وفاقی حکومت کا دینی مدارس کے بورڈز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ
دینی مدارس کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی وفاق المدارس (بورڈ) کے ساتھ الحاق کرسکیں گے
وفاقی حکومت نے دینی مدارس کے نظام کو مزیدبہتراورموثربنانے کے لئے مختلف مکتبہ فکرکے دینی مدارس کے نمائندہ وفاق المدارس (بورڈ) کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیاہے، حکومت کے اس اقدام کو جہاں مختلف دینی مدارس کی طرف سے سراہا جارہاہے وہیں پہلے سے موجود وفاق المدارس کی طرف سے مخالفت بھی سامنے آئی ہے.
پاکستان میں اس وقت دینی مدارس کے نمائندہ پانچ وفاق المدارس ہیں جن میں وفاق المدارس العربیہ دیوبندی مکتبہ فکر، تنظیم المدارس اہل سنت، وفاق المدارس الشیعہ، وفاق المدارس سلفیہ اورتنظیم رابطۃ المدارس (جماعت اسلامی) شامل ہیں، وفاق المدارس دینی مدارس کے لئے ایک بورڈ کادرجہ رکھتے ہیں جو طلباوطالبات کو سند جاری کرتے ہیں ان کے علاوہ منہاج القرآن، جامعہ اشرفیہ، جامعہ محمدیہ غوثیہ اور دارالعلوم جامعہ بنوریہ کراچی کے پاس بھی سند جاری کرنے کا اختیارہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے وفاق المدارس کی تعدادبڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دینی مدارس کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی وفاق المدارس (بورڈ) کے ساتھ الحاق کرسکیں گے۔ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے زیرانتطام مدارس کے الگ سے بورڈ بنانے کی منظوری دی جائے گی۔ اسی طرح منہاج القرآن،دعوت اسلامی، جامعہ محمدیہ غوثیہ، جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ اکوڑہ خٹک ،جامعہ بنوریہ، جامعہ عروۃ الوثقی،جامعہ رضویہ فیصل آباد سمیت دیگر دینی جامعات کو وفاق کا درجہ دے کرانہیں اجازت دی جائیگی کہ ملک بھرسے دینی مدارس ان کے ساتھ الحاق کرسکیں گے۔
جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم ڈاکٹرراغب حسین نعیمی کہتے ہیں ضرورت کے تحت وفاق المدارس کی تعداد بڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جس طرح روایتی تعلیمی بورڈز میں اضافہ ہوتا رہاہے، مختلف نجی یونیورسٹیز ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ الحاق کرکے اپنی سند جاری کرتی اور ملک بھرمیں اپنے کیمپس بناسکتی ہیں، اسی طرح دینی جامعات کو وفاقی بورڈ کا درجہ ملنے سے وہ بھی دیگر مدارس کا الحاق کرسکیں گے تاہم وفاق المدارس کی تعداد بڑھانے کے فائدے اورنقصانات پر تفصیلی مشاورت کی ضرورت ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی رہنماء پیر سید محمد محفوظ مشہدی نے نئے وفاق المدارس یا مدرسہ بورڈز کی تشکیل کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ انقلابی اقدام سے بلیک میلنگ ختم ہوگی، تعلیمی، انتظامی اور امتحانی امور کا بوجھ کم ہوگا، بڑی دیر سے مختلف وفاق المدارس پر چند شخصیات کی قائم اجارہ داری بھی ختم ہوگی، یہ فیصلہ مدارس دینیہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بھی اچھا ہے۔ ارتکاز اختیارات اور گروہ بندی کا بھی خاتمہ ہوگا۔
دوسری طرف اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے قائدین سینیٹرساجد میر، مفتی منیب الرحمان، قاری محمد حنیف جالندھری سمیت دیگر نے حکومت کی طرف سے وفاق المدارس کی تعداد بڑھانے اورخاص طورپر املاک ایکٹ کے خلاف شدید ردعمل کا اظہارکیا ہے۔ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے قائدین نے وقف املاک ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے، اتحادتنظیمات مدارس دینیہ کا موقف ہے کہ وقف کرنے والے شخص کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجائے رجسٹریشن کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں، مدارس و مساجد کوغیر ملکی قوتوں کی ایما پر کسی قسم کی دہشت گردی، منی لانڈرنگ سے جوڑنا اور ان کی کردار کشی کرنا صرف تاریخی بددیانتی ہی نہیں بلکہ بدترین اخلاقی جرم بھی ہے۔ پاکستان میں مذہبی پابندیاں قبول نہیں ایسی کوششوں کی مزاحمت کریں گے ،حکمران ریاست کو بالادستی کا نام دے کر دینی مدارس کو تباہ کرنا چاہ رہے ہیں۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر تنویرقاسم کا کہنا ہے کہ دینی مدارس ہوں یا روایتی اسکول ، تعلیمی نظام ریاست کی پالیسی کے مطابق اوراس کے ماتحت ہی ہونا چاہیے تاہم اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دینی مدارس کے تحفظات کو دور کیا جائے۔ دینی مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے اور اصلاحات سے یقینا یہ مدارس قومی دھارے میں شامل ہوں گے لیکن حکومت کو اسٹیک ہولڈرکے ساتھ ٹکراؤ کا ماحول بنانے کی بجائے مشاورت سے اصلاحات کرنی چاہئیں۔
پاکستان میں اس وقت دینی مدارس کے نمائندہ پانچ وفاق المدارس ہیں جن میں وفاق المدارس العربیہ دیوبندی مکتبہ فکر، تنظیم المدارس اہل سنت، وفاق المدارس الشیعہ، وفاق المدارس سلفیہ اورتنظیم رابطۃ المدارس (جماعت اسلامی) شامل ہیں، وفاق المدارس دینی مدارس کے لئے ایک بورڈ کادرجہ رکھتے ہیں جو طلباوطالبات کو سند جاری کرتے ہیں ان کے علاوہ منہاج القرآن، جامعہ اشرفیہ، جامعہ محمدیہ غوثیہ اور دارالعلوم جامعہ بنوریہ کراچی کے پاس بھی سند جاری کرنے کا اختیارہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے وفاق المدارس کی تعدادبڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دینی مدارس کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی وفاق المدارس (بورڈ) کے ساتھ الحاق کرسکیں گے۔ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے زیرانتطام مدارس کے الگ سے بورڈ بنانے کی منظوری دی جائے گی۔ اسی طرح منہاج القرآن،دعوت اسلامی، جامعہ محمدیہ غوثیہ، جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ اکوڑہ خٹک ،جامعہ بنوریہ، جامعہ عروۃ الوثقی،جامعہ رضویہ فیصل آباد سمیت دیگر دینی جامعات کو وفاق کا درجہ دے کرانہیں اجازت دی جائیگی کہ ملک بھرسے دینی مدارس ان کے ساتھ الحاق کرسکیں گے۔
جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم ڈاکٹرراغب حسین نعیمی کہتے ہیں ضرورت کے تحت وفاق المدارس کی تعداد بڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جس طرح روایتی تعلیمی بورڈز میں اضافہ ہوتا رہاہے، مختلف نجی یونیورسٹیز ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ الحاق کرکے اپنی سند جاری کرتی اور ملک بھرمیں اپنے کیمپس بناسکتی ہیں، اسی طرح دینی جامعات کو وفاقی بورڈ کا درجہ ملنے سے وہ بھی دیگر مدارس کا الحاق کرسکیں گے تاہم وفاق المدارس کی تعداد بڑھانے کے فائدے اورنقصانات پر تفصیلی مشاورت کی ضرورت ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی رہنماء پیر سید محمد محفوظ مشہدی نے نئے وفاق المدارس یا مدرسہ بورڈز کی تشکیل کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ انقلابی اقدام سے بلیک میلنگ ختم ہوگی، تعلیمی، انتظامی اور امتحانی امور کا بوجھ کم ہوگا، بڑی دیر سے مختلف وفاق المدارس پر چند شخصیات کی قائم اجارہ داری بھی ختم ہوگی، یہ فیصلہ مدارس دینیہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بھی اچھا ہے۔ ارتکاز اختیارات اور گروہ بندی کا بھی خاتمہ ہوگا۔
دوسری طرف اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے قائدین سینیٹرساجد میر، مفتی منیب الرحمان، قاری محمد حنیف جالندھری سمیت دیگر نے حکومت کی طرف سے وفاق المدارس کی تعداد بڑھانے اورخاص طورپر املاک ایکٹ کے خلاف شدید ردعمل کا اظہارکیا ہے۔ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے قائدین نے وقف املاک ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے، اتحادتنظیمات مدارس دینیہ کا موقف ہے کہ وقف کرنے والے شخص کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجائے رجسٹریشن کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں، مدارس و مساجد کوغیر ملکی قوتوں کی ایما پر کسی قسم کی دہشت گردی، منی لانڈرنگ سے جوڑنا اور ان کی کردار کشی کرنا صرف تاریخی بددیانتی ہی نہیں بلکہ بدترین اخلاقی جرم بھی ہے۔ پاکستان میں مذہبی پابندیاں قبول نہیں ایسی کوششوں کی مزاحمت کریں گے ،حکمران ریاست کو بالادستی کا نام دے کر دینی مدارس کو تباہ کرنا چاہ رہے ہیں۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر تنویرقاسم کا کہنا ہے کہ دینی مدارس ہوں یا روایتی اسکول ، تعلیمی نظام ریاست کی پالیسی کے مطابق اوراس کے ماتحت ہی ہونا چاہیے تاہم اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دینی مدارس کے تحفظات کو دور کیا جائے۔ دینی مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے اور اصلاحات سے یقینا یہ مدارس قومی دھارے میں شامل ہوں گے لیکن حکومت کو اسٹیک ہولڈرکے ساتھ ٹکراؤ کا ماحول بنانے کی بجائے مشاورت سے اصلاحات کرنی چاہئیں۔