سینیٹ انتخابات PTI اکثریت کے باوجود مکمل کنٹرول نہیں لے پائے گی
21 سیٹیں جیت کر تعداد 28 ہو گی، پی پی کا 19سیٹوں کے ساتھ دوسرا نمبر ہو سکتا ہے۔
سینیٹ انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف 28 نشستوں کے ساتھ سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرتی نظر آ رہی ہے تاہم 100 ارکان پر مشتمل ایوان بالا میں اکثریت کیلئے یہ کافی نہیں ہوگا اور حکمران جماعت کو بلوں کی منظوری میں سخت مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سینیٹ کے52 ارکان اپنی 6 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد 11 مارچ کو رٹائر ہو جائیں گے جس کے بعد 48 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ ایوان بالا میں اس وقت 104 ممبران ہیں تاہم فاٹا انضمام کے بعد ان کی مخصوص نشستوں پر4 سینیٹرز رٹائر ہو جائیں گے۔ 28 سیٹوں کے باوجود پی ٹی آئی کو سینیٹ کا مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوگا۔
توقع کی جارہی ہے کہ 19 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی دوسری بڑی پارٹی بنے گی جبکہ ن لیگ 17 سیٹیں حاصل کر سکے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دو مضبوط سیاسی مخالفین حکمران جماعت کا مقابلہ کریں گے۔ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی عددی قوت 13نشستوں تک پہنچ سکتی ہے۔
اس سے سینیٹ میں نمبرگیم برابر ہونے کا امکان ہے تاہم یہ مؤخر الذکر کو اپنا چیئرمین سینیٹ لانے سے روکیں گے اور تحریک انصاف کو سادہ قانون سازی کیلئے بھی اپنے حلیفوں اور حزب اختلاف کو راضی کرنا پڑے گا۔
پی ٹی آئی کے اس وقت14 سینیٹرز ہیں جن میں سے 7ریٹائر ہوجائیں گے، اسے خیبرپختونخوا سے 10، پنجاب سے6، سندھ اور اسلام آباد سے 2,2 اور بلوچستان سے ایک سیٹ ملنے کی امید ہے، یوں21سیٹوں پر اسکی کامیابی کا امکان ہے، پیپلزپارٹی کے8سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ اسے6 سیٹوں پر کامیابی کی امید ہے، پیپلزپارٹی کو تمام سیٹیں سندھ سے حاصل ہوں گی تاہم اس کی نشستیں21سے کم ہوکر19رہ جائیں گی اور وہ سینیٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بن جائیگی۔
سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ دھچکا ن لیگ کو پہنچے گا، اسکے29میں سے 17سینیٹرز جن کاتعلق پنجاب سے ہے، ریٹائر ہو رہے ہیں، اسے صرف پنجاب اسمبلی سے 5سیٹیں مل سکتی ہیں جس کے بعد اسکے ارکان کی تعداد17تک پہنچ سکتی ہے، یوں وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے اعزاز سے محروم ہو جائے گی۔ جے یو آئی کے بلوچستان اور کے پی کے سے دو سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں تاہم اسے آئندہ انتخابات میں کل 3نشستیں ملنے کا امکان ہے۔
سینیٹ کے52 ارکان اپنی 6 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد 11 مارچ کو رٹائر ہو جائیں گے جس کے بعد 48 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ ایوان بالا میں اس وقت 104 ممبران ہیں تاہم فاٹا انضمام کے بعد ان کی مخصوص نشستوں پر4 سینیٹرز رٹائر ہو جائیں گے۔ 28 سیٹوں کے باوجود پی ٹی آئی کو سینیٹ کا مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوگا۔
توقع کی جارہی ہے کہ 19 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی دوسری بڑی پارٹی بنے گی جبکہ ن لیگ 17 سیٹیں حاصل کر سکے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دو مضبوط سیاسی مخالفین حکمران جماعت کا مقابلہ کریں گے۔ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی عددی قوت 13نشستوں تک پہنچ سکتی ہے۔
اس سے سینیٹ میں نمبرگیم برابر ہونے کا امکان ہے تاہم یہ مؤخر الذکر کو اپنا چیئرمین سینیٹ لانے سے روکیں گے اور تحریک انصاف کو سادہ قانون سازی کیلئے بھی اپنے حلیفوں اور حزب اختلاف کو راضی کرنا پڑے گا۔
پی ٹی آئی کے اس وقت14 سینیٹرز ہیں جن میں سے 7ریٹائر ہوجائیں گے، اسے خیبرپختونخوا سے 10، پنجاب سے6، سندھ اور اسلام آباد سے 2,2 اور بلوچستان سے ایک سیٹ ملنے کی امید ہے، یوں21سیٹوں پر اسکی کامیابی کا امکان ہے، پیپلزپارٹی کے8سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ اسے6 سیٹوں پر کامیابی کی امید ہے، پیپلزپارٹی کو تمام سیٹیں سندھ سے حاصل ہوں گی تاہم اس کی نشستیں21سے کم ہوکر19رہ جائیں گی اور وہ سینیٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بن جائیگی۔
سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ دھچکا ن لیگ کو پہنچے گا، اسکے29میں سے 17سینیٹرز جن کاتعلق پنجاب سے ہے، ریٹائر ہو رہے ہیں، اسے صرف پنجاب اسمبلی سے 5سیٹیں مل سکتی ہیں جس کے بعد اسکے ارکان کی تعداد17تک پہنچ سکتی ہے، یوں وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے اعزاز سے محروم ہو جائے گی۔ جے یو آئی کے بلوچستان اور کے پی کے سے دو سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں تاہم اسے آئندہ انتخابات میں کل 3نشستیں ملنے کا امکان ہے۔