ایزی پیسہ لوڈ کرائیں سینیٹر بن جائیں
اﷲ تعالیٰ نے انسان کے ضمیرکو خودمختار بنایا ہے، اسے صاحب ضمیرکے کردارکی رونمائی پہ چھوڑ دیجیے۔
KARACHI:
انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے... سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ کسی کی خامی دیکھو تو دل میں رکھو، بیان کرو گے تو غیبت ہوگی اور سنی سنائی بات آگے بڑھاؤ گے تو جھوٹ ہوگا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس معاملے میں بڑے محتاط رہتے تھے، اب معاملہ یہ کہ دین سے نابلد اور جنھوں نے حدیث پاک کی ایک کتاب بھی نہ اٹھائی ہو ان کے لہجے اورفراست کے ابواب اس طرح ہیں کہ جیسے وہ خلفائے راشدین(معاذ اللہ)ہوں، آج کے دور میں یہ کہنا بہت آسان ہے کہ '' میں صحیح ہوں آپ غلط'' اتنا موقع بھی نہیں دیتے کہ جسے غلط ہونے کا فتویٰ عنایت فرما رہے ہیں۔
اس کی صفائی میں دلیل تو سن لیں، ممکن ہے کہیں وہ بھی درست ہو، تاہم اپنوں کے سامنے اچھا بننے کے لیے بہترین گر یہ ہے کہ تہمات اور الزامات کا سارا ملبہ اس مبینہ گرے ہوئے انسان پہ ڈال دیں، اس کی ایک یا دو خامیوں کو نشر مکررکی طرح اپنی خود ساختہ محافل میں باقاعدہ پروگرام بنا کر چلائیں اور بھول جائیں اس کی اچھائیاں، اس کا حسن سلوک، اس کی نیکیاں اورکچھ ایسے محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیے گئے ناقابل بیان عمل کہ جن کا ذکر نبی کریمؐ کو ناراض کر دے گا، لہٰذا اجر کے لیے خاموشی مناسب ہے۔
پتہ نہیں بار بار ڈسا جانے والا پھر سے ایک بار نومولود کی طرح مفادات کے پیشواؤں کو اپنا سمجھنے کی پھر سے سنگین غلطی کر بیٹھتا ہے۔کسی نے مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے عرض کیا جب ستار العیوب ذاتی معاملات پر پردہ ڈال دیتا ہے تو پھر اﷲ کے بندے اس پردے کو کیوں پھاڑ دیتے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا ''کسی کا راز تلاش مت کرو، مل جائے تو فاش مت کرو'' تاہم یہاں صورت حال عجیب ہے، سیکرٹ بیلٹنگ اور شو آف ہینڈ کے موافقین اور مخالفین کے درمیان لاحاصل بحث، ایک فریق کی جانب سے آرڈیننس کے اجرا کے بعد جس شدت کا رخ اختیارکر چکی ہے۔
اس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ ہی کرے گا مگر میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سیکرٹ بیلٹ سے تکلیف کیا ہے؟ جب شو آف ہینڈ کا ارادہ کر ہی لیا تھا تو پولنگ بوتھز میں چھت پر خفیہ کیمرا لگا دیتے (میں جدید خفیہ کیمروں کی کارکردگی سے خوب واقف ہوں) کیمرہ ہاتھ کی تصویر لیتا اور ٹھپا کس نے کہاں لگایا ہے سب واضح ہو جاتا لیکن یہاں مسئلہ بناتے دیرکتنی لگتی ہے؟ شو آف ہینڈ بھی تو یہی ہے، پتہ چل جائے کون کہاں کھڑا ہے؟
اﷲ تعالیٰ نے انسان کے ضمیرکو خودمختار بنایا ہے، اسے صاحب ضمیرکے کردارکی رونمائی پہ چھوڑ دیجیے، اچھا ہے نا منافقین سامنے آجائیں گے ورنہ دوستوں کے پاس بیماریوں کے بہانے بہت ہیں بالخصوص کورونا بے ضمیروں کی خوب مدد کرے گا ۔
اﷲ ہنساتاہے تو ہنستے جاؤ، رُلاتا ہے تو روتے جاؤ، چیزیں دیتا ہے تو قبول کرو اور واپس لے لے تو راضی رہو، پہلے بھی خریداروں نے بولیاں لگائیں اور بکاؤ بکے، جنھیں بِکنا ہے وہ اب بھی بکیں گے، ووٹ کی اگر عزت ہوتی ہے تو اس کی رازداری بھی عزت ہے، یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ کھانا ہضم نہ ہو تو بیماری شروع، دولت ہضم نہ ہو توفیشن شروع، بات ہضم نہ ہو تو چغلی شروع، تعریف ہضم نہ ہو تو تکبر شروع، تنقید ہضم نہ ہو تو ناراضگی شروع، دکھ ہضم نہ ہو تونا امیدی شروع اور سکھ ہضم نہ تو عیاشی شروع ہر بار قصور تربیت کا نہیں ہوتا، کچھ رنگ صحبتوں کے بھی چڑھتے ہیں۔
انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے... سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ کسی کی خامی دیکھو تو دل میں رکھو، بیان کرو گے تو غیبت ہوگی اور سنی سنائی بات آگے بڑھاؤ گے تو جھوٹ ہوگا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس معاملے میں بڑے محتاط رہتے تھے، اب معاملہ یہ کہ دین سے نابلد اور جنھوں نے حدیث پاک کی ایک کتاب بھی نہ اٹھائی ہو ان کے لہجے اورفراست کے ابواب اس طرح ہیں کہ جیسے وہ خلفائے راشدین(معاذ اللہ)ہوں، آج کے دور میں یہ کہنا بہت آسان ہے کہ '' میں صحیح ہوں آپ غلط'' اتنا موقع بھی نہیں دیتے کہ جسے غلط ہونے کا فتویٰ عنایت فرما رہے ہیں۔
اس کی صفائی میں دلیل تو سن لیں، ممکن ہے کہیں وہ بھی درست ہو، تاہم اپنوں کے سامنے اچھا بننے کے لیے بہترین گر یہ ہے کہ تہمات اور الزامات کا سارا ملبہ اس مبینہ گرے ہوئے انسان پہ ڈال دیں، اس کی ایک یا دو خامیوں کو نشر مکررکی طرح اپنی خود ساختہ محافل میں باقاعدہ پروگرام بنا کر چلائیں اور بھول جائیں اس کی اچھائیاں، اس کا حسن سلوک، اس کی نیکیاں اورکچھ ایسے محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیے گئے ناقابل بیان عمل کہ جن کا ذکر نبی کریمؐ کو ناراض کر دے گا، لہٰذا اجر کے لیے خاموشی مناسب ہے۔
پتہ نہیں بار بار ڈسا جانے والا پھر سے ایک بار نومولود کی طرح مفادات کے پیشواؤں کو اپنا سمجھنے کی پھر سے سنگین غلطی کر بیٹھتا ہے۔کسی نے مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے عرض کیا جب ستار العیوب ذاتی معاملات پر پردہ ڈال دیتا ہے تو پھر اﷲ کے بندے اس پردے کو کیوں پھاڑ دیتے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا ''کسی کا راز تلاش مت کرو، مل جائے تو فاش مت کرو'' تاہم یہاں صورت حال عجیب ہے، سیکرٹ بیلٹنگ اور شو آف ہینڈ کے موافقین اور مخالفین کے درمیان لاحاصل بحث، ایک فریق کی جانب سے آرڈیننس کے اجرا کے بعد جس شدت کا رخ اختیارکر چکی ہے۔
اس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ ہی کرے گا مگر میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سیکرٹ بیلٹ سے تکلیف کیا ہے؟ جب شو آف ہینڈ کا ارادہ کر ہی لیا تھا تو پولنگ بوتھز میں چھت پر خفیہ کیمرا لگا دیتے (میں جدید خفیہ کیمروں کی کارکردگی سے خوب واقف ہوں) کیمرہ ہاتھ کی تصویر لیتا اور ٹھپا کس نے کہاں لگایا ہے سب واضح ہو جاتا لیکن یہاں مسئلہ بناتے دیرکتنی لگتی ہے؟ شو آف ہینڈ بھی تو یہی ہے، پتہ چل جائے کون کہاں کھڑا ہے؟
اﷲ تعالیٰ نے انسان کے ضمیرکو خودمختار بنایا ہے، اسے صاحب ضمیرکے کردارکی رونمائی پہ چھوڑ دیجیے، اچھا ہے نا منافقین سامنے آجائیں گے ورنہ دوستوں کے پاس بیماریوں کے بہانے بہت ہیں بالخصوص کورونا بے ضمیروں کی خوب مدد کرے گا ۔
اﷲ ہنساتاہے تو ہنستے جاؤ، رُلاتا ہے تو روتے جاؤ، چیزیں دیتا ہے تو قبول کرو اور واپس لے لے تو راضی رہو، پہلے بھی خریداروں نے بولیاں لگائیں اور بکاؤ بکے، جنھیں بِکنا ہے وہ اب بھی بکیں گے، ووٹ کی اگر عزت ہوتی ہے تو اس کی رازداری بھی عزت ہے، یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ کھانا ہضم نہ ہو تو بیماری شروع، دولت ہضم نہ ہو توفیشن شروع، بات ہضم نہ ہو تو چغلی شروع، تعریف ہضم نہ ہو تو تکبر شروع، تنقید ہضم نہ ہو تو ناراضگی شروع، دکھ ہضم نہ ہو تونا امیدی شروع اور سکھ ہضم نہ تو عیاشی شروع ہر بار قصور تربیت کا نہیں ہوتا، کچھ رنگ صحبتوں کے بھی چڑھتے ہیں۔