کینسر کے خلیات پر نینوذرات کی یلغار کا نیا طریقہ دریافت
نینوذرات پرمبنی ایک نئی دوا پہلے انسانی دفاعی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور رسولی کا خاتمہ کرتی ہے۔
KARACHI:
کینسر کے علاج کے تحت دنیا بھر میں امیونوتھراپی کا نام حال ہی میں سننے میں آیا ہے۔ اب اس ضمن میں نینوذرات کی حامل ایک نئی دوا بنائی گئی ہے جو امنیاتی نظام کو تقویت دے کر سرطان اور اس ک خلیات سے بنے پھوڑوں کا خاتمہ کرتی ہے۔
امیونوتھراپی میں جسم کے اپنے قدرتی دفاعی نظام کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ خود سرطان کو چن چن کر ختم کرتا ہے لیکن اس میں بعض کینسر میں کامیابی حاصل ہوئی ہیں اور دوسری قسم کے کینسر میں یہ طریقہ بہت کامیاب نہ ہوسکا۔ تاہم اب امیونوتھراپی کی ایک دوا بنائی گئی ہے جس میں نینوذرات اسٹیمولیٹر آف انٹروفیرون جین (اسٹنگ) نامی پروٹین کو سرگرم کرتے ہیں۔ اور اسی پروٹین پر تحقیق ہورہی ہے جو امنیاتی نظام کا بہت اہم گوشہ بھی ہے۔
اگر اسٹنگ بیدار ہوجائے تو یہ کینسر کے ڈی این اے کو بھی پہچان کر اس سے دو دو ہاتھ کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ہیرالڈ سمنس کینسر سینٹر کے جِن مِنگ چیاؤ اور ان کے ساتھیوں نے برسوں کی محنت کے بعد تجربہ گاہ میں ایک پالیمر بنایا جو ازخود چھوٹے نینوذرات کی شکل میں جمع ہوجاتا ہے۔ اس میں سی جی اے ایم پی نامی قدرتی چھوٹا سا سالمہ رکھ کر اس سے اسٹنگ کو سرگرم کیا جاسکتا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
اس طرح نئی دوا اسٹنگ سالمے کو 48 گھنٹوں تک جگائے رکھتی ہے اور وہ اس دوران کینسر کے خلیات کو پچھاڑنے کا کام کرسکتا ہے۔ جب انہیں چوہوں پر آزمایا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئےاور کوئی منفی اثر بھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے بعد خود جسم کا اندرونی نظام اس قابل ہوگیا کہ وہ کینسر کا خاتمہ کرنےلگا۔
کینسر کے علاج کے تحت دنیا بھر میں امیونوتھراپی کا نام حال ہی میں سننے میں آیا ہے۔ اب اس ضمن میں نینوذرات کی حامل ایک نئی دوا بنائی گئی ہے جو امنیاتی نظام کو تقویت دے کر سرطان اور اس ک خلیات سے بنے پھوڑوں کا خاتمہ کرتی ہے۔
امیونوتھراپی میں جسم کے اپنے قدرتی دفاعی نظام کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ خود سرطان کو چن چن کر ختم کرتا ہے لیکن اس میں بعض کینسر میں کامیابی حاصل ہوئی ہیں اور دوسری قسم کے کینسر میں یہ طریقہ بہت کامیاب نہ ہوسکا۔ تاہم اب امیونوتھراپی کی ایک دوا بنائی گئی ہے جس میں نینوذرات اسٹیمولیٹر آف انٹروفیرون جین (اسٹنگ) نامی پروٹین کو سرگرم کرتے ہیں۔ اور اسی پروٹین پر تحقیق ہورہی ہے جو امنیاتی نظام کا بہت اہم گوشہ بھی ہے۔
اگر اسٹنگ بیدار ہوجائے تو یہ کینسر کے ڈی این اے کو بھی پہچان کر اس سے دو دو ہاتھ کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ہیرالڈ سمنس کینسر سینٹر کے جِن مِنگ چیاؤ اور ان کے ساتھیوں نے برسوں کی محنت کے بعد تجربہ گاہ میں ایک پالیمر بنایا جو ازخود چھوٹے نینوذرات کی شکل میں جمع ہوجاتا ہے۔ اس میں سی جی اے ایم پی نامی قدرتی چھوٹا سا سالمہ رکھ کر اس سے اسٹنگ کو سرگرم کیا جاسکتا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
اس طرح نئی دوا اسٹنگ سالمے کو 48 گھنٹوں تک جگائے رکھتی ہے اور وہ اس دوران کینسر کے خلیات کو پچھاڑنے کا کام کرسکتا ہے۔ جب انہیں چوہوں پر آزمایا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئےاور کوئی منفی اثر بھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے بعد خود جسم کا اندرونی نظام اس قابل ہوگیا کہ وہ کینسر کا خاتمہ کرنےلگا۔