نہایت تشویشناک
چند روز پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ منظرِ عام آئی جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے۔
ISLAMABAD:
قومی سطح پر ہم جس ابتری کا شکار ہیں، ہر فرد اورادارہ اس کا ذمے دار ہے، مگر تشویشناک امر یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے کہیں بھی نیک نیّتی اور اخلاص نظر نہیں آتا۔
سب نے مورچے سنبھال رکھے ہیں، ایک دوسرے پر گولہ باری کی جارہی ہے، زمامِ کار جن کے ہاتھوں میں ہے انھوں نے امورِ سلطنت کو پولو گراؤنڈ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں سب اپنے اپنے مفادات کے گھوڑوں پر سوار ہیں، اور بیچارے پاکستان کا مفاد گیند کی طرح ہر طرف سے پِٹ رہا ہے۔
2012میں مجھے برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں زیرِتعلیم پاکستانی طلبا وطالبات کی دعوت پر آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں بھی اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کیا اور ہر جگہ انھیں بتاتا رہاکہ ہمارا میڈیا آزاد ہے۔
رات سات بجے سے گیارہ بجے تک وہ ملک کے ہر طاقتور شخص پر کھل کر تنقید کرتا ہے، اس پر کوئی قدغن یا دباؤ نہیں۔میں بیرونِ ممالک جاکر عدلیہ کی آزادی کی بھی بڑے فخر کے ساتھ بات کرتا رہا۔ آج کے جدید دور میں ملکوں کی اجتماعی صورتِ حال جانچنے یا ان کی ریٹنگ کے لیے وہاںRule of Law کے علاوہ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی ہی سب سے بڑے Indicators (پیمانے) سمجھے جاتے ہیں۔
آج 2021 کی صورتِ حال یہ ہے کہ چند روز پہلے کسی کیس کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے کمرۂ عدالت میں موجود اخبار ات اور چینلوں کے نمایندوں سے پوچھا کہ ''آپ میں سے جو صاحبان سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں میڈیا آزاد ہے، وہ ہاتھ کھڑا کریں'' اس پر ایک ہاتھ بھی کھڑا نہ ہوا۔
کیا اس پر کسی کو تشویش ہے؟ کیا کسی کو احساسِ زیاں ہے؟ صد افسوس کہ نہیں ہے اور صورتِ حال یہ ہے کہ ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواںکے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
عدلیہ کی بالادستی اور میڈیا کی آزادی ہی جدید معاشرے کا اصل جوہر ہے۔ اس جوہر سے محروم ہوکر قومیں اسپتال میں پڑے ہوئے مریض کی طرح ہوتی ہیں، جن کا اس عالمِ رنگ و بو میں کوئی کردار نہیں ۔ وہ صرف اپنی بقاء کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی رہتی ہیں۔ اسی لیے عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ''ملک کو بڑے منظم طریقے سے برباد کیا جارہا ہے''۔ یہ صورتِ حال پوری قوم کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔
..................
کون نہیں جانتا کہ چوہدری اعتزاز احسن صاحب کہنے کوتوپیپلزپارٹی میں ہیں مگر ان کی ہمدردیاں اور سپورٹ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چاہتے ہیں آیندہ الیکشن میں عمران خان انھیں سپورٹ کریں۔ نوازشریف اور شہباز شریف سے ان کی مخالفت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ مگر جب حکومت نے عظمت سعید صاحب کوبراڈشیٹ(اور اس کے ساتھ کئی اور کیسز) کی انکوائری کے لیے مقرر کیا تو اعتزاز احسن صاحب نے بھی ٹی وی پر آکر کہا ، ''عظمت سعید پر مریم نواز کے اعتراضات valid ہیں، اور انھیں یہ ذمے داری نہیں لینی چاہیے''۔
عدلیہ کی اچھی روایات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ایک فریق کسی فاضل جج پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتا ہے تو جج صاحب وہ کیس فوراً ٹرانسفر کردیتے ہیں، یا اس بینچ سے خود علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ ایک فریق کے اعلانیہ عدمِ اعتماد کے باوجود اِنکوائری کرنے پر اصرار کرناان اعلیٰ روایات کے منافی ہے۔
عظمت سعید صاحب زمانۂ طالب علمی میں لاء کالج ہوسٹل میں میرے ہمسائے ہوتے تھے۔ اگر کہیں ملاقات ہوجا تی تو میں انھیں بتاتا کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کا ایسا طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے، کسی پولیس افسر پر بھی جب ایک فریق عدمِ اعتماد کا اظہار کردیتا ہے تو وہ افسر تفتیش سے الگ ہوجاتا ہے۔ ہم نے خود اس بناء پر بارہاتفتیش یا انکوائری تبدیل کی ہے۔ ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحّاد نے بارہا عظمت سعید پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ فقرہ سن کر آپ کو اس انکوائری کمیشن سے الگ ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر آپ کمیشن کی چیئرمینی لینے پر بضد ہیں۔ اس سے آپ کے بارے میں اپوزیشن کے تحفظات کو مزید تقویّت ملتی ہے۔ آپ کی رپورٹ یا Findingss بھی آپ کی تقرری کی طرح متنازعہ ہی رہیں گی۔ کئی غیر جانبدار دانشوروں نے تو اس پر تشویش کا اظہار تک کیا ہے۔
..................
حکمران جماعت کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا محرک اپوزیشن نہیں بلکہ ان کے اپنے ایک بنیادی رکن (اکبر ایس بابر ... جو ایک پڑھے لکھے، متوازن مزاج اور دیانتداری کی شہرت رکھنے والے انسان ہیں ) ہیں۔ اگر عمران خان صاحب سمجھتے کہ ان کی فنڈنگ قانونی طور پر جائز ہے تو انھیںکیس کو سالوں تک ملتوی کرانے اور اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جب میاں نوازشریف کے خلاف کیس شروع ہوا تھاتو وہ کہتے،''میں مسلم لیگ کا سربراہ ہوں، میرے خلاف مقدمہ چلانا ہے تو پی ٹی آئی ،ق لیگ اور ایم کیو ایم کے سربراہوںکے خلاف بھی ایسے ہی کیس چلائے جائیں۔'' شاہد خاقان عباسی کہتے کہ مجھے گرفتار کرنے سے پہلے شوکت عزیز سمیت دوسرے وزرائے اعظم کو بھی گرفتار کیا جائے۔
ان دونوں نے ایسا نہیں کہا اور اپنے مقدمات کا سامنا کرتے رہے۔ وزیرِاعظم صاحب نے ایک روز یہ بھی فرمادیا کہ فارن فنڈنگ کیس کی انکوائری اعلانیہ کی جائے تاکہ پوری قوم دیکھ سکے۔ دوسرے روز ان کے وکیل نے تحریری طور پر اس کے برعکس موقف اختیار کیا۔
چند روز پہلے ملک کا درد رکھنے والے چند اہلِ دانش سے نشست ہوئی، سب بے حد پریشان تھے کہ اعلیٰ ترین سطح سے اس دیدہ دلیری کے ساتھ دروغ گوئی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ دکھ ہوتا ہے۔ فیشن یا روایت اُوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے، اوپر والوں کا طرزِعمل نئی نسل کی سوچ اور رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں میں اگر جھوٹ، بدزبانی اور بے بنیاد الزام تراشی کا چلن ہوگا تو ہماری نئی نسل بھی وہی سیکھے گی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے محروم ہوگی۔
چند روز پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ منظرِ عام آئی جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے۔ حکومتی وزیروں، مشیروں اور وزیرِاعظم نے اس رپورٹ کو پچھلی حکومت سے جوڑنے کی کوشش کی۔ غیرجانبدار ماہرین نے جب ٹی وی پر وضاحت کی کہ رپورٹ موجودہ حکومت کے دور کی ہے تو اس کے بعد وزیرِاعظم نے کہہ دیا، ''میں نے رپورٹ نہیں پڑھی'' ایسے طرزِعمل کو یقیناً درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
..................
جناب ِ وزیرِاعظم ! میں بڑے دکھ کے ساتھ یہ تلخ حقیقت آپ کے علم میں لانے کا ناخوشگوار فریضہ سرانجام دے رہا ہوں، ( کہ شاید کوئی اور سول سرونٹ آپ کو یہ نہ بتاسکے) کہ پنجاب میں موجودہ دور بدترین گورننس اور سیاسی مداخلت کا دور سمجھا جاتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کے جو افسر مالی طور پر دیانتدار تھے وہ بھی فیلڈ میں رہنے کے لیے غیرجانبداری قائم نہیں رکھ سکے اور ان کے دامن پر جانبداری کے دھبے لگ چکے ہیں۔
پنجاب میں وزیر آباد (میرا آبائی علاقہ ) اور ڈسکہ (ہماری ہمسایہ تحصیل) میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ میں کل وزیرآباد میں ایک شادی میں شریک ہوا، وہاں موجود بہت سے وکلاء اور صحافیوں نے یہ بتایا ہے کہ سرکاری مشینری مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے خلاف سرگرم ہے۔ بعض سرکاری محکموں کے اہلکاروں سے حلف لیے جارہے ہیں اور انھیں کہا جا رہا ہے کہ اگرتم نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دیا تو نوکری سے محروم ہو جاؤ گے۔ مسلم لیگ کے سپورٹروں کو ڈرانے اور دھمکانے کا عمل جاری ہے۔ لگتا ہے پولیس اور انتظامیہ کے افسروں کو الیکشن کمیشن کی کوئی پرواہ نہیں۔ایک افسر کو کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو جتواؤ ورنہ بلوچستان بھیج دیا جائے گا۔ خان صاحب! کیا آپ نے ایسی گورننس کے لیے لوگوں کو خواب دکھائے تھے؟
قومی سطح پر ہم جس ابتری کا شکار ہیں، ہر فرد اورادارہ اس کا ذمے دار ہے، مگر تشویشناک امر یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے کہیں بھی نیک نیّتی اور اخلاص نظر نہیں آتا۔
سب نے مورچے سنبھال رکھے ہیں، ایک دوسرے پر گولہ باری کی جارہی ہے، زمامِ کار جن کے ہاتھوں میں ہے انھوں نے امورِ سلطنت کو پولو گراؤنڈ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں سب اپنے اپنے مفادات کے گھوڑوں پر سوار ہیں، اور بیچارے پاکستان کا مفاد گیند کی طرح ہر طرف سے پِٹ رہا ہے۔
2012میں مجھے برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں زیرِتعلیم پاکستانی طلبا وطالبات کی دعوت پر آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں بھی اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کیا اور ہر جگہ انھیں بتاتا رہاکہ ہمارا میڈیا آزاد ہے۔
رات سات بجے سے گیارہ بجے تک وہ ملک کے ہر طاقتور شخص پر کھل کر تنقید کرتا ہے، اس پر کوئی قدغن یا دباؤ نہیں۔میں بیرونِ ممالک جاکر عدلیہ کی آزادی کی بھی بڑے فخر کے ساتھ بات کرتا رہا۔ آج کے جدید دور میں ملکوں کی اجتماعی صورتِ حال جانچنے یا ان کی ریٹنگ کے لیے وہاںRule of Law کے علاوہ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی ہی سب سے بڑے Indicators (پیمانے) سمجھے جاتے ہیں۔
آج 2021 کی صورتِ حال یہ ہے کہ چند روز پہلے کسی کیس کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے کمرۂ عدالت میں موجود اخبار ات اور چینلوں کے نمایندوں سے پوچھا کہ ''آپ میں سے جو صاحبان سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں میڈیا آزاد ہے، وہ ہاتھ کھڑا کریں'' اس پر ایک ہاتھ بھی کھڑا نہ ہوا۔
کیا اس پر کسی کو تشویش ہے؟ کیا کسی کو احساسِ زیاں ہے؟ صد افسوس کہ نہیں ہے اور صورتِ حال یہ ہے کہ ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواںکے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
عدلیہ کی بالادستی اور میڈیا کی آزادی ہی جدید معاشرے کا اصل جوہر ہے۔ اس جوہر سے محروم ہوکر قومیں اسپتال میں پڑے ہوئے مریض کی طرح ہوتی ہیں، جن کا اس عالمِ رنگ و بو میں کوئی کردار نہیں ۔ وہ صرف اپنی بقاء کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی رہتی ہیں۔ اسی لیے عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ''ملک کو بڑے منظم طریقے سے برباد کیا جارہا ہے''۔ یہ صورتِ حال پوری قوم کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔
..................
کون نہیں جانتا کہ چوہدری اعتزاز احسن صاحب کہنے کوتوپیپلزپارٹی میں ہیں مگر ان کی ہمدردیاں اور سپورٹ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چاہتے ہیں آیندہ الیکشن میں عمران خان انھیں سپورٹ کریں۔ نوازشریف اور شہباز شریف سے ان کی مخالفت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ مگر جب حکومت نے عظمت سعید صاحب کوبراڈشیٹ(اور اس کے ساتھ کئی اور کیسز) کی انکوائری کے لیے مقرر کیا تو اعتزاز احسن صاحب نے بھی ٹی وی پر آکر کہا ، ''عظمت سعید پر مریم نواز کے اعتراضات valid ہیں، اور انھیں یہ ذمے داری نہیں لینی چاہیے''۔
عدلیہ کی اچھی روایات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ایک فریق کسی فاضل جج پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتا ہے تو جج صاحب وہ کیس فوراً ٹرانسفر کردیتے ہیں، یا اس بینچ سے خود علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ ایک فریق کے اعلانیہ عدمِ اعتماد کے باوجود اِنکوائری کرنے پر اصرار کرناان اعلیٰ روایات کے منافی ہے۔
عظمت سعید صاحب زمانۂ طالب علمی میں لاء کالج ہوسٹل میں میرے ہمسائے ہوتے تھے۔ اگر کہیں ملاقات ہوجا تی تو میں انھیں بتاتا کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کا ایسا طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے، کسی پولیس افسر پر بھی جب ایک فریق عدمِ اعتماد کا اظہار کردیتا ہے تو وہ افسر تفتیش سے الگ ہوجاتا ہے۔ ہم نے خود اس بناء پر بارہاتفتیش یا انکوائری تبدیل کی ہے۔ ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحّاد نے بارہا عظمت سعید پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ فقرہ سن کر آپ کو اس انکوائری کمیشن سے الگ ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر آپ کمیشن کی چیئرمینی لینے پر بضد ہیں۔ اس سے آپ کے بارے میں اپوزیشن کے تحفظات کو مزید تقویّت ملتی ہے۔ آپ کی رپورٹ یا Findingss بھی آپ کی تقرری کی طرح متنازعہ ہی رہیں گی۔ کئی غیر جانبدار دانشوروں نے تو اس پر تشویش کا اظہار تک کیا ہے۔
..................
حکمران جماعت کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا محرک اپوزیشن نہیں بلکہ ان کے اپنے ایک بنیادی رکن (اکبر ایس بابر ... جو ایک پڑھے لکھے، متوازن مزاج اور دیانتداری کی شہرت رکھنے والے انسان ہیں ) ہیں۔ اگر عمران خان صاحب سمجھتے کہ ان کی فنڈنگ قانونی طور پر جائز ہے تو انھیںکیس کو سالوں تک ملتوی کرانے اور اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جب میاں نوازشریف کے خلاف کیس شروع ہوا تھاتو وہ کہتے،''میں مسلم لیگ کا سربراہ ہوں، میرے خلاف مقدمہ چلانا ہے تو پی ٹی آئی ،ق لیگ اور ایم کیو ایم کے سربراہوںکے خلاف بھی ایسے ہی کیس چلائے جائیں۔'' شاہد خاقان عباسی کہتے کہ مجھے گرفتار کرنے سے پہلے شوکت عزیز سمیت دوسرے وزرائے اعظم کو بھی گرفتار کیا جائے۔
ان دونوں نے ایسا نہیں کہا اور اپنے مقدمات کا سامنا کرتے رہے۔ وزیرِاعظم صاحب نے ایک روز یہ بھی فرمادیا کہ فارن فنڈنگ کیس کی انکوائری اعلانیہ کی جائے تاکہ پوری قوم دیکھ سکے۔ دوسرے روز ان کے وکیل نے تحریری طور پر اس کے برعکس موقف اختیار کیا۔
چند روز پہلے ملک کا درد رکھنے والے چند اہلِ دانش سے نشست ہوئی، سب بے حد پریشان تھے کہ اعلیٰ ترین سطح سے اس دیدہ دلیری کے ساتھ دروغ گوئی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ دکھ ہوتا ہے۔ فیشن یا روایت اُوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے، اوپر والوں کا طرزِعمل نئی نسل کی سوچ اور رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں میں اگر جھوٹ، بدزبانی اور بے بنیاد الزام تراشی کا چلن ہوگا تو ہماری نئی نسل بھی وہی سیکھے گی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے محروم ہوگی۔
چند روز پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ منظرِ عام آئی جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے۔ حکومتی وزیروں، مشیروں اور وزیرِاعظم نے اس رپورٹ کو پچھلی حکومت سے جوڑنے کی کوشش کی۔ غیرجانبدار ماہرین نے جب ٹی وی پر وضاحت کی کہ رپورٹ موجودہ حکومت کے دور کی ہے تو اس کے بعد وزیرِاعظم نے کہہ دیا، ''میں نے رپورٹ نہیں پڑھی'' ایسے طرزِعمل کو یقیناً درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
..................
جناب ِ وزیرِاعظم ! میں بڑے دکھ کے ساتھ یہ تلخ حقیقت آپ کے علم میں لانے کا ناخوشگوار فریضہ سرانجام دے رہا ہوں، ( کہ شاید کوئی اور سول سرونٹ آپ کو یہ نہ بتاسکے) کہ پنجاب میں موجودہ دور بدترین گورننس اور سیاسی مداخلت کا دور سمجھا جاتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کے جو افسر مالی طور پر دیانتدار تھے وہ بھی فیلڈ میں رہنے کے لیے غیرجانبداری قائم نہیں رکھ سکے اور ان کے دامن پر جانبداری کے دھبے لگ چکے ہیں۔
پنجاب میں وزیر آباد (میرا آبائی علاقہ ) اور ڈسکہ (ہماری ہمسایہ تحصیل) میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ میں کل وزیرآباد میں ایک شادی میں شریک ہوا، وہاں موجود بہت سے وکلاء اور صحافیوں نے یہ بتایا ہے کہ سرکاری مشینری مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے خلاف سرگرم ہے۔ بعض سرکاری محکموں کے اہلکاروں سے حلف لیے جارہے ہیں اور انھیں کہا جا رہا ہے کہ اگرتم نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دیا تو نوکری سے محروم ہو جاؤ گے۔ مسلم لیگ کے سپورٹروں کو ڈرانے اور دھمکانے کا عمل جاری ہے۔ لگتا ہے پولیس اور انتظامیہ کے افسروں کو الیکشن کمیشن کی کوئی پرواہ نہیں۔ایک افسر کو کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو جتواؤ ورنہ بلوچستان بھیج دیا جائے گا۔ خان صاحب! کیا آپ نے ایسی گورننس کے لیے لوگوں کو خواب دکھائے تھے؟