بجلی کی فراہمی اور اجتماعی کوشش
آج کا پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.3 کھرب روپے سے بڑھ چکا ہے جو ملکی معیشت کے لیے تباہی کا باعث ہے۔
کراچی کی شدید محبت میں مبتلا فرد کی حیثیت سے، جو کراچی میں ہی پیدا ہوا اور یہیں کے متنوع ،لچکدار اورتیز رفتار ماحول میں پروان چڑھا، مجھے وہ تمام ترقی پسندی، ہنگامہ و افراتفری اور بے یقینی کی صورتحال یاد ہے جس سے کراچی گزشتہ چار دہائیوں کے دوران گزرا ہے۔
2005 میں نجی طور پر سرمایہ کاری کے بعد کے ای ایس سی نے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جس سے کراچی کودرپیش بجلی کی شدید کمی دور ہوئی اورجس کافائدہ شہریوں کو بجلی کی قابل بھروسہ فراہمی، اخراجات میں کمی اور بہتر کسٹمر سروس کی صورت میںملا۔ نجکاری کے بعد، گزشتہ 15 برسوں کے دوران، کے الیکٹرک نے جتنا کمایا، اُس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کی ہے یعنی اب تک ،جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے انفرااسٹرکچر پر 330 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے اور،مجھے یہ کہنے میں کوئی آر نہیں کہ ،پاکستان کے پاور سیکٹر میں کسی بھی ادارے پر کی جانے والی یہ بے مثال سرمایہ کاری ہے۔
پیداواری گنجائش میں 1,057 میگا واٹ کے اضافے سے کارکردگی میں 25 فیصد بہتری آئی ہے جب کہ ، 2005 کے مقابلے میں، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کی گنجائش تقریباً دوگناہو چکی ہے۔ اس طرح ، آج،کراچی کا 75 فیصد سے زائد علاقہ لوڈ شیڈ نگ سے مستثنیٰ ہے جب کہ نجکاری کے وقت شہر کا محض 6 فیصد حصہ لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ تھا۔مزید یہ کہ 2009 سے اب تک، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن پر کے الیکٹرک کے نقصانات کم ہو کر 19 فیصد رہ گئے ہیں جو نمایاں بہتری ہے اور نیپرا نے بھی اپنی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹس میں اِس کی تصدیق کی ہے۔
نقصانات میں کمی ،کارکردگی میں بہتری اور حکومت پاکستان کی جانب سے آپریشنل سبسڈی کے خاتمے سے بھی قومی خزانے کو فائدہ پہنچا ہے کیوں کہ 2009 سے اب تک 550 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے اور یہ فائدہ سرکاری اداروں کی جانب سے عدم ادائیگی کی روش کے باوجود پہنچا ہے۔ عوام میں پایا جانے والا یہ غلط تصور کہ کے الیکٹرک اِجارہ داری رکھنے والا ادارہ ہے جو صرف منافع کمانے میں مشغول ہے، حقیقت سے بہت دور ہے۔
اِجارہ داری رکھنے والے ادارے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں جب کہ ضابطوں کے تحت کام کرنیوالے ادارے کی حیثیت سے کے الیکٹرک اس بات کا پابند ہے کہ وہ اُسی ریٹ پر بجلی فروخت کرے جو حکومت کی جانب سے مقرر کیا گیا ہے۔ مسابقت نہ ہونے کے باعث اجارہ داری رکھنے والے اداروں میں سرمایہ کاری کی ترغیب نہیں پائی جاتی جب کہ کے الیکٹرک نے گزشتہ 15 برسوں کے دوران 330 ارب روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے جب کہ اس کا اوسط ریٹرن 5 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔
اجارہ داری یا غیر مسابقتی ادارے خدمات کی فراہمی کے لیے ایسے صارفین کو ترجیح دیتے ہیں جن سے اْن کو منافع حاصل ہو اور معاشی اعتبار سے کمزور صارفین کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اس کے برعکس ، کے الیکٹرک نے جرأتمندانہ طور پر اُن آبادیوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے جہاں کم آمدنی کا رجحان پایا جاتاہے،جو معاشی اعتبار سے ناموافق ہیں، جس کی بدولت اِن علاقوں کی اقتصادی ترقی، آمدنی کے بہتر مواقع سمیت ، ہیلتھ کیئر اورتعلیمی سہولیات تک رسائی بہتر ہوجاتی ہے ۔
کے الیکٹرک کوکراچی میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کا احساس ہے اور اس نے ایک غیر معمولی سرمایہ کاری روڈ میپ بھی تشکیل دیا ہے تاکہ اس طلب کو پورا کیا جا سکے۔اس روڈ میپ میں انتہائی اعلیٰ کارکردگی والے جنریشن پلانٹس شامل ہیں جو سستا ایندھن ، مثلاً RLNG اور کوئلہ استعمال کرتے ہیں۔وفاقی حکومت کی ہدایت کے پیش نظر،بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کو ترجیح حاصل ہے تاکہ نیشنل گرڈ پر انحصار کم کیا جا سکے جو پہلے ہی مشکلات کا شکارہے۔
بد قسمتی سے سرکاری اور ریگولیٹری پروجیکٹ اور ٹیرف کی منظوری میں تاخیر کے نتیجے میں صرف ایک پروجیکٹ ہی حقیقت کا روپ دھار سکا ہے ۔یہ RLNG سے چلنے والا900MW پاور پلانٹ ہے اور اس پروجیکٹ کی لاگت 650 ملین امریکی ڈالرز ہے۔ اس پلانٹ کے آپریشنل ہونے کے بعد کے الیکٹرک اس قابل ہو جائے گا کہ وہ RFOسے بجلی پیدا کرنے کے بجائے سستے ایندھن کی مدد سے بجلی پیدا کرے جن کی کارکردگی بھی 59 فیصد زیادہ ہے۔ یہ پلانٹ، اس سال فعال ہوجائے گا جس سے شہر میں بجلی کی فراہمی بڑی حد تک بہتر ہو جائے گی۔
کراچی ، منفرد آپریشنل پیچیدگیوں سے مبرا نہیں ہے جن کا سروس ڈلیوری کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شہر کا ایک تہائی حصہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد ہونیوالے علاقوں اور ناجائز تجاوزات پر مشتمل ہے، اسی لیے شہرمیں ذمے داریاں بھی بٹی ہوئی ہیں اور کسی ماسٹر پلان کی غیر موجودگی میں کے الیکٹرک اس قابل نہیں ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاری پلان پر سرگرمی سے عمل کر سکے۔ اسی کے ساتھ، بجلی چوری بھی ایک حقیقی چیلنج ہے جس کے ساتھ قانون اور امن و امان کے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔
یہ مسائل کے الیکٹرک کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اور ان کے لیے کے الیکٹرک کو دیگر شہری اداروں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ان آپریشنل چیلنجز کے ساتھ، مختلف سرکاری اداروں کے ذمے کے الیکٹرک کے قابل وصول واجبات 80 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں جو صرف اصل رقم کی بنیاد پر ہیں اور اِن کی عدم ادائیگی کے الیکٹرک کے مالی معاملات کو نقصان پہنچا رہی ہے ، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔
اسی طرح ریگولیٹری اور سرکاری منظوریوں میں تاخیر بھی سرمایہ کاری کے حوالے سے کے الیکٹرک کی ٹائم لائنز اور بجلی کی قابل بھروسہ فراہمی تک شہریوں کی رسائی کو متاثر کرتی ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا تعاون ، مضبوط گورننس، مسلسل قانونی، ریگولیٹری فریم ورکس اور واضح سرمایہ کاری روڈ میپس کی ضرورت ہے جس میں اس شعبے کے مالی استحکام کو تحفظ دیا گیا ہو۔کنٹریکٹ میں دیے گئے عرصے سے قبل وقتی فیصلہ سازی ، ریگولیشن اور پالیسیوں میں تبدیلیاں، یوٹیلیٹی کمپنیوں کے مالی استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، اُن کی سرمایہ کاری کو متاثر کر سکتی ہیں اور انھیں اپنے صارفین کو خدمات کی فراہمی سے محروم کر سکتی ہیں۔
آج کا پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.3 کھرب روپے سے بڑھ چکا ہے جو ملکی معیشت کے لیے تباہی کا باعث ہے اور جسے صارفین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں کراچی کا حصہ 20 فیصد ہے ،جو ملک کی اقتصادی ترقی کو سہارا دیے ہوئے ہے۔ آج ، اس بات کی ضرورت ہے کہ،آیندہ دہائی کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ کاری اور توسیعی منصوبے تیار کیے جائیں۔
(مصنف ،اس وقت کے الیکٹرک میں بطور چیف فنانشل آفیسرخدمات سرانجام دے رہے ہیں۔)