جعلی خبروں کا زہر پہلا حصہ

ضروری نہیں کہ زیادہ ہتھیار رکھنے والا جنگ جیتے بلکہ اب معلومات کو کنٹرول کرنے والے کام یاب ہوتے ہیں۔


اکرام سہگل February 06, 2021

سیاسی و معاشی فوائد کے لیے جھوٹ اور افوائیں پھیلانا صدیوں کا آزمودہ حربہ ہے۔ 24صدیوں پہلے اسے ''ارتھ شاستر'' میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اس کتاب کو ریاستی امور چلانے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے آج بھی نصاب کا درجہ حاصل ہے۔ فتنہ و انتشار پھیلانے کے سبھی ہتھکنڈے اس میں شامل ہیں اور اس اعتبار سے ارتھ شاستر کو ہائیبرڈ وار کی قدیم ترین کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔

مودی نے اس نصاب کو گھول کر پی رکھا ہے اور اسی لیے جھوٹ اور جعلی خبریں پھیلانے کو باقاعدہ فن بنا دیا ہے۔ ارتھ شاستر کا مصنف کوٹلیہ، جو چانکیہ کے نام سے معروف ہے، کے مطابق دشمن کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے کے ساتھ ساتھ اسے گمراہ کرنے کے لیے افواہوں ، پراپیگنڈہ اور جھوٹ پھیلانا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ناگزیر ہے۔

انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں معلومات کا ایسا سیلاب برپا ہوچکا ہے جس کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی اور اسی لیے آج کے عہد میں معلومات کے میدان میں جنگ پہلے سے زیادہ اہم اور زیادہ پیچیدہ ہوگئی ہے۔ ہرطرح کی معلومات آج کمپیوٹر کے ایک کلک کی دوری پر ہیں۔

اب یہ انٹرنیٹ پر معلومات فراہم کرنے والوں کی نیت پرمنحصر ہے کہ وہ اس معلومات کو ابہام، گمراہی ، کھلا جھوٹ یا شفاف سچ پھیلانے یا فریب کاری میں سے کس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہر کس و ناکس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس معلومات کی جانچ پرکھ سے اس کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرسکے۔ گمراہ کن معلومات پھیلانے ہی کو آج کی اصطلاح میں ''فیک نیوز'' یا جعلی خبروں کا نام دیا گیا ہے۔

افواہوں یا گمراہ کُن خبروں کو پھیلانے میں ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئیبلز کو شاطر ترین دماغ تصور کیا جاتا ہے جس نے اسے باقاعدہ سائنس بنایا۔ اس نے افواہ سازی کا ایک ایسا کارخانہ لگایا جس میں بروقت، آسان فہم، جذباتی تاثیر رکھنے والا تیر بہ ہدف مواد تیار کیا جاتا تھا اور ان افواہوں کو بار بار اس طرح دہرایا جاتا کہ یہ عوام کے ذہن پر نقش ہوجاتی تھیں۔

الیکٹرانک عہد میں اس حربے کے استعمال کے مواقعے ارزاں ہوگئے اور معلومات کی جعل سازی کی مہارت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا آسان نہیں رہا۔ ہیکنگ، اور سوشل میڈیا روبوٹس کے ذریعے سوشل نیٹ ورکس پر ہنگامہ کھڑا کرنا اب ایک کھیل بن گیا ہے۔

'فیک نیوز' کی اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ دراصل ایسی خبریں یا خبر نما مضامین ہیں جنھیں جان بوجھ کر فریب دہی اور عوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔ سیاسی حالات پر اثرانداز ہونے یا کاروباری تشہیر کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں فرد یا پراڈکٹ کی منفی تشہیر کی تکنیک اختیار کی جاتی ہے۔ فیک نیوز یا جعلی خبر کا استعمال سماجی تنازعات کو ہوا دینے کے لیے ہوتا ہے۔ غیر حقیقی یا نیم درست خبریں یا مضامین اپنے قارئین کو گمراہ کرکے عدم اعتماد کی فضا پیدا کرتے ہیں۔

بعض مرتبہ اس عدم اعتماد کے نتیجے میں فساد، کسی غیر حقیقی معاملے پر احتجاج یا تشدد کے واقعات بھی جنم لیتے ہیں۔ یہ وہ زہر ہے جو پڑوسی کو پڑوسی کا دشمن بنا دیتا ہے۔ افراد، تنظیمیں اور کئی حکومتیں مختلف مقاصد کے لیے فیک نیوز کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کے ذریعے سماجی تنازعات کو بڑھاوا دے کر جمہوری نظام سے عوام کا اعتماد ختم کیا جاتا ہے اور لوگوں کو کسی مشترکہ مقصد کے لیے کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑا جاتا۔ فیک نیوز کا دوسرا بڑا مقصد اہم امور سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں وہ مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن جعلی خبروں کو حکومت کو بدنام کرنے اور سیاسی مفاد کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔

سوشل میڈیا نے ابلاغ کے میدان میں فریب کاری کو نئی جہات دی ہیں۔ کیمرج اینالٹک نے فیس بک کے 8کروڑ 70لاکھ صارفین کا ڈیٹا حاصل کیا اور انھیں خبر بھی نہیں ہونے دی۔ اس ڈیٹا کے ذریعے ان کے رجحانات کا جائزہ لیا اور ان کے سیاسی جھکاؤ کی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کی۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے حکمت کار اسٹیو بینن نے فیس بک پر سیاسی اشتہارات کے لیے اس معلومات کا استعمال کیا اور بالخصوص ہلیری کلنٹن کی صدارتی مہم کو نشانہ بنانے کے لیے ٹرمپ کے حق میں امریکیوں کی رائے سازی کی۔

ان اشتہاروں کے ذریعے حریف کے خلاف سنسنی خیز، ہتک آمیز اور بعض مرتبہ اشتعال انگیز اور جھوٹے پیغامات بھی پھیلائے گئے۔ یہ طریقہ اب نظام پر عوام کا اعتماد کمزور کرنے اور اداروں کو بدنام کرنے کے لیے حکومتوں اور سیاست دانوں کا باقاعدہ ہتھیار بن چکا ہے۔ یاد کیجیے کس طرح سوشل میڈیا کی مہم کے ذریعے کیپٹل ہل پر 6جنوری کو ہونے والے فساد کی راہ ہموار کی گئی اور بعد میں ٹوئیٹر کو صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند کرنا پڑا۔

عالمی سیاست میں حریف ممالک کو بدنام کرنے کے لیے فیک نیوز حکمت عملی کا باقاعدہ جز بن چکی ہے۔ اس حوالے سے مغرب کی روس، چین اور ایران اور ان ممالک کی مغرب کے خلاف ایسی مہمات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

افواہ سازی اور گمراہ کن معلومات کو پھیلانے کے یہ حربے سرد جنگ کے دوران بھی استعمال کیے جاتے رہے۔ 2013 میں روس کے چیف آف جنرل اسٹاف ولیری ویزلیویچ گیراسیموف نے اس حوالے سے کہا تھا :''اب جنگیں اعلان کرکے شروع نہیں کی جاتیں اور ایک بار جب ان کا آغاز ہوجائے تو انھیں روایتی انداز میں نہیں لڑا جاتا۔ آج جنگوں میں غیر عسکری ذرایع زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں اور بعض مرتبہ یہ ہتھیاروں سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔''

ضروری نہیں کہ زیادہ ہتھیار رکھنے والا جنگ جیتے بلکہ اب معلومات کو کنٹرول کرنے والے کام یاب ہوتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ نے چنڈت کے نام سے معروف ہونے والی77ویں بریگیڈ کو متحرک کردیا تھا جو کہ غیر روایتی جنگی حربوں کی ماہر تھی ، کیا آج فوجیوں کو الیکٹرانک وار فیئر کی مہارت ضروری نہیں ہوگئی؟ (جاری ہے)

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔