پارلیمنٹ یا کلب

پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہے، جہاں سیاستدانوں کے نازیبا اطوار نظر آتے ہیں


اجلاس میں ایک دوسرے کے مرتبے کا خیال کیے بغیر نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بنیادی تنخواہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے، اعزازیہ بارہ ہزار سات سو روپے، سمپچوری الاؤنس پانچ ہزار روپے، آفس کی مرمت کا الاونس آٹھ ہزار روپے، ٹیلی فون پر دس ہزار روپے اور ایڈہاک ریلیف پندرہ ہزار روپے۔ کل دو لاکھ ستر ہزار روپے ماہانہ۔ تین لاکھ روپے کے سفری واؤچرز یا نوے ہزار روپے کیش، بزنس کلاس کے پچیس ریٹرن ٹکٹ کنوینس، ڈیلی اور ہاؤسنگ الاؤنس اس کے علاہ ہیں۔

الاؤنسز کی یہ رقم اجلاس سے تین دن پہلے اور تین بعد بھی ملتی رہے گی۔ معزز رکن اسمبلی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں تشریف لائیں تو یہی تین الاؤنس انہیں ایک بار پھر مل جاتے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ایک دن ہو تو انہیں اجلاس سے دو دن پہلے اور دو دن بعد تک یہ الاؤنس ملتا رہتا ہے۔ فضائی سفر، ریل کے سفر، یا سڑک پر سفر ہر صورت میں ان کےلیے الاؤنسز تو ہیں ہی۔

معزز رکن، اسمبلی یا قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں تو کنوینس الاؤنس بھی لیتے ہیں۔ کنوینس الاؤنس کے ساتھ ساتھ انہیں آفیشل ٹرانسپورٹ بھی دی جاتی ہے۔ 1300 سی سی کار مہیا کی جاتی ہے اور تین سو ساٹھ لیٹر پٹرول بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس قدر بھاری مراعات اور تنخواہیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ عوام کے خادم قانون ساز ادارے میں حاضر ہوکر ایسی قانون سازی کریں جس سے عوام کی زندگی سہل ہوجائے، وطن عزیز ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو اور ہم سر اٹھا کر جی سکیں۔

مگر انتہائی دکھ اور افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اس قدر بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے ملازمین جو اپنے آپ کو عوام کے خادم اور ان کا سربراہ خادم اعلیٰ کہتا ہے، جب اپنی ڈیوٹی پر تشریف لاتے ہیں تو ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا ہے۔ بھاری بھرکم تنخواہ پر پلنے والے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں، آپس میں گندی گالیوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے، جوتے لہراتے ہیں، آئین پاکستان سے ڈیسک بجائے جاتے ہیں۔



اخباری اطلاعات کے مطابق یوم یکجہتی کشمیر سے صرف ایک دن پہلے ہونے والے اجلاس میں ایک دوسرے کے مرتبے کا خیال کیے بغیر نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ یوم یکجہتی کشمیر کی قرارداد بھی اس ہلڑ بازی کی بھینٹ چڑھ گئی ۔اس سے اگلے دن 5 فروری کو جب ہمارے معزز لیڈروں نے کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کیا تو کشمیری عوام سوال کررہے ہوں گے بھائیو آپ میں آزادی کے 72 سال بعد بھی قومیت کا جذبہ کیوں غائب ہے؟ آپ کیوں آپس میں لڑتے رہتے ہیں؟ آپ کیوں ایک دوسرے کو غدار قرار دیتے ہیں؟ آپ تو آزاد ہیں، آزاد ملک میں کیوں کسی کو قتل، تو کسی کو ملک بدر کردیا جاتا ہے۔



غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی بار ہورہا ہے؟ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے اس سے پہلے بھی اکثر و بیشتر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کو دھکے دے کر گرا دینا، سارجنٹ ایٹ آرمز کا نوید قمر جیسے معزز رکن اسمبلی کو مائیک سے دھکیل دینا، اسپیکر کا سارجنٹ کو حکم دینا کہ اس معزز ممبر کو باہر نکال دیں اور اسپیکر کا سارجنٹس کے حفاظتی حصار میں کارروائی جاری رکھنا، ایسے مناظر نایاب تھے۔



ایک غیر سرکاری ذریعے کا دعویٰ ہے کہ 2017 کے اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ آج کتنا ہوگا؟ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا معاشی بدحالی کے اس دور میں ایک دن کے اجلاس پر لاکھوں روپے اس لیے خرچ کیے جاتے ہیں کہ اول مراد سعید کشتوں کے پشتے لگا دیں اور پھر دیگر معزز ممبران اس اسلوب میں غزل سرا ہوں جو بازار میں بھی متروک ہوچکا ہو۔



گزشتہ اسمبلی چونکہ دھاندلی کی پیداوار تھی بقول عمران خان، اس لیے ان کی سب سے کم حاضریاں تھیں۔ لیکن اب جب کہ وہ خود وزیراعظم ہیں تو پہلے 34 اجلاسوں میں سے وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ قانون ساز ادارہ آسودہ حال لوگوں کا کلب ہو، جہاں پر اراکین پل بھر کو تفنن طبع کےلیے آئیں اور ایک دوسرے کو گدگدا کر لوٹ جائیں۔

پارلیمان کے اجتماعی شعور کی یہ حالت ہے کہ مختلف جماعتوں کے سربراہ ایک فیصلہ کردیتے ہیں اور اراکین توثیق فرما کر فرائض منصبی ادا کردیتے ہیں۔ اگر فیصلے چند رہنماؤں نے ہی کرنے ہیں اور پارلیمان سے باہر کہیں بیٹھ کر کرنے ہیں، پارلیمان میں نہ بحث ہونی ہے نہ غوروفکر ہونا ہے بلکہ صرف ان فیصلوں کی تائید ہونی ہے تو اتنی بھاری بھرکم پارلیمان کس لیے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی، عزت و احترام کو یقینی بنایا جائے۔ اختلاف رائے کا اظہار مہذب طریقے سے کیا جائے نہ کہ جہلا کا طرز اختیار کیا جائے۔ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو وہ دن دور نہیں جب ہم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کریں گے اور وہ ہم سے درخواست کریں گے کہ بھائی اگر ہم سے محبت ہے تو اور کچھ نہیں تو پارلیمنٹ کو ہی بدل لو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں