مسئلہ کشمیر خطہ کا امن داؤ پر

مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قومی انا کی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔


ہریش سکھیجا February 07, 2021

دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اگر تصادم ہوتا ہے تو یہ دنیا بھرکے لیے انتہائی مہلک اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، لیکن پوری سچائی اور حقائق کی روشنی میں اس بات کا جائزہ اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر یہ مسئلہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود حل طلب ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 2021 کی پہلی پریس کانفرنس کے موقع پر نمائندے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مل کر سنجیدگی سے بات چیت کریں اور اس سلسلے میں ثالثی کے لیے ان کی بطور سربراہ اقوام متحدہ خدمات ہر وقت دستیاب ہیں۔

انھوں نے خبردارکیا کہ طویل عرصے سے حل طلب مسئلہ کشمیرکا کوئی فوجی حل نہیں ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی بھی فوجی تصادم نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پوری دنیا کے لیے بڑی تباہی کا باعث ہو گا،یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انتونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دے رہے ہیں بلکہ گزشتہ برس افغان مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان کے 4 روزہ دورے میں بھی انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حل پر اسی طرح زور دیا تھا۔

پاکستان کی بہت زیادہ امیدیں عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے وابستہ ہیں، مسئلہ کشمیر کے پرامن حوالے سے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ سلامتی کونسل کے مستقل ممالک کے لیے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اہم نہیں بلکہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نیوکلئیر جنگ کے بڑھتے خطرات کے باعث فکر مند ہیں۔ اس لیے عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے بجائے کنٹرول لائن پر بڑھتی کشیدگی کوکم کرنے کے لیے یک طرفہ فیصلوں کے بجائے مذاکرات کی تجاویز پیش کر رہی ہیں، اگر پاکستان اقوام متحدہ کے فیصلوں کا منتظر رہا توگزشتہ 72 سالوں کی طرح صرف دوطرفہ مذاکرات کا ڈھول ہی پیٹا جائے گا۔

بھارت کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کے زور پر کسی بھی قوم کو ہمیشہ کے لیے زیر قبضہ نہیں رکھا جاسکتا۔یہ مسئلہ جوناگڑھ یا حیدرآباد کی طرح نہیں کہ بقول نہرو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہوسکا اور یہ مسئلہ پوری شدت سے موجود ہے جس کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دیتی ہے۔ بھارت کو اپنے عوام میں جذباتی فضا کم کرنی چاہیے تاکہ مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی صورت میں اندرونی خلفشار اور دبائو نہ ہو۔ اسی جذباتی فضا کو پاکستان میں بھی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔

پاکستان اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اس معاشی صورتحال میں ملکی قیادت کی جانب سے عالمی دنیا پر اثر و رسوخ انتہائی مشکل ہے۔ پاکستان کی کمزور معیشت کشمیریوں کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ پاکستان کو اپنی معاشی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے سفارتی حکمت عملی بنانا ہوگی۔ پاکستانی معیشت پر آئی ایم ایف سمیت کئی ممالک اور عالمی بینکوں کے قرضوں کا بوجھ ہے، اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ اس لیے پاکستانی قوم کو موجودہ صورتحال میں عالمی دنیا سے انصاف کی توقع ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔

اس مسئلہ کے تیسرے فریق یعنی کشمیری قیادت کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ریاست سے اپنی افواج نکال لیں اور کشمیرکوکشمیری عوام کے حوالے کردیں۔ یہ اقوام عالم کی چشم پوشی ہے جو اپنی اقتصادی اور معاشی معاملات کو مقدم جانتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چپ ہیں، مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کو ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے، یہ سراسر ظلم وزیادتی اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قومی انا کی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ جموں کشمیر کے عوام سکھ کے ساتھ جی سکیں اور اس کا فائدہ پاک بھارت کے عوام کو بھی پہنچے گا جن کی بہت بڑی تعداد غربت اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے پاکستان اور بھارت کے دفاعی اخراجات میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگی اور وہ رقم دونوں ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پر خرچ ہوگی۔

کشمیریوں سے کہیں زیادہ پاکستان اور بھارت کے عوام کو امن کی ضرورت ہے اور اگر برصغیر میں امن قائم ہوگیا تو یہ علاقہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ ہوگا۔ دونوں ممالک کو آپس میں لڑنے کی بجائے باہمی تعاون کی ضرورت ہے جو تعلیم، صحت، تجارت، ثقافت، زراعت، صنعت و حرفت اور دوسرے کئی شعبہ جات میں کیا جاسکتا ہے۔ اس سنہرے دور میں اگر مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بھارت کو بھی چاہیے کہ جرات مندانہ فیصلے کرے اور آگے بڑھے۔آنے والی نسلوں کو جنگوں کی تباہی کے خطرات کی بجائے پر امن اور خوشحال مستقبل کی نوید دینی چاہیے۔

یہاںافغانستان کی مثال پیش کرتا ہوں کہ جہاں امریکی افواج کے انخلا کو پرامن طریقے سے یقینی بنانے کے لیے پوری دنیا نے امریکا کا ساتھ دیا ۔ امریکا نے طالبان سے مذاکرات کیے اور مسئلے کا حل نکالا۔ ایک تجویز یہ بھی زیر غورآئی ہے کہ اقوام متحدہ کے قواعدکے مطابق کسی بھی متنازعہ علاقہ کے لیے ٹرسٹی شپ کونسل تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک گیارہ ممالک یو این ٹرسٹی شپ میں رہے ہیں جن میں ناؤرو،گھانا، ٹوگو لینڈ،مغربی سامووا، ٹینگا نیکا، روانڈا ارونڈی، برطانوی کیمرون، فرانسیسی کیمرون، نیو گنی، بحرالکاہل جزائر اعتماد علاقہ، اطالوی صومالی لینڈ شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے تحت بارہویں ٹرسٹی شپ ریاست جموں کشمیر کے لیے کیوں نہیں ہوسکتی؟ پاکستان ماضی میں ایسی تجاویز جنوری 1951 میں دولت مشترکہ کانفرنس اور 1965 میں پیش کرچکا ہے جب کہ حالیہ دنوں میں پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے مشرقی تیمورکے طرز کی تجویز پیش کی ہے۔ بہرحال یہ تو دونوں ممالک پر منحصر ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرنے پر رضامند ہوتے ہیں اور بالخصوص اس میں کشمیریوں کی رائے کو اولیت دی جانی چاہیے ۔

ہمیں اس سچ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا کے طاقت ور ممالک کی ترجیحات اب بدل چکی ہیں وہ بنیادی انسانی حقوق کو اہمیت دینے کی بجائے اپنے معاشی اور اقتصادی مفادات کو مقدم رکھ رہے ہیں لہذا مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلیے پوری دنیا کی توجہ سمیٹنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے اپنی مضبوط لابی بنائیں اورغیر ملکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرے تاکہ ملکی معیشت پرمثبت اثرات مرتب ہوسکیںاور پاکستان طاقتور معاشی ملک بن کر ابھر سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں