عطیہ فیضی کون تھیں۔۔۔
کبھی بھول کر اس عطیہ فیضی کو یاد کیا جس نے وہ قطعہ زمین آرٹس کونسل کو تحفتاً دے دیا جو ان کی ذاتی ملکیت تھا؟
آج کسی "So-Called" آرٹ لورز (Art Lovers) سے اگر پوچھا جائے کہ آپ عطیہ فیضی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ تو یقین کیجیے کہ وہ تعجب اور حیرانی سے پوچھیں گے کہ۔۔۔ کون عطیہ فیضی؟ ان کا نام تو کبھی نہیں سنا۔ چلیے ان بے چاروں کو تو معاف کیا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے نہیں، نہ ہی وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں، کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ دولت کے بل بوتے پر وہ کسی بھی ادبی تقریب کی صدارت کر سکتے ہیں، آرٹس کونسل کی تاحیات ممبر شپ لے سکتے ہیں، کہ ان ہی کے دم سے وہاں کی ''رونقیں'' بحال رہتی ہیں۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ کنگلے ادیب، شاعر، صحافی، گلوکار، مصور، رقاص اور محقق کی ممبر شپ کے چند ٹکوں سے کیا تقریبات میں انواع و اقسام کے کھانے اور ''مشروبات'' پیش کیے جا سکتے ہیں؟ یہ تو ان آرٹ لورز کا احسان ہے کہ وہ فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود نہ صرف ادب کی سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ خود بھی اسی مال و دولت کی وجہ سے ادیب، شاعر، کالم نگار اور بہت کچھ بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں ایسی جعل سازی عام ہے۔ سیاست سے لے کر ادب تک اس کی مثالیں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے اس کام کا معاوضہ بھی وہ کسی اہل قلم ہی کو دیں گے، تو یہ بھی ادب کی سرپرستی ہی تو ہے۔ ہمیں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ بہت سے جینوئن شعرا کے گھر کے چولہے ان ہی آرٹ لورز کی ''مہربانی'' سے جل رہے ہیں۔
لیکن کراچی آرٹس کونسل کے اگلے پچھلے اور موجودہ سربراہان، گورننگ باڈی کے ممبران اور آج تک کی ادبی کمیٹیوں کے چیئرمین حضرات نے بھی کبھی بھول کر اس عطیہ فیضی کو یاد کیا جس نے وہ قطعہ زمین آرٹس کونسل کو تحفتاً دے دیا جو ان کی ذاتی ملکیت تھا؟ ایسا ایثار کم شخصیات کے حصے میں ہی آتا ہے۔ ضرورت صرف ایسی شخصیات کو یاد رکھنے کی ہوتی ہے۔ یہ وہ زمین تھی جو انھیں بمبئی والے ''ایوان رفعت'' کے بدلے میں برنس گارڈن پہ دی گئی تھی۔ یہی زمین انھوں نے آرٹس کونسل کو عطیہ کر دی اور خود اس سے متصل ایک عمارت میں منتقل ہو گئیں۔ جہاں انھوں نے اپنے شوہر اور نامور مصور فیضی رحمین کے ساتھ رہائش اختیار کی اور اپنے ذاتی خرچ سے دو الگ الگ حصے تعمیر کروائے، جن پر اس وقت 30 لاکھ روپے لاگت آئی (روپے کی قدر، ڈالر کے ریٹ اور وقت کے حساب سے 30 لاکھ کی موجودہ مالیت کا تعین آپ خود کر لیجیے)۔ یہ دونوں میاں بیوی جو عالمگیر شہرت رکھتے تھے، بانی پاکستان محمد علی جناح کے گہرے دوست تھے۔
بمبئی میں یہ لوگ انتہائی پر آسائش زندگی بسر کر رہے تھے لیکن 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی ذاتی درخواست پر قائد کی جنم بھومی اور پاکستان کے پہلے دارالحکومت کراچی چلے آئے۔ اپنے ذاتی سرمائے سے تعمیر کیے جانے والے دو حصوں میں سے ایک میں عطیہ فیضی اور فیضی رحمن نے رہائش اختیار کی اور دوسرے کو آرٹ گیلری بنا دیا اور اسے بھی ''ایوان رفعت'' کا نام دیا۔ موجودہ آرٹس کونسل کے پڑوس میں واقع عمارت وہی ''ایوان رفعت'' ہے جو کبھی عطیہ فیضی کی وجہ سے روشنیوں اور فنون لطیفہ کا مرکز تھا۔۔۔ لیکن آج ایک اجڑے دیار کا منظر پیش کرتا ہے۔ سیف الرحمٰن گرامی کے زمانے میں دو بار وہاں جانے اور اس نادر عمارت کو دیکھنے کا اتفاق ضرور ہوا لیکن وہاں جا کر جو دکھ پہنچا وہ بیان سے باہر ہے۔ کون عطیہ فیضی اور کون فیضی رحمین۔۔۔؟ چند لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ افسوس کہ آرٹس کونسل کی ایک معروف ادبی شخصیت جنھیں آغا نور محمد پٹھان ''ادب کا انسائیکلوپیڈیا'' کہتے ہیں، وہ عطیہ اور ان کے شوہر کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے لیکن وہاں سے بھی کسی نے عطیہ فیضی کے لیے کنڈی نہ کھولی۔ تب مجھے اس موقع پر یہ شعر بہت یاد آیا اور اس کی معنویت اور گہرائی کو میں نے اندر سے محسوس کیا۔ مومن نے کیا خوب کہا:
پہنچے وہ لوگ رتبے کو' کہ مجھے
شکوۂ بخت ِ نا رسا نہ رہا
عطیہ فیضی 1877ء میں استنبول میں پیدا ہوئیں اور 4 جنوری 1967ء میں کراچی کے جناح اسپتال میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں انتقال کر گئیں۔ ٹھیک اپنے شوہر کی وفات کے سوا دو سال بعد ۔ دونوں کی تاریخ وفات اور قبروں کا پتہ بھی معروف محقق عقیل عباس جعفری کی نہایت اہم تالیف ''پاکستان کرونیکل'' سے ملا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دونوں میوہ شاہ میں سلیمانی بوہروں کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔
عطیہ بیگم کوئی بہت حسین و جمیل خاتون نہ تھیں بلکہ ان کی شہرت کی وجہ ان کا مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا، رقص، موسیقی اور ادب کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے جید عالم علامہ شبلی نعمانی کے علاوہ جارج برنارڈ شا اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے ان کے خاندانی اور ذاتی مراسم کو بڑا دخل ہے۔ عطیہ نے اس وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک اسکالرشپ حاصل کی جب کہ عام مسلمان عورتیں اس وقت واجبی سی تعلیم کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتی تھیں۔ عطیہ نے 1906ء میں لندن کا بحری سفر کیا۔ ان کے ساتھ مسز سروجنی داس نائیڈو بھی تھیں۔ عطیہ نے لندن میں قیام کے دوران جو روزنامچہ لکھا وہ ''تہذیب نسواں'' میں قسط وار چھپنے کے بعد ''زمانہ تحصیل'' کے نام سے کتابی شکل میں بھی شایع ہوا۔ ''تہذیب نسواں'' اپنے وقت کا نہایت اہم پرچا تھا اور اس کی مدیرہ محمد بیگم تھیں جو مولوی ممتاز علی کی اہلیہ اور امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں اور خود بھی کئی کتابوں کی مصنفہ تھیں۔
عطیہ بیگم نے اس وقت پیرس کی یونیورسٹی میں اپنا لیکچر دیا جب برصغیر کی خواتین اپنے اصلی ناموں کے بجائے باپ، شوہر یا بیٹے کے ناموں سے اپنی تحریریں مختلف پرچوں میں چھپواتی تھیں۔ ''تہذیب نسواں'' اور ''خاتون'' اس حوالے سے نہایت اہم پرچے تھے۔ 1880ء میں فیضی رحمین جو کہ یہودی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، نے اسلام قبول کرنے کے بعد عطیہ سے بمبئی میں شادی کی۔ ان کا شمار اس وقت کے ایسے آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جن کی تصاویر لندن اور فرانس کی آرٹ گیلریوں میں بھاری معاوضوں پہ خرید کر لگائی جاتی رہیں۔ عطیہ اب عطیہ فیضی ہو گئی تھیں۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ تھیں لیکن سوائے ایک ''زمانہ تحیصل'' کے سب انگریزی میں ہیں اور ان کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ان کی تین کتابیں موسیقی کے فن پر ہیں ۔
(1) Indian Music. (1914)
(2) The Music of India (1925)
(3) Sangeet of Indian (1942)
ان کی سب سے اہم تصنیف علامہ اقبال پر ہے جس کا اردو ترجمہ ضیا الدین احمد برنی نے کیا۔ عطیہ فیضی نے علامہ اقبال کو اسی طرح علمی و ادبی طور پر متاثر کیا جس طرح ڈاکٹر رشید جہاں نے فیض کو کیا تھا۔ عطیہ فیضی کے نام لکھے گئے اقبال کے وہ تمام خطوط جو انگریزی میں تھے انھیں عطیہ نے کتابی شکل دے دی۔ ان خطوط میں اقبال ایک مختلف انسان نظر آتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ انسانی پہلو ان کی فلسفیانہ شاعری سے بالکل الگ ہے۔ ان خطوط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کون کون سی نظمیں اقبال نے عطیہ فیضی کے لیے بحیثیت قریبی دوست کہی ہیں۔ عطیہ فیضی جن کی وفات 4 جنوری کو ہوئی تھی ان کی خدمات کے اعتراف کے لیے ایک کالم نہایت ناکافی ہے۔ باقی باتیں آئندہ ہوں گی۔