میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج میں تیزی آگئی

انٹرنیٹ کی بندش اور سخت سیکیورٹی اقدامات کے باوجود مظاہرین کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی


February 07, 2021
پولیس نے مظاہرین کو نتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، فوٹو: رائٹرز

میانمار میں انٹرنیٹ کی بندش اور ریاستی رکاوٹوں کے باوجود فوجی بغاوت کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کو روکنے کے لیے ملک بھر میں پہلے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو بند کیا گیا اور اس کے بعد اب انٹرنیٹ پر ہی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے جب کہ رنگون میں سیکیورٹی فورسز کی زائد نفری تعینات کردی گئی ہے۔

Mayanmar protest over coup 2

ملک کے اقتدار پر قابض فوج کی جانب کھڑی گئی رکاوٹوں کے باوجود تجارتی حب رنگون میں عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئے اور آنگ سان سوچی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے فوجی بغاوت کے خلاف نعرے بازی کی۔

یہ خبر پڑھیں : میانمار میں فوجی بغاوت کیخلاف ریلیاں، 70 اسپتالوں میں ہڑتال

Mayanmar protest over coup 1

مظاہرین نے جمہوریت کی حمایت میں علامتی طور سرخ غبارے اُٹھا رکھے تھے جب کہ زیر حراست معزول حکمراں آنگ سان سوچی کی تصاویر بھی تھامے ہوئے تھے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

Mayanmar protest over coup 3

قبل ازٰیں ملک بھر کے 70 سے زائد اسپتالوں کے طبے عملے نے فوجی آمریت کے خلاف ہڑتال جاری رکھی۔ ڈاکٹرز اور طبی عملے کا مطالبہ تھا کہ فوج اپنے ناجائز اقدام کی حمایت حاصل کرنے کے بجائے ہم سے مریضوں کی صحت یابی کی خدمات لیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں : میانمارمیں فوج نےاقتدار پرقبضہ کرکے ایمرجنسی نافذ کردی، آنگ سان سوچی گرفتار

Mayanmar protest over coup

واضح رہے کہ یکم فروری کو میانمار میں فوج نے بغاوت کرتے ہوئے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرکے ایمرجنسی نافذ کردی اور ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی کو گرفتار کرلیا تھا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔