گرمی سے بجلی بنانے والے ننھے جنریٹر چھاپنا بہت آسان
انتہائی آسان اور سستے جنریٹر ڈھیروں کے حساب سے چھاپ کر ان سے چھوٹے آلات چلائے جاسکتے ہیں
اگر کسی جگہ کوئی بوائلریا تندور لگا ہے تو اس کے پاس ننھے برق حرارتی (تھرموالیکٹرک) جنریٹرلگا کر کم از کم سینسر اور چھوٹے آلات کو چلانا ممکن ہے۔
جرمنی میں کارلسروہے انسٹی ٹیوٹ نے مائیکروتھرمل جنریٹر چھاپنے میں اہم کامیابی کا اعلان کیا ہے۔ یہ فالتوگرمی سے بجلی بناتے ہیں، ماحول دوست ہیں اور بہت کم خرچ بھی ہیں۔ ان کی بدولت چھوٹے سینسر، میٹر اور دیگر آلات کو مسلسل بجلی دی جاسکتی ہے خواہ وہ گھر میں ہو یا پھر انٹرنیٹ آف تھنگس (آئی او ٹی) کا حصہ بن کر ایک بڑے نیٹ ورک کو ہی کیوں نہ بناتے ہوں۔
کارلسروہے میں نئے جنریٹر سازی کے لیے کئی ٹیکنالوجی کو نئے سرے سے وضع کیا گیا ہے جس کے لیے ایک نیا آرکیٹیکچر بنایا گیا ہے۔ تھرمو الیکٹرک جنریٹرزکو (ٹی ای جی) بھی کہا جاتا ہے۔ اور نئے جنریٹر بہت کم خرچ ہیں اور ان کی بڑی تعداد کو تیزی سے چھاپ کر تیار کیا جاسکتا ہے۔
ٹی ای جی براہِ راست حرارت کو بجلی میں بدلتے ہیں۔ ان کی بدولت پہنے جانے والے برقی آلات (مثلاً گھڑی وغیرہ) اور آئی او ٹی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بالفرض کسی گرم تالاب کو ماہرین مسلسل نوٹ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں یہ سینسر اس کی حرارت سے مستقل طور پر بجلی بناکر ڈیٹا بھیجتے رہیں گے۔
دوسری جانب صنعتوں اور ہیٹنگ کے نظام سے خارج ہونے والی فالتو حرارت سے بجلی بنانے میں بھی ان کا اہم کردارسامنے آیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی سے قبل روایتی انداز میں چھوٹے ٹی ای جی بنانا ایک پیچیدہ اور مشکل کام تھا۔ اس میں ایک ایک پرزے کو جوڑ کر کوئی سرکٹ بنایا جاتا تھا لیکن تھری ڈی ٹیکنالوجی کی بدولت نئے تھرمل جنریٹر کو ایک ہی جست میں چھاپا اور تیار کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے نامیاتی اور غیرنامیاتی نینوذرات پر منبی سیاہی نما کیمیکل پر غور کیا گیا ہے۔ کئی آزمائش کے بعد ان سے ایک ہی جست میں پورا سرکٹ چھاپہ گیا ہے ۔ اس تحقیق کے بعد سہ ابعادی ٹی ای جی بنائے گئے ہیں۔
ایک جنریٹر شکر کے دانے جتنا ہے جسے اوریگامی (کاغذ تہہ کرنے کے تکنیک) کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس میں سہ جہتی سانچہ بنا کر اس پر روشنائی ڈالی گئی ہے۔ اس طرح جدید تھرمل الیکٹرک جنریٹرکی بڑی تعداد کو بہت تیزی سے چھاپا جاسکتا ہے۔
جرمنی میں کارلسروہے انسٹی ٹیوٹ نے مائیکروتھرمل جنریٹر چھاپنے میں اہم کامیابی کا اعلان کیا ہے۔ یہ فالتوگرمی سے بجلی بناتے ہیں، ماحول دوست ہیں اور بہت کم خرچ بھی ہیں۔ ان کی بدولت چھوٹے سینسر، میٹر اور دیگر آلات کو مسلسل بجلی دی جاسکتی ہے خواہ وہ گھر میں ہو یا پھر انٹرنیٹ آف تھنگس (آئی او ٹی) کا حصہ بن کر ایک بڑے نیٹ ورک کو ہی کیوں نہ بناتے ہوں۔
کارلسروہے میں نئے جنریٹر سازی کے لیے کئی ٹیکنالوجی کو نئے سرے سے وضع کیا گیا ہے جس کے لیے ایک نیا آرکیٹیکچر بنایا گیا ہے۔ تھرمو الیکٹرک جنریٹرزکو (ٹی ای جی) بھی کہا جاتا ہے۔ اور نئے جنریٹر بہت کم خرچ ہیں اور ان کی بڑی تعداد کو تیزی سے چھاپ کر تیار کیا جاسکتا ہے۔
ٹی ای جی براہِ راست حرارت کو بجلی میں بدلتے ہیں۔ ان کی بدولت پہنے جانے والے برقی آلات (مثلاً گھڑی وغیرہ) اور آئی او ٹی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بالفرض کسی گرم تالاب کو ماہرین مسلسل نوٹ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں یہ سینسر اس کی حرارت سے مستقل طور پر بجلی بناکر ڈیٹا بھیجتے رہیں گے۔
دوسری جانب صنعتوں اور ہیٹنگ کے نظام سے خارج ہونے والی فالتو حرارت سے بجلی بنانے میں بھی ان کا اہم کردارسامنے آیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی سے قبل روایتی انداز میں چھوٹے ٹی ای جی بنانا ایک پیچیدہ اور مشکل کام تھا۔ اس میں ایک ایک پرزے کو جوڑ کر کوئی سرکٹ بنایا جاتا تھا لیکن تھری ڈی ٹیکنالوجی کی بدولت نئے تھرمل جنریٹر کو ایک ہی جست میں چھاپا اور تیار کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے نامیاتی اور غیرنامیاتی نینوذرات پر منبی سیاہی نما کیمیکل پر غور کیا گیا ہے۔ کئی آزمائش کے بعد ان سے ایک ہی جست میں پورا سرکٹ چھاپہ گیا ہے ۔ اس تحقیق کے بعد سہ ابعادی ٹی ای جی بنائے گئے ہیں۔
ایک جنریٹر شکر کے دانے جتنا ہے جسے اوریگامی (کاغذ تہہ کرنے کے تکنیک) کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس میں سہ جہتی سانچہ بنا کر اس پر روشنائی ڈالی گئی ہے۔ اس طرح جدید تھرمل الیکٹرک جنریٹرکی بڑی تعداد کو بہت تیزی سے چھاپا جاسکتا ہے۔