جوبائیڈن حکومت کشمیر پر زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا بند کرے وزیر خارجہ
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایک ٹوئٹ میں کشمیر کی متنازع حیثیت کا ذکر نہیں کیا
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے کوئی بڑا سانحہ جنم لے سکتا ہے اور نئی امریکی انتظامیہ سے امید ہے کہ وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا بند کرے گی۔
وزارتِ خارجہ میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے تصویری نمائش اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت اصرار کرتا ہے کہ کشمیر اسکا اندرونی معاملہ ہے اگر ایسا ہے تو ہم کیوں باہمی مذاکرات کی بات کرتے ہیں بھارت مسئلہ کشمیر کو دہشتگردی سے جوڑنے کا پروپیگنڈا کرتا ہے ہمیں سوچنا ہے کہ کیا ہم جنوبی ایشیا میں امن کے خواہاں ہیں ۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اب بدل رہا ہے ہم ایک نئی سیاسی جماعت ایک نئی سوچ کے ساتھ ہیں ۔ ماضی میں ہم جیوپولیٹیکل محل وقوع جبکہ آج ہم جیو پولیٹیکل اکانومی کی بات کرتے ہیں ہم خطے میں تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں مگر اس میں رکاوٹ بھارت ہے.
وزیر خارجہ نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ ہمیشہ انسانی حقوق کو مدنظر رکھتی ہے اس سے امید ہے کہ وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا بند کرے گی ۔
شاہ محمود نے کہا کہ ہم آپ کے بھارت سے سفارتی تعلقات کا احترام کرتے ہیں مگر جموں و کشمیر گذشتہ 18 ماہ سے محاصرے میں ہے کیا بھارت اس محاصرے اور ذرائع ابلاغ پر ساری عمر قدغن لگا سکتا ہے ۔ میں یورپی یونین سے بھی اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی توقع کرتا ہوں۔
حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے متعدد بیانات دیے گئے ہیں جن میں خطے میں چین کے اثر رسوخ کے خلاف بھارت پر بڑھتا ہوا انحصار ظاہر ہورہا ہے۔
گزشتہ روز امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کی گئی ایک ٹوئٹ میں خطے کی متنازع حیثیت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ ٹوئٹ میں اس علاقے کو ''بھارت کا جموں کشمیر'' کہا گیا تھا۔
اس پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واضح کیا ہے کہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں تبدیل نہیں ہوئی اور امریکا اب بھی کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ سمجھتا ہے۔
وزارتِ خارجہ میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے تصویری نمائش اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت اصرار کرتا ہے کہ کشمیر اسکا اندرونی معاملہ ہے اگر ایسا ہے تو ہم کیوں باہمی مذاکرات کی بات کرتے ہیں بھارت مسئلہ کشمیر کو دہشتگردی سے جوڑنے کا پروپیگنڈا کرتا ہے ہمیں سوچنا ہے کہ کیا ہم جنوبی ایشیا میں امن کے خواہاں ہیں ۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اب بدل رہا ہے ہم ایک نئی سیاسی جماعت ایک نئی سوچ کے ساتھ ہیں ۔ ماضی میں ہم جیوپولیٹیکل محل وقوع جبکہ آج ہم جیو پولیٹیکل اکانومی کی بات کرتے ہیں ہم خطے میں تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں مگر اس میں رکاوٹ بھارت ہے.
وزیر خارجہ نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ ہمیشہ انسانی حقوق کو مدنظر رکھتی ہے اس سے امید ہے کہ وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا بند کرے گی ۔
شاہ محمود نے کہا کہ ہم آپ کے بھارت سے سفارتی تعلقات کا احترام کرتے ہیں مگر جموں و کشمیر گذشتہ 18 ماہ سے محاصرے میں ہے کیا بھارت اس محاصرے اور ذرائع ابلاغ پر ساری عمر قدغن لگا سکتا ہے ۔ میں یورپی یونین سے بھی اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی توقع کرتا ہوں۔
حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے متعدد بیانات دیے گئے ہیں جن میں خطے میں چین کے اثر رسوخ کے خلاف بھارت پر بڑھتا ہوا انحصار ظاہر ہورہا ہے۔
گزشتہ روز امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کی گئی ایک ٹوئٹ میں خطے کی متنازع حیثیت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ ٹوئٹ میں اس علاقے کو ''بھارت کا جموں کشمیر'' کہا گیا تھا۔
اس پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واضح کیا ہے کہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں تبدیل نہیں ہوئی اور امریکا اب بھی کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ سمجھتا ہے۔