غیرجانبدار میڈیا کی اہمیت وافادیت
اب بے شمار نیوز چینلز ہیں اور ہر چینل اپنی اپنی پالیسی کے تحت نشریات چلا رہا ہے
1977 میں عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف نو جماعتوں کا اتحاد پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہا تھا تو اس وقت ملک میں عوام کو خبریں فراہم کرنے والے ادارے عوام کو حقائق کے برعکس حکومت کی حمایت اور اپوزیشن کی مخالفت میں خبریں سنایا کرتے تھے۔
خبروں میں ایسی فوٹیج دکھائی جاتی تھیں، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہوا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے عوام سرکاری خبروں پر بالکل یقین نہیں کرتے تھے اور برطانوی ریڈیو بی بی سی کی خبروں پر اعتماد کرتے تھے جس کی خبروں کے وقت رات آٹھ بجے خبریں سننے والوں کا ہجوم ہوتا تھا اور اس کا پروگرام سیربین بڑے پیمانے پر سنا جاتا تھا۔ وائس آف امریکا اور ریڈیو تہران کی خبروں پر یقین کیا جاتا تھا۔ بی بی سی کے نمایندے مارک ٹیلی ملک کے بڑے شہروں میں جا کر عوام کو ملک کی حقیقی صورتحال سے آگاہ کرتے تھے اور عوام میں بہت مقبول ہوگئے تھے۔ بی بی سی کی درست خبریں بھٹو حکومت رکوا تو نہیں سکتی تھی، اس لیے بی بی سی کے نمایندوں کو پریشان کیا کرتی تھی۔
ملک میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جب پی ڈی ایم نے احتجاجی تحریک شروع کی تو ایک وزیر نے سچی بات کہی تھی کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام، جلسوں کو جلسی اور اپوزیشن اپنے جلسوں کو ہمیشہ کامیاب قرار ہی دیا کرتی ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اب بے شمار نیوز چینلز ہیں اور ہر چینل اپنی اپنی پالیسی کے تحت نشریات چلا رہا ہے۔ بعض چینل اپوزیشن کی خبروں کو اور بعض حکومت کی خبروں کو ترجیح دیتے ہیں بعض دونوں کی متوازن خبریں دیتے ہیں۔ حکومت کے حامی چینل اپوزیشن کے جلسوں کی منفی کوریج کرتے ہیں اور حکومت مخالف جلسوں کی اپنی مرضی کی فوٹیج دکھا کر حکومت کو خوش رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بعض چینلوں نے حکومت مخالف اور حمایتی تجزیہ کاروں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو بعض دفعہ حکومتی خوشامد اور اپوزیشن کی شدید مخالفت میں انتہا پر چلے جاتے اور عوام پر ان کی جانبداری ظاہر ہو جاتی ہے اور عوام بھی اپنی پسند کے لوگوں کو سننا چاہتے ہیں اور درست اور غلط ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں جب کہ سوشل میڈیا پر بھی بعض سیاسی تجزیہ کار اپنی اپنی پسند کے انتہا پسندانہ اور جانبدارانہ تجزیے پیش کرتے ہیں اور لوگ بھی اپنی پسند کے تجزیہ کاروں کو پسند کرتے اور انھیں ہی سنتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اقتدار ملنے سے قبل اپنے حامی ٹی وی چینلزکو پسند اور مخالف کو ناپسند کرتے تھے اور میڈیا کی آزادی کے حامی تھے مگر حکومت میں آتے ہی ان کی سخت پالیسیوں کے باعث غیر جانبدار میڈیا بہت زیادہ متاثر ہوا۔ تبدیلی حکومت میں بعض چینل بند اخبارات کی بڑی تعداد شدید متاثرہوئی اور ایک تعداد میں صحافی بے روزگارکیے جاچکے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ضرور ہوا مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی میڈیا پر ایسا برا وقت کبھی نہیں آیا تھا جتنا برا وقت موجودہ حکومت میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔
بعض اخبارات اور چینل نے اپنی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ پالیسی کو برقرار رکھا ہے اور پی ڈی ایم کی تحریک میں اپنی متوازن خبروں اور تجزیوں سے اپنے ناظرین اور قارئین کے اعتماد کو نہ صرف برقرار رکھا اور پڑھنے ، سننے اور دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور پارٹی نہیں بنے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وفاق کے علاوہ پنجاب اور کے پی میں حکومت اپنے درجنوں ترجمانوں کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتی اور آئے دن حکومتی ترجمانوں کے اجلاس میں انھیں ہدایات دی جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کے احتجاج پر حکومتی وزرا اور معاونین کے بیانات سن کر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان میں سچ کون بول رہا ہے۔ سرکاری ترجمانوں کے سچ اور جھوٹ کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ کہتے ہیں احتجاج میں 3 ہزار بندے تھے۔
وزیر سائنس کو ہزار بارہ سو نظر آئے اور حکومتی رکن قومی اسمبلی نے یہ تعداد گیارہ سو قرار دی اور حقیقی تعداد کیا تھی وہ میڈیا نے قوم کو دکھا دیا کہ قوم خود فیصلہ کرلے کہ سرکاری طور پر بتائی گئی تعداد اور اصل میں کیا فرق ہے۔
موجودہ حکومت اس سلسلے میں ماضی سے جتنی آگے نکل گئی ہے اور جس طرح غلط بیانی کی جا رہی ہے اس سے حکومت پر نہ صرف عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے بلکہ اس سے اچھی توقعات رکھنے والے بھی مایوس ہو رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی غلط بیانی کی پالیسی کیوں اپنائی ہوئی ہے۔ حکومتوں سے عوام کا اعتماد ان کی غلط بیانیوں کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے اور اب تو انتہا ہوگئی ہے اس لیے حکومت کو اس طرف توجہ دے کر ماضی کی حکومتوں جیسی غلط بیانی سے گریز کرنا چاہیے تاکہ انھیں تو فرق نظر آئے۔
خبروں میں ایسی فوٹیج دکھائی جاتی تھیں، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہوا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے عوام سرکاری خبروں پر بالکل یقین نہیں کرتے تھے اور برطانوی ریڈیو بی بی سی کی خبروں پر اعتماد کرتے تھے جس کی خبروں کے وقت رات آٹھ بجے خبریں سننے والوں کا ہجوم ہوتا تھا اور اس کا پروگرام سیربین بڑے پیمانے پر سنا جاتا تھا۔ وائس آف امریکا اور ریڈیو تہران کی خبروں پر یقین کیا جاتا تھا۔ بی بی سی کے نمایندے مارک ٹیلی ملک کے بڑے شہروں میں جا کر عوام کو ملک کی حقیقی صورتحال سے آگاہ کرتے تھے اور عوام میں بہت مقبول ہوگئے تھے۔ بی بی سی کی درست خبریں بھٹو حکومت رکوا تو نہیں سکتی تھی، اس لیے بی بی سی کے نمایندوں کو پریشان کیا کرتی تھی۔
ملک میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جب پی ڈی ایم نے احتجاجی تحریک شروع کی تو ایک وزیر نے سچی بات کہی تھی کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام، جلسوں کو جلسی اور اپوزیشن اپنے جلسوں کو ہمیشہ کامیاب قرار ہی دیا کرتی ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اب بے شمار نیوز چینلز ہیں اور ہر چینل اپنی اپنی پالیسی کے تحت نشریات چلا رہا ہے۔ بعض چینل اپوزیشن کی خبروں کو اور بعض حکومت کی خبروں کو ترجیح دیتے ہیں بعض دونوں کی متوازن خبریں دیتے ہیں۔ حکومت کے حامی چینل اپوزیشن کے جلسوں کی منفی کوریج کرتے ہیں اور حکومت مخالف جلسوں کی اپنی مرضی کی فوٹیج دکھا کر حکومت کو خوش رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بعض چینلوں نے حکومت مخالف اور حمایتی تجزیہ کاروں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو بعض دفعہ حکومتی خوشامد اور اپوزیشن کی شدید مخالفت میں انتہا پر چلے جاتے اور عوام پر ان کی جانبداری ظاہر ہو جاتی ہے اور عوام بھی اپنی پسند کے لوگوں کو سننا چاہتے ہیں اور درست اور غلط ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں جب کہ سوشل میڈیا پر بھی بعض سیاسی تجزیہ کار اپنی اپنی پسند کے انتہا پسندانہ اور جانبدارانہ تجزیے پیش کرتے ہیں اور لوگ بھی اپنی پسند کے تجزیہ کاروں کو پسند کرتے اور انھیں ہی سنتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اقتدار ملنے سے قبل اپنے حامی ٹی وی چینلزکو پسند اور مخالف کو ناپسند کرتے تھے اور میڈیا کی آزادی کے حامی تھے مگر حکومت میں آتے ہی ان کی سخت پالیسیوں کے باعث غیر جانبدار میڈیا بہت زیادہ متاثر ہوا۔ تبدیلی حکومت میں بعض چینل بند اخبارات کی بڑی تعداد شدید متاثرہوئی اور ایک تعداد میں صحافی بے روزگارکیے جاچکے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ضرور ہوا مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی میڈیا پر ایسا برا وقت کبھی نہیں آیا تھا جتنا برا وقت موجودہ حکومت میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔
بعض اخبارات اور چینل نے اپنی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ پالیسی کو برقرار رکھا ہے اور پی ڈی ایم کی تحریک میں اپنی متوازن خبروں اور تجزیوں سے اپنے ناظرین اور قارئین کے اعتماد کو نہ صرف برقرار رکھا اور پڑھنے ، سننے اور دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور پارٹی نہیں بنے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وفاق کے علاوہ پنجاب اور کے پی میں حکومت اپنے درجنوں ترجمانوں کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتی اور آئے دن حکومتی ترجمانوں کے اجلاس میں انھیں ہدایات دی جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کے احتجاج پر حکومتی وزرا اور معاونین کے بیانات سن کر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان میں سچ کون بول رہا ہے۔ سرکاری ترجمانوں کے سچ اور جھوٹ کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ کہتے ہیں احتجاج میں 3 ہزار بندے تھے۔
وزیر سائنس کو ہزار بارہ سو نظر آئے اور حکومتی رکن قومی اسمبلی نے یہ تعداد گیارہ سو قرار دی اور حقیقی تعداد کیا تھی وہ میڈیا نے قوم کو دکھا دیا کہ قوم خود فیصلہ کرلے کہ سرکاری طور پر بتائی گئی تعداد اور اصل میں کیا فرق ہے۔
موجودہ حکومت اس سلسلے میں ماضی سے جتنی آگے نکل گئی ہے اور جس طرح غلط بیانی کی جا رہی ہے اس سے حکومت پر نہ صرف عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے بلکہ اس سے اچھی توقعات رکھنے والے بھی مایوس ہو رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی غلط بیانی کی پالیسی کیوں اپنائی ہوئی ہے۔ حکومتوں سے عوام کا اعتماد ان کی غلط بیانیوں کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے اور اب تو انتہا ہوگئی ہے اس لیے حکومت کو اس طرف توجہ دے کر ماضی کی حکومتوں جیسی غلط بیانی سے گریز کرنا چاہیے تاکہ انھیں تو فرق نظر آئے۔