بجلی کے بل اور کنڈا سسٹم
بجلی کی فراہمی کا عوامی مطالبہ اور بجلی کی ناپیدی کا رونا کئی سال سے حکومت اورعوام کی سطح پر’’ہاٹ کیک‘‘ بنا ہوا ہے
PARIS:
بجلی کی فراہمی کا عوامی مطالبہ اور بجلی کی ناپیدی کا رونا گزشتہ کئی سال سے حکومت اور عوام کی سطح پر ''ہاٹ کیک'' کا درجہ حاصل کیے ہوئے ہے، بجلی بحران کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کن جھرنوں سے بجلی بحران نے جنم لیا؟ ان سوالات کے جواب میں بہت سے نکات پیش کیے جاسکتے ہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ملک میں موجود بجلی کو کس طرح سے ضایع کیا جارہا ہے، باوجود اس کے کہ پوری قوم بجلی بحران میں گھری ہوئی ہے، اس اہم ترین مسئلے کی جانب نہ تو گزشتہ حکومتوں نے توجہ مرکوز کی اور نہ موجودہ حکومت بجلی چوری روکنے کے لیے راست پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وفاق میں بجلی کی وزارت کا قلم دان اس ہستی کے ہاتھ میں ہے جو کام، کام اور بس کام کے ماٹو کے بینر تلے خود کو کہلوانا پسند کرتی ہے اور ان کے نائب وزیر ''چستی'' میں بہت نام کما چکے ہیں، یہی نائب وزیر جب کل کی اپوزیشن میں تھے تو ''جسمانی چستی'' کے زمرے میں بھی بہت سی نیک نامی ان کے حصے میں آئی، آج کل الفاظ کی ادائیگی ان کی وجہ شہرت بنی ہوئی ہے۔ لیکن بجلی کے ان دو وزیروں کی موجودگی بھی بجلی چوری کی کمی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکی۔ دو تیز و تند سیاسی کمان دار بھی بجلی چوری اور اس پہ سینہ زوری کرنے والوں کو لگام دینے میں ناکام ہیں، عین اس وقت جب ملک اور قوم کے لیے ایک ایک یونٹ ''لعل'' کی حیثیت رکھتا ہے۔ توانائی بحران کے اس نازک ترین دور میں بجلی چوری اور بجلی کے ضیاع کی ہوش ربا داستانیں دن کی چکا چوند روشنی میں رقم ہورہی ہیں۔
قانون کے بانجھ پن کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ ملک کے ایک حصے میں صرف ایک ماہ کا بل اگر صارف کسی مجبوری کی بنا پر ادا نہیں کرپاتا تو محکمے والے اس کے میٹر اتارنے کے لیے رخت سفر باندھ لینے میں ایک لمحے کی دیر نہیں لگاتے اور اسی ملک کے دوسرے حصے میں یہ ہو رہا ہے کہ ایک سوئچ سے دس دس پنکھے چل رہے ہیں اور اگر مکینوں کو خوف خدا کا واسطہ دے کر کہا جائے کہ جب ایک پنکھا چلانے سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے، باقی نو پنکھے کیوں چلا رہے ہیں؟ جواب آتا ہے، چلنے دیں ہم نے کون سا بل دینا ہے۔ یہ نہ تو کوئی مثال ہے نہ کسی افسانے سے لیا گیا ایک جملہ بلکہ اندرون سندھ، کراچی کے کچھ علاقوں، پنجاب کے طاقت نشینوں کے بسیروں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کے قصے ہیں جہاں بجلی کو ''پانی'' کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بھی ناجائز طریقوں سے۔ سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب کے کچھ خاص علاقوں، گوٹھوں اور گاؤں کا دورہ کیجیے۔ خاموش دوروں کے بعد یہ راز کھلے گا کہ ان علاقوں میں میٹر تک لگانے کی زحمت نہیں کی جاتی، بس سیدھا سیدھا کنڈا ڈال دیا اور مفت بجلی کے مزے لوٹنے شروع کردیے۔ ان ہی ''روشن'' علاقوں اور گوٹھوں میں واقع ایک امام مسجد محکمہ بجلی کے ذمے داروں کے پاس گئے اور عرض گزار ہوئے، جناب! مسجد کا میٹر لگوا دیجیے۔ جواب ملا، مولوی صاحب کنڈے ڈالیے اور بجلی استعمال کیجیے۔
شنید ہے کہ کئی علاقوں میں محکمہ کے اہلکاروں نے ماہانہ بل کو ''منتھلی'' میں ایڈجسٹ کر رکھا ہے۔ یہ اہلکار اور قوم کے وسائل کے یہ ''چوکیدار'' مکینوں سے مخصوص رقم ہر ماہ لیتے ہیں اور اس بدلے مکینوں کو کھلی آزادی ہے، چاہیں تو پورا مہینہ بجلی سے گھروں کو روشن رکھیں، چاہیں تو ٹیوب ویل چلا کر زمنیوں کو سیراب کریں، نہ کوئی روکنے والا ہے نہ کوئی ٹوکنے والا۔ بھرے پھرے تھانوں اور محکمہ کے اہلکاروں کی فوج ظفر موج کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟ کیا ان علاقوں میں قانون کا چلنا پھرنا ممنوع ہے؟ کیا ان علاقوں کے ایس ڈی اوز، تھانے دار، پولیس اہلکار، ڈی سی صاحبان مستعفی ہوکر گھروں کو جا چکے؟
ایک ملک ہے، اس ایک ملک کے تمام شہروں، گاؤں، گوٹھوں میں ایک آئین اور ایک قانون کے نفاذ کا سبق پوری قوم کو پڑھایا نہیں جاتا، پھر ایسا کیوں ہے؟ کہیں صرف ایک ماہ کے بل نہ دینے پر محکمہ کے چابک دست اہلکار صارف کا میٹر اتارنے کے لیے دوڑ لگا دیتے ہیں اور کہیں یہ صورت حال کہ نہ صرف بجلی کا ضیاع ہو رہا ہے بلکہ حکومت کو بجلی کے بل تک نہیں دیے جا رہے۔ سرعام کنڈے لگا کر بجلی چوری کی جارہی ہے لیکن حکومتی ادارے آنکھیں بند اور اپنی جیبیں گرم کرکے قوم اور ملک کا نقصان کر رہے ہیں۔ بجلی کے ''چست'' سیاسی کمان دار کیوں ان حقائق سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھانے لگا، شاید حکومت کے یہ ''چلتے پھرتے'' وزیر معاملات کی سنگینی سے بے خبر ہوں گے؟ انتہائی بودا سا خیال ہے۔
محکمہ وزرا کی ناک کے عین نیچے ''پٹھو گرم'' کھیلے اور ان کے ماتھوں پر ''بے خبری'' کی جھومر سجی ہو۔ ایسا ممکن نہیں۔ معاملات کی سلجھن میں دراصل یہ امر مانع ہے کہ ان کی سیاسی اور حکومتی دوستیاں راست قدم اٹھانے سے متاثر ہوسکتی ہیں۔ ان کے سیاسی دوستوں کے حلقوں میں قانون پسندی کی لہر سے ہلچل پیدا ہوگی جو ملک کے غم خوار سیاست دانوں کے ووٹ بینک اور مفادات کو تہس نہس کر دے گی۔ تمام پاکستانی ایک جیسے حقوق کے حقدار ہیں، اگر ملک کے بعض حصوں میں مکینوں کو کنڈے ڈالنے کی آزادی دی گئی ہے، تو جو ایمان داری سے ہر ماہ بل دیتے ہیں انھیں بھی میٹر اور بل کی ادائیگی سے ''آزاد'' کرکے کنڈوں کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کی چھوٹ دے دیں کہ اس ملک کے وسائل پر ہر شہری کا برابر کا حق ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ طاقت ور کنڈوں کے ذریعے بجلی جیسی توانائی سے مستفید ہوں اور طاقت کے وصف سے عاری بھاری بھرکم ''بلوں'' کی سزا بھگتیں۔