وسیب اور ملبارکی ترقی پسندی

آخرکار ایسی امید کی نوید بن جاتی ہے جس کی تھاہ اور جہد مسلسل یہاں کے سپوتوں کی داستان رقم کرتی ہے۔

Warza10@hotmail.com

میرے دیس کے خطے ''وسیب'' کی ترقی پسند زرخیزی اور کمیونسٹ فکر کی جولانی جدوجہد اور بھارت کے سائوتھ علاقے ''ملبار'' کی تحریکی اور شعوری سوچ اکثر ایک ایسے سنگم پر جا کر جڑ جاتے ہیں جہاں سے سرخ جھنڈے کی لالی کمیونسٹ سوچ وفکر میں ڈھل کر جدوجہد اور صرف جدوجہد کا استعارہ ہو جاتی ہے جو آخرکار ایسی امید کی نوید بن جاتی ہے جس کی تھاہ اور جہد مسلسل یہاں کے سپوتوں کی داستان رقم کرتی ہے۔

نوجوان صحافی اور سوشلسٹ فکر پر کھڑا زین العابدین اپنے پرکھوں کے ''ملبار'' کی محنت کش مٹی کی روشن خیال سوچ اور جدوجہد کرنے کے نقطے سے واقف تھا، شعور و ادراک کے اسی خیال نے اسے گھر کے دیگر افراد سے الگ تھلگ رکھا، وہ روایت شکن ہونے کے ناتے باپ کی جدوجہدکو معتبر ضرور جانتا تھا مگر ان کے رسم و روایات میں مبتلا خیالات کو اپنانے کی مخالف سمت چلتا تھا، اسی بنا ٹنڈو محمد خان میں مقیم باپ ملبار کے روایتی کھانے پکانے کی محنت میں اسے جوتنا چاہتا تھا مگر وہ تھا کہ باپ کی محنت کو سائنسی انداز فکر سے دیکھنے کی غرض سے علم حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا اور یہی سوچ کا تضاد اس میں شعوری علم کا باعث بنا۔

زین نے کراچی کے لانڈھی ایسے سہولیات سے محروم علاقے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مزدور اور محنت کشوں کے ساتھ گذارا، وہ محنت کشوں کے سرمایہ دارانہ استحصال پر اکثر کڑھتا رہتا اور ان کی سوچ کو سائنسی فکر سے جوڑ کر سوشلسٹ انقلاب میں تبدیلی کا خواہاں رہا، سوشلسٹ رشتے کو مضبوط اور توانا کرنے کی غرض سے اس نے عالمی سوشلسٹ تحاریک کا بغور جائزہ لیا، زین میں ہر وقت کچھ نیا کرنے کی جستجو اور لگن رہتی اور وہ سب سے الگ ہٹ کر عمل اور سوچ کا فرد بنا رہتا، زین العابدین سے میری پہلی ملاقات لانڈھی کے مزدوروں کو ازسر نو منظم کرنے کے سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی کی کورنگی میٹنگ میں صادق جتوئی نے کروائی۔

زین ان دنوں کالج میں زیر تعلیم تھا، سو میری تجویز تھی کہ وہ مزدور محاذ کے مقابل طلبہ محاذ پر کام کرے تاکہ طلبہ قیادت میں ایک باشعور دوست کا مزید اضافہ ہو، اسی بنا زین العابدین کو کمیونسٹ پارٹی کی سندھ کانفرنس میں بطور مندوب دعوت دی گئی، جس کے بعد زین نے طلبہ محاذ پر کام کرنے کی ٹھانی، اس واسطے اس نے شعوری طور سے طلبہ سے رشتہ استوار کرنے اور ان سے سماجی راہ ورسم جوڑنے کا سب سے بہتر ذریعہ شام میں درس و تدریس نکالا اور لانڈھی سمیت قائد آباد میں دیگر دوستوں کے ساتھ طلبہ کو پڑھانے میں جت گیا۔

اس کا ہر عمل سوشلسٹ فکر کے گرد ہی رہتا تھا، اسی بنا وہ اپنے بچپن کے دوست اور صحافی زاہد حسین کے کوچنگ میں ناراضگی کے باوجود پڑھانے کی غرض سے فوری آمادہ ہو گیا اور زاہد سمیت سب کو ششدر کر دیا، زین العابدین سماج کی قدروں کو سوشلسٹ فکر کے تحت دیکھنے اور کرنے کا وہ پختہ کار نوجوان تھا جس نے اپنی منزل ہی کمیونسٹ سماج کی تشکیل اور جدوجہد بنا لی تھی، اسی وجہ سے اس نے یونیورسٹی سے لے کر صحافت میں بھی چند گنے چنے باشعور دوست بنائے اور اپنی سوچ کو پختہ کار رکھا۔

زین العابدین کے دوستوں میں جرمنی میں مقیم صحافی شامل شمس نے اس کی دوستی اور اس کے خیالات کو ہمیشہ اہمیت دی اور زین العابدین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا، زین نے اپنی صحافت کی ابتدا ایک انگریزی اخبار سے کی اور اپنی شناخت اور خیالات کو ''The Owl of Mineva'' کالم ذریعے پڑھنے والوں تک پہنچایا، زین اپنی ذات وعمل میں سوشلسٹ شخصیت کا وہ کارکن تھا جو علم و دلیل کی بنیاد پر گفتگو کا عادی ایک سخت گیر کمیونسٹ مانند تھا، زین طویل عرصے سے ''The News'' اخبار کے ایڈیٹوریل پیج سے وابستہ دوستوں کے لیے ایک ایسا مددگار صحافی تھا جو صحافت اور کالم کی افادیت کو مقدم رکھتا تھا۔

زین العابدین ایک ایسی اضطرابی کیفیت کی کمیونسٹ سوچ کا سپاہی تھا جو جمہوری اور شہری آزادی پر یقین کے ساتھ اپنی آزادی کے حق کو ہر حال میں محفوظ رکھتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس ملک کے پسماندہ طبقے کو بالادست طبقے سے آزاد کرایا جائے اور اس کے خاطر سماج میں سوشلسٹ فکر کی تعلیم کو عام کیا جائے، جہاں وہ تنگ نظری کا شدید مخالف تھا وہیں وہ کسی طور کمیونسٹوں کی کسی غیر منطقی دلیل کو ماننے پر راضی نہ ہوتا تھا۔


شاید اسی وجہ سے وہ سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر فکری حصار میں چلا گیا، جسے آسانی سے کورونا وبا نے دبوچ لیا اور یوں سوشلسٹ سماج کے قیام کے خواب سجائے پر امید سا زین العابدین سوشلسٹ فکر کے در کا وہ پیمانہ دے گیا جو بہر صورت استحصالی نظام کو ختم کرنے اور عوام کو فکری آزادی دلانے کا جوالا بنے گا... زین تم گئے نہیں بلکہ ہم سب کو جھنجھوڑ ضرور گئے ہو۔

سہ پہرکے سمے میرے موبائل پر ہم سب کے محبی اور ترقی پسند فکر کے سیل کارواں معروف صحافی نذیر لغاری گلوگیر آواز میں کہہ رہے تھے کہ وارث ہماری سوچ وفکرکا پرانا ساتھی عبدالشکور نہیں رہا، چند ساعت میری سامنے اندھیرا چھا گیا، میں سکتے میں آ گیا اور میرے حلق سے بمشکل ''کب'' کی آوز نکلی، نذیر لغاری دکھی ہو کر بولے کہ دس روز قبل... جی ... کے حیران کن لہجے پر نذیر لغاری نے گویا سر پیٹ لیا، کہا ہاں ہمیں اپنے ساتھی کو کاندھا دینے سے بھی محروم کر دیا گیا، نذیر لغاری کے دکھ پر رونے سے زیادہ میں اپنی بے خبری پر ماتم کناں ہوا ہی چاہتا تھا کہ نذیر لغاری نے کہا کہ سب دوست مل کر ساتھ ماتم کریں گے، اور گلوگیر انداز میں فون بند ہو چکا تھا۔

میں سوچ رہا تھا کہ جب نذیر لغاری، شاہد جتوئی، خاور سعید اور ارشاد امین ایسے سنگی ساتھی ہوں تو بھلا ہمارے جانے والے دوست جدا تو نہیں ہو سکتے، ان کے قصے محفلوں کی بھپکیاں اور ان کے خلوص بھرے قصوں میں ان کی ترقی پسند سوچ کی قربانیاں بھلا کیسے بھلائی جا سکتی ہیں؟ جب شاہد جتوئی قاسم، قاسم کہتا کبھی یہاں اور کبھی وہاں پریشان حال اپنے قاسم لاشاری کو تلاش کر رہا ہو، سوتے اٹھتے اور ہر فون پر بے ساختہ قاسم کی بات شروع کر دے تو ایسے سنگی ساتھی کے ہوتے ہم بھلا کیسے مر سکتے ہیں ... دیکھو نا کہ قاسم بھی زندہ ہے اور شکور بھی۔

میں تو شکور سے اس بات پر نادم ہوں کہ ہمیشہ ملنے کا وعدہ کیا اور کبھی اپنی اورکبھی شکور کی مصروفیت سبب نہ مل پائے، گو کئی مرتبہ ارشاد امین سب کی منڈلی بنانے خاطر کراچی یاترا کرتے رہے مگر شاید محبت کی کسک کے اپنے ہی رنگ ہوتے ہیں ... مجھے شکور کی ہر ترقی پسند سوچ کی محفل میں شرکت اور جوش یاد ہے جس میں خوبصورت اور گھٹے قد کاٹھ کے شکور کا چہرہ سوشلسٹ سماج کی بارآوری کے امکان پر چمک اٹھتا تھا۔

شکور اپنے ترقی پسند خیالات کی بنا پر کراچی میں سوشلسٹ فکر کی ہر محفل اور تحریک کا لازمی حصہ ہوتا تھا، شائستہ اور دھیمے لہجے کے شکور میں ''وسیب'' کی مٹھاس کے تمام رنگ موجود تھے اور زہر پیر کی جنم بھومی کے طور فرید کی مکمل صوفیانہ ادائیں بھی تھیں، بینک میں اہم عہدے کے باوجود شکور ایک بہترین ٹریڈ یونین ورکر مانند اپنے بینک کے ملازمین کے حقوق کے لیے سینہ سپر رہتے، انھوں کی ادبی چاشنی میں شایدکہ ان کی اہلیہ کا ہاتھ رہا ہو جو کہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی تھیں۔

میں اکثر ان سے چند ان دوستوں کی حمایت پر الجھ جایا کرتا جو غیر نظریاتی اور ترقی پسندی کے نام پر دھوکا تھے مگر شکور ہمیشہ کہتے کہ کامریڈ اس تنگ نظر سوچ کے زمانے میں یہ بھی بہتر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، اس لمحے مجھے شکور ہمیشہ ایک تربیت یافتہ وسیب کا وہ کمیونسٹ لگا، جس نے شعوری انداز سے عوام کی جمہوری اور فکری آزادی چاہی ہو، نذیر لغاری نے درست ہی تو لکھا کہ۔۔۔

''شکور صاحب ایک پختہ کار سیاسی دانشمند تھے۔ وہ مارکسسٹ تھے اور انھوں نے ساری زندگی اپنی سیاسی کمٹمنٹ سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں کیا۔ ہمارے لیے ان کا گھر تہذیب وتمدن، ادب وفن کے مرکز کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ زندگی بھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی موقع پرستی کی راہ اختیار نہیں کی اور نظریاتی طور پر مکمل ایمانداری سے آخری دم تک اپنے موقف پر قائم رہے۔ یہ ہمارا عہد ہے، ہمارا وعدہ ہے، ہمارا وچن ہے اور ہمارا پکا عزم ہے، ہم اپنے یاروں کی یادوں کے ساتھ رہیں گے۔ یارو ہم تمہیں کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی بھول پائیں گے۔''
Load Next Story