سیف خالد رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل

یہ صرف اس کی ہارکا قصہ ہے جو اپنے اشعار سنانے کے لیے کھڑا ہوتا تو ہزاروں کا مجمع جھوم جھوم کر اسے داد دیتا۔


Zahida Hina February 07, 2021
[email protected]

گزرے ہوئے زمانے سب ہی کو یاد آتے ہیں۔ نواز بٹ نے جس دل داری سے سیف خالدکو یاد کیا، اس نے سیف کے کئی دوستوں کو بے قرارکردیا ہے، ان ہی میں ایک صالحہ اطہر ہیں۔ پاکستان میں بائیں بازوکے لوگوں کوجس طرح کھدیڑا گیا، ان کے خواب جس طرح بکھرے، اس نے کئی سرگرم لوگوں کو مجبورکیا کہ وہ باہر چلے جائیں اور آزاد فضا میں سانس لیں۔

آنکھیں موندکرگزشتگاں کو یاد کریں اور جو رہ گئے ہیں، ان سے ناتا جوڑیں۔ صالحہ اطہرکو نواز بٹ کی یاد آئی۔ صالحہ اطہرکے ساتھ ہی میں نے سری لنکا کا ایک یادگار سفرکیا ہے۔ ہم عورتوں کی ایک علاقائی کانفرنس میں گئے تھے اور بہت دلچسپ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وہیں یہ بات ہم پر آشکار ہوئی تھی کہ راون جو ہمارے لیے ولن ہے، وہ سری لنکا والوں کے لیے ہیرو تھا۔ کولمبوکی کچھ مسلمان خواتین سے بھی وہاں روبرو ہوئے تھے۔

بات سیف خالد کی اور ان کی جدوجہد کی ہورہی تھی۔ 60 اور 70 کی دہائی میں آمریت کے باوجود ایک جوش اور ولولہ تھا۔ بائیں بازوکے رہنما نیشنل عوامی پارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہورہے تھے ۔ اس اکٹھ میں بلوچستان کے دو قومی رہنما سردار عطا اللہ مینگل اور سردار اکبر خان بگٹی بھی شامل تھے۔

1970 کے یہی وہ دن تھے جب 24 فروری 1970 کو ملک کے ایک سو تیرہ مذہبی رہنمائوں اور مستند علمائے دین نے ایک فتویٰ شائع کیا۔ جس میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ موجودہ نازک وقت میں ملک کے لیے سوشل ازم سے بڑا خطرہ کوئی نہیں ہے۔ اس لیے ہر مسلمان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اس لعنت کے خلاف جہادکرے۔

یہ وہ دن تھے جب سیف خالد کا زیادہ دن لاہور میں گزرتا تھا۔ وہ نام نہاد مذہبی رہنمائوں کے اس بیان سے بہت ناخوش تھے لیکن جب ان کے ہاتھ میں ''لیل ونہار'' کا ''فتویٰ نمبر'' آیا تو وہ بے حد خوش ہوئے۔ تاریخی تناظر میں اتنے پرمغز اور مدلل مضامین سے آراستہ ایک دستاویز فیض صاحب اور سبط حسن جیسے دانشور اور محقق ہی مرتب کرسکتے تھے۔ یہ فتویٰ نمبر اس وقت ہر ترقی پسند اپنے پاس رکھنا فخرسمجھتا تھا۔

یہ نمبر نایاب ہوگیا اور لوگوں کو اس کی فوٹو اسٹیٹ کرانا بھی مشکل ہوتا تھا، اب اس کا نیا ایڈیشن آگیا ہے۔احمد سلیم نے اس کتاب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ،کسان کانفرنس کا بہت تفصیل سے ذکرکیا ہے۔ ''لیل ونہار'' میں ا س کانفرنس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، یوں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ اہم واقعہ محفوظ ہوگیا۔ فیض صاحب نے اس کانفرنس پر ایک بھرپور اداریہ لکھا جس کا آغاز یوں ہوتا ہے۔

'' مغربی پاکستان میں پہلی بارکسی مقام پرکسانوں کا اتنا عظیم اجتماع ہوا۔ پہلی بار اتنے بڑے اجتماع کی تنظیم، ترتیب اور میزبانی کسی متمول سیاسی جماعت کے بجائے مقامی کسان کارکنوں اور ان کے ہمدردوں نے کی۔ پہلی بار مقامی کسانوں نے اس مقصد کے لیے ہزاروں کی تعداد میں رضاکاروں کی جماعت منظم کی۔'' یہ تفصیلی تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

سیف خالد کے اس زندگی نامے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس زمانے کی تمام تحریکیں اپنی جزیات کے ساتھ اس میں جمع کردی گئی ہیں، ہمیں اس میں صحافیوں کی ہڑتال، سکرنڈ ہاری کانفرنس کی تفصیلات ملتی ہیں۔اس میں کئی ایسے دوستوں کے نام ملتے ہیں جن میں سے کچھ رخصت ہوئے اورکچھ اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے گوشہ گیر ہوئے۔ جانے والوں میں جام ساقی، احمد الطاف اور حسن حمیدی بطور خاص یاد آتے ہیں۔ صالحہ اطہرکینیڈا چلی گئیں۔

ندیم اختر نے کنج تنہائی کو آباد کیا، کمال وارثی بھی شاید کینیڈا میں آباد ہوئے۔ ان ہی کی طرح وہ بے شمار لوگ جنھیں اپنے سماج سدھار نے اور سنوارنے کا شوق تھا، وہ دنیا میں بکھرگئے اور ہم ان کی ذہانت اور دیانت سے محروم ہوئے۔

یہ کتاب ملک کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا خزینہ ہے۔ اس میں ترقی پسند سیاسی کارکنوں، ادیبوں اور شاعروں کے ناموں کا ایک سیلاب ہے جو ہمیں بہاتا چلا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ذاتی کامیابیوں کی بجائے پاکستان کی ترقی کے خواب دیکھے تھے لیکن وہ سب حاشیوں پر دھکیل دیے گئے۔ یوں تو اس کی تمام تفصیلات ایسی ہیں کہ یہاں لکھی جائیں لیکن یہ ممکن نہیں صرف جالب صاحب کی انتخابی شکست کا قصہ لکھتی ہوں کہ وہ سب کے لیے سامان عبرت ہے۔

جالب نے نیپ کے انتخابی جلسوں میں پنجاب بھر میں تقریریں کیں۔ مجھے راولپنڈی میں جالب کا ایک جلسہ یاد ہے۔ اس جلسے میں جالب کی تقریر ان کی شاعری پر بھاری پڑگئی۔ انھوں نے ظلم، استحصال اور آمریت کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی کی طویل جدوجہد کا ذکرکرتے ہوئے لوگوں کو یاد دلایا کہ اس جنگ میں کون کس کے ساتھ تھا۔ کس نے مزدوروں ، کسانوں، غریبوں اورکچلے ہوئے عوام کی حمایت کے جرم میں زخم کھائے، لیکن مسلک کو نہیں چھوڑا۔ وہ کون سی پارٹی تھی جس نے استبدادی نظام کے خلاف تحریک کی آبیاری اپنے خون سے کی۔

انھوں نے کہا کہ اس تحریک کا پہلا شہید حسن ناصر تھا جو نیشنل عوامی پارٹی کا لیڈر تھا وہی حسن ناصر اس قدر خوفناک اذیتیں دے کر شہید کیا گیا کہ اس کی ماں بھی اپنے لخت جگرکی لاش کو نہ پہچان سکی۔ جالب نے لوگوں کو یادلایا کہ اس وقت میں نے کہا تھا۔

سیکڑوں حسن ناصر ہیں شکار نفرت کے

صبح و شام لٹتے ہیں قافلے محبت کے

دوستوں کو پہچانو، دشمنوں کو پہچانو

دس کروڑ انسانوں، زندگی سے بے گانو

جالب نے لوگوں کو یاد لایا کہ کندن لال بھی نیشنل عوامی پارٹی ہی کا ممبر ہے، جسے لاہور میں مزدوروں کی حمایت اور ملزانتظامیہ کی دھاندلیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں کوڑوں اور قید کی سزا دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ یہ نیشنل عوامی پارٹی ہی تھی، جس نے سب سے پہلے آزاد خارجہ پالیسی کے حق میں آواز بلندکی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکا کی محتاجی سے نجات حاصل کرے۔

1970 کے الیکشن میں نیپ نے لاہور سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ حبیب جالب کو دیا۔ ان کے مقابل پیپلز پارٹی تھی، جوکہ ایک بڑی جماعت تھی، حبیب جالب گڑھی شاہوکے علاقے سے الیکشن کے لیے کھڑے ہوئے اوریہ حلقہ مزدوروں اور غریب لوگوں کا علاقہ تھا، برادری سسٹم بھی تھا، بھٹو کی مقبولیت بھی تھی۔ جھونپڑی نیپ کا نشان تھا، جالب سارا سارا دن کارنر میٹنگز کرتے رہتے تھے۔ صبح کو نکلتے شام کو واپس آتے۔ جالب کے جلسے بڑے بھرپور ہوا کرتے تھے، لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے۔ اب جالب کا مقابلہ نیپ سے گئے ہوئے لوگوں شیخ رفیق احمد، میاں محمود علی قصوری اور رئوف طاہر جیسے لوگوں سے تھا۔

جالب کو ساڑھے سات سو ووٹ ملے تھے، جالب کے لیے وہ ساڑھے سات سو آدمی بہت عظیم ہیں۔ ان میں احمد ندیم قاسمی اورمحمد طفیل ''نقوش'' کے جو مدیر تھے، ان کے ووٹ بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ اسی علاقے میں رہتے تھے۔ میں نے کئی بار چاہا کہ گڑھی شاہو کے ان ساڑھے سات سو آدمیوں کو چائے پر بلائوں مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ میں ان کا بے حد شکرگزار ہوں کہ بھٹو کے طوفان میں ان ساڑھے سات سو آدمیوں نے مجھے ووٹ دیا اور میرا سر فخر سے اونچاکیا۔

یہ صرف اس کی ہارکا قصہ ہے جو اپنے اشعار سنانے کے لیے کھڑا ہوتا تو ہزاروں کا مجمع جھوم جھوم کر اسے داد دیتا لیکن ووٹ اسے صرف ساڑھے سات سو ملے۔ ایک ایسے ماحول میں سیف خالد پر فالج نہ گرتا تو کیا۔ وہ اپنی اس بیماری سے بھی مردانہ وار لڑے اور آخری سانس تک لڑتے رہے۔ ان کے گھر والوں نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا۔ اب ندیم خالد نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ اپنے انقلابی باپ اور اس کے ساتھیوں کے خواب تحریری شکل میں اکٹھے کردیے ہیں۔ حوری نے بہت محبت سے احمد سلیم کی لکھی ہوئی یہ کتاب سلیقے سے شائع کی ہے۔ وہ خوش رہیں کہ انھوں نے ترقی پسندی کی روایت کو آگے بڑھایا۔

(دوسرا اور آخری حصہ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں