روشن سال

عوام نے جس کام کیلئے مینڈیٹ دیا ہے اس ایجنڈے یا منشور پر فوری عمل کیا جائے اور اس طرح سے کہ عوام کو کچھ ہوتا نظر آئے


Syed Asadullah January 04, 2014

KARACHI: یوں تو 2013 بڑا ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا، اس سال ہم نے بڑے نشیب و فراز دیکھے لیکن مجموعی طور پر یہ سال ملک پر بھاری ثابت ہوا۔ کئی سانحات و واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے ملک کی صورت حال بگڑی رہی، نہ کہیں سکون نظر آیا نہ کہیں اطمینان قلب۔ جدھر دیکھیے ادھر ہنگامے ہی ہنگامے نظر آئیں گے۔ نہ جانے ہمارے ملک کو اور شہر کراچی کو کس کی نظر لگ گئی کہ ملک کی صورت بگاڑ کر رکھ دی۔ نہ جانے کون ملک دشمن عناصر ہیں کہ ہمارے ملک اور معاشی حب کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک طرف عوام کی خستہ حالی تو دوسری طرف ملک دشمن عناصر کی کارروائیاں۔ سارا سال یہی ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، احتجاجی جلوس، ریلیاں، خودکش حملے، بم دھماکے، املاک نذر آتش، ٹارگٹ کلنگ، قتل وغارت گری، اغوا کاری، رہزنی، لوٹ مار کچھ ایسی صورت حال ہوگئی تھی کہ کوئی نہیں بتاسکتا تھا کہ کس وقت کیا ہوجائے۔

جب ذہنی سکون، چین و آرام ہی غارت ہوجائے تو سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت مفلوج نہ ہو تو پھر کیا ہو۔ اچھے سے اچھا ہوش مند بھی ہکا بکا رہ جائے کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ یہ صورت حال صرف شہر کراچی کی ہی نہیں تھی بلکہ ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی یہی صورت حال برپا تھی۔ ان ملک دشمن عناصر کا پتہ ٹھکانہ تک معلوم نہیں کیا جاسکا اور تو اور یہ ملک دشمن عناصر تخریبی کارروائیاں کرنے کے بعد ایسے غائب یا فرار ہوجاتے تھے جیسے انھوں نے سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں کہ کسی کو نظر ہی نہیں آتے تھے۔ خدا معلوم ہمارے قانون نافذ کرنے والے کیوںکر ناکام رہے کہ ان عناصر کو قابو نہ کرسکے۔ قابو کرنا تو دور کی بات ہے انھیں گرفتار کرنے میں بھی ناکام رہے۔ یہ کیا طرفہ تماشا تھا اور کون سا طرز لاقانونیت تھا کہ جیسے اس ملک اور ان متاثرہ شہروں میں حکومت نام کی کوئی چیز بھی ہے۔

گزشتہ سال اتنے لا تعداد سانحات و واقعات رونما ہوئے تھے کہ نظام زندگی ہی معطل ہوکر رہ گیا۔ ملک کی معاشی حالت الگ مخدوش ہوگئی تھی جو اب بھی مخدوش ہی ہے۔ 2013 کے دوران کوئی شہر ایسا نہیں بچا کہ جس میں سنگین واقعات و سانحات نہ ہوئے ہوں۔ سال گزشتہ میں بھی بڑی قتل و غارت گری ہوئی، بے گناہوں کا خون بہایا گیا، خون بہانے والے کوئی باہر سے آنے والے نہیں تھے، وہ اپنے ہی ملک کے باشندے تھے، پھر کہتے ہیں کہ ہم ملک میں ''شریعت'' نافذ کریں گے۔ کیا ملک میں شریعت نافذ نہیں ہے۔ ہے ضرور مگر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ گزشتہ سال کو انانتہا پسندوں نے ہی ''خونی سال'' بنا دیا تھا۔ اب بھی ان کے عزائم ختم نہیں ہوئے بلکہ برقرار ہیں اور شاید 2014 میں بھی اپنا رویہ نہ بدلیں۔ اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان ملک دشمن عناصر کو نیک ہدایت اور توفیق عطا کرے کہ اس ملک کے عوام کا چین و سکون برباد نہ کریں اور بے گناہوں کا خون نہ بہائیں۔

خدا نہ کرے کہ ان کی یہ ملک دشمن کارروائیاں اس سال بھی برقرار رہیں بلکہ سال رواں میں ان کا خاتمہ ہوجائے۔ انسان کے دل میں آرزوئیں و تمنائیں تو بہت ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لیے اسے ذہنی و قلبی سکون زندگی کی آسائشیں، سہولتیں میسر ہونا ضروری ہے جو کہ اس پر آشوب دور میں ناممکن ہے اور ناممکن کو ممکن بنانا ہی تو حب الوطنی کہلاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کتنے حب الوطن ہیں جو سال 2014 کو ''ترقی و امن'' کا سال بنائیں گے۔ اس لیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم 2013 کی پرچھائیاں نئے سال پر نہیں پڑنے دیں گے تب ہی تو 2014 ایک ''روشن سال'' بنے گا۔

خیر یہ تو معلوم نہیں کہ اس نئے سال میں ہمیں کیا کیا دیکھنا پڑے لیکن سال کے آغاز اور ابتدائی مناظر سے ہی پتہ لگ گیا کہ حکومت کا ڈگر کیا ہوگا۔ جیسے کہ 31 دسمبر کی شام سے ہی ڈبل سواری پر پابندی اور ساحل سمندر کی طرف جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کرکے شہریوں کو نئے سال کی آمد کا جشن منانے سے روکا گیا۔ کیا مناسب نہ ہوتا کہ صرف غلط اقدامات پر پابندی عائد کی جاتی، ہوائی فائرنگ اور جان لیوا پٹاخوں پر پابندی ہوتی لیکن شہریوں کی آزادی پر قدغن نہ لگائی جاتی۔ بجلی، گیس کا بحران پہلے ہی موجود ہے، بلکہ اب پانی کا بحران بھی للکار رہا ہے۔ اس لیے پانی کی بلا روک ٹوک کے سپلائی پر پابندی یعنی پانی کی سپلائی مقررہ اوقات میں کی جائے گی۔ سال 2013 اختتام پذیر ہوا لیکن کچھ ''تبدیلی'' نہ لاسکا، بس زبانی کلامی دعوؤں میں پورا سال بیت گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہمیں وقت کی قدر نہیں۔ کہتے ہیں ہمارے پاس تو بہت وقت ہے۔ ارے ان سے کوئی تو پوچھے کہ تمہیں وہ سبق یاد نہیں ہے کہ ''سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں''۔ اچھا وقت آنے میں تو دیر لگتی ہے مگر برا وقت آنے میں دیر نہیں لگتی۔ اس لیے غلط اندازے نہ لگائے جائیں۔

عوام نے جس کام کے لیے مینڈیٹ دیا ہے اس ایجنڈے یا منشور پر فوری عمل درآمد کیا جائے اور اس طرح سے کہ عوام کو کچھ ہوتا نظر آئے، نہ کہ صرف ''لفاظی'' اور ''کاغذی'' باتیں کی جائیں۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ عوامی مسائل کو ترجیحات میں سرفہرست رکھ کر عوام کے لیے کچھ کرکے دکھایا جائے، محض خوش فہمیوں میں ڈال کر ان کے دل نہ بہلائیں۔ یہ نہ سمجھنا کہ سیدھے سادے ہیں لوگ، بہلتے بہلتے بہل جائیں گے لوگ۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ''ٹہلتے ٹہلتے نکل جائیں گے ایوانوں کی طرف لوگ'' اس لیے سال 2013 کی ڈائری کھلی رکھیں۔ اس کی مدد سے نا مکمل کاموں کو تکمیل تک پہنچائیں، اگر 2013 کے نامکمل کام مکمل نہ ہوں گے تو 2014 میں بھی مکمل نہیں ہوں گے۔

2014 میں ہمیں اہم اور ہولناک مناظر سے بھی گزرنا ہوگا۔ ایک اہم مسئلہ بھی تو اسی سال درپیش ہے، وہ مسئلہ ہے ''امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلاء کا آغاز''۔ جس مسئلے کا آغاز ہی اتنا ہولناک ہو تو انجام کیا ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اس کے اثرات کا اندازہ ہر خاص و عام خصوصاً میڈیا والے بھی ظاہر کررہے ہیں۔ اس لیے کہ امریکی افواج کو پاکستانی علاقے سے ہی گزرنا ہے۔ اس لیے 2014 آغاز ہی سے خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔ ''مشتری ہوشیار باش''۔ عموماً تو سب ہی حالات کا مشاہدہ کررہے ہیں اور ملک و قوم کی سلامتی و بقاء کے لیے دعائیں کررہے ہیں لیکن صاحبان اقتدار کو زیادہ چوکنا رہنا ہوگا۔ ملکی و بیرنی حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد موثر حکمت عملی بنانا ہوگی اور اس پر عمل درآمد بھی کرانا ہوگا۔

بڑی جدوجہد اور کشمکش کے درمیان ہم نے 2013 کا سفر طے کرلیا، اب آگے کی طرف دیکھنا ہے اور آگے بڑھنا ہے، پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا ہے۔ جو ہوا سو ہوا مگر اب نہیں ہونے دینا ہے، جو کوئی پچھلے کو رویا وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ نئے سال کے آغاز سے ہی نئے راستے پر چل پڑیں گے تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی اور اگر لکیر پیٹتے رہے تو وہی حال ہوگا جو 1971 میں ہوا تھا۔ خدا نہ کرے وہ وقت آئے لیکن یہ فطری تقاضا ہے کہ ہر ممکن اور ناممکن کا ادراک ہونا چاہیے۔ یعنی ممکن کو ناممکن نہیں بنانا ہے بلکہ ناممکن کو ممکن بنانے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ تب ہی یہ سال خوشحال سال بنے گا۔ یہی تقابل کا راستہ تھا 2013 اور 2014 کا اور اس امید کے ساتھ اپنی گزارشات کو اختتام پر پہنچاتا ہوں کہ پوری قوم ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ہوگی سال 2014 کو ''روشن سال'' بنانے میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔