ہوئی اور مہران گیٹ دوم ( انیس سو نوے ) کا میم بھی آج کہیں نظر نہیں آتا۔ (قصہ جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)