زبان کی سیاست

سیاسی پارٹیاں سنسنی خیز نعرے وقتاً فوقتاً لگاتی رہتی ہیں جن سے ان کی بات میں ذرا گرمی پیدا ہو جائے


Amjad Islam Amjad January 04, 2014
[email protected]

آج کے اخبارات میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین صاحب کا ایک بیان اُسی طرح کی سرخیوں کے ساتھ شایع ہوا جیسے ستر کی دہائی کے آغاز میں یہ شہ سرخی کہ ''اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے'' سیاسی پارٹیاں ایسے سنسنی خیز نعرے وقتاً فوقتاً لگاتی رہتی ہیں جن سے ان کی بات میں ذرا گرمی پیدا ہو جائے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ ''توجہ طلبی'' بہرحال ان کے وجود کا ایک حصہ ہے (اگرچہ مذہب اور سیاسی طور پر بالغ نظر معاشروں میں اس کا ایک معیار ہمیشہ قائم رکھا جاتا ہے) یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بھارتی علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد سندھ کے چار علاقوں (کراچی، حیدر آباد، سکھر، میر پور خاص) میں اس طرح آباد ہو گئی کہ ان کی تعداد وہاں کی لوکل آبادی سے بھی بڑھ گئی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں بھی مؤاخاتِ مدینہ کی پیروی میں ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جاتا جس میں اگر پہلی نہیں تو کم از کم مہاجرین اور انصاری کی دوسری نسلیں اپنا ایک ایسا نیا مشترکہ تشخص قائم کر لیتیں جس میں ان کی اپنی اپنی مخصوص تہذیب بھی قائم رہتی اور ایک ایسی پہچان بھی استوار ہو جاتی جس کی بنیاد محبت، خلوص، رواداری، باہمی احترام اور پاکستانیت پر قائم ہوتی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اور مہاجرین کی دوسری نسل کے نوجوان (جن کی قیادت کے حوالے سے الطاف حسین منظر عام پر آئے) یہ محسوس کرنے لگے کہ انھیں سیاستدانوں کی غلط کاریوں کے باعث ترقی کرنے کے لیے وہ راستے نہیں مل رہے جو ان کا جائز حق ہے۔ چونکہ ان کے اس تاثر اور ردعمل میں بہت حد تک صداقت موجود تھی چنانچہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نئی نسل نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی اس جماعت کی ''کھل کر حمایت شروع کر دی جس کے لیڈر'' ان ہی کی طرح غریب اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔

عام طور پر ایم کیو ایم (جس کا پہلا نام مہاجر قومی موومنٹ تھا) کے قیام کا سلسلہ جنرل ضیاء الحق کی حکومتی پالیسیوں سے جوڑا جاتا ہے کہ انھوں نے کراچی میں مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کا زور توڑنے کے لیے الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کی پشت پناہی کی تھی۔ اس تجزیے میں جزوی صداقت تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ جماعت ابتداء میں ان جوشیلے، تعلیم یافتہ، پر خلوص اور اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے کھڑے ہونے والوں کی ایک جماعت تھی اور اس کے بیشتر مطالبے بالکل درست، جائز اور صحیح تھے یہی وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت میں دیکھتے ہی دیکھتے بے پناہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور پھر ایک وقت آیا جب یہ جماعت عملی طور پر صوبہ سندھ کے شہری علاقوں پر مکمل طور سے قابض ہو گئی۔ اس دور میں اس کی قیادت نے ایک بہت اہم اور اچھا فیصلہ یہ کیا کہ اس کے نام کے ابتدائی لفظ ''مہاجر'' کو ''متحدہ'' سے بدل دیا یہ گویا ایک اعلان تھا کہ یہ کسی مخصوص شہر، صوبے، تہذیب یا زبان بولنے والوں کی جماعت نہیں بلکہ پوری قوم کی آواز ہے۔

ایک اور بہت مثبت اور تاریخی قدم اس جماعت نے یہ اٹھایا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار نہ صرف غریب اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو انتخابی ٹکٹ دیے گئے بلکہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ تعلیم اور شعور کے فروغ کی وساطت سے یہ جماعت پاکستان کے دیہی اور استحصال زدہ علاقوں میں بھی اسی قسم کا انقلاب لائے گی اور وڈیروں، چوہدریوں، سرداروں اور خانوں کے اس روایتی تسلط کو ختم کر کے دم لے گی جس کی وجہ سے ہماری اسمبلیاں عوام کے بجائے عوام دشمن نمائندوں سے بھری ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کہ یہ شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے جیسی بات تھی مگر ہوا یہ کہ اقتدار میں آنے کے بعد روایتی انقلابی جماعتوں کی طرح ایم کیوایم بھی اندرونی تضادات کا شکار ہونے لگی اور اس کا ملک گیر مشن سکڑ کر ان چند علاقوں تک محدود ہو گیا جہاں اس کی عددی اکثریت کا تعلق گروہی، نسلی، تہذیبی اور لسانی حوالوں سے متعین ہوتا تھا، یعنی عملی طور پر متحدہ نے پھر سے ''مہاجر'' کے متروک تشخص کو اپنانا شروع کر دیا جس کی تازہ تر مثال الطاف بھائی کا حالیہ بیان ہے جس میں انھوں نے ''اُردو'' بولنے والوں کے لیے علیحدہ صوبے کا نعرہ ایک بار پھر بلند کیا ہے جو میری ذاتی رائے میں پاکستان اور ایم کیو ایم دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرناک ہے۔

اگر اُردو بولنے والوں کو مادری زبان کے حوالے سے شمار کیا جائے تو ان کی کل تعداد ملکی آبادی کا تقریباً 7% بنتی ہے لیکن عملی طور پر تو یہ زبان سارے پاکستان میں قومی اور رابطے کی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔ پاکستان کے ہر صوبے میں زیادہ تر لوگ اپنے بچوں سے اُردو میں بات کرتے ہیں جس پر ان کے بعض اوقات طعنے بھی سننا پڑتے ہیں مگر امرِ واقعہ یہی ہے کہ فی الوقت اُردو کے بیشتر ادیب غیر اہلِ زبان ہیں، سو لسانی حوالے سے یہ لکیر کھینچنا سراسر ایم کیو ایم کے نقصان میں ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو سمندر کے بجائے ایک ایسے چھوٹے سے دریا کی شکل میں محدود کر لے گی جو سمندر کے ساتھ ساتھ ان نہروں سے بھی کٹ جائے گا جو پہاڑوں سے آنے والے تازہ پانیوں سے بھری رہتی ہیں۔ ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنما میرے ذاتی دوست اور شناسا ہیں۔

اس وقت ان کے نام لے کر انھیں خوامخواہ کے کسی مسئلے میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا لیکن اتنا مشورہ ضرور دوں گا کہ سیاسی ہتھکنڈوں کی سطح پر وہ بے شک مروجہ طریقے اختیار کرتے رہیں (اگرچہ پڑھے لکھے اور باشعور افراد کے حوالے سے انھیں اس روش کو بھی ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے) لیکن برائے خدا زبان کو اس فہرست سے نکال دیں اردو کو صرف ''اہل زبان'' تک محدود کرنے کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے کوئی گِھرا ہوا فوجی دستہ اپنی کمک کے تمام راستے خود ہی بند کر دے۔ ان 93% لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں جن کی مادری زبان اُردو نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اردو بولنے اور اپنے بچوں کو اس زبان کی تعلیم دینے میں دل و جان سے مصروف ہیں۔ زبان کی بنیاد پر ملک اور صوبہ تو کیا کوئی شہر اور محلہ بھی اول تو قائم ہی نہیں ہو سکتا اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو اس کی زندگی چار دن سے زیادہ تو کیا چار دن بھی نہیں ہو سکتی۔

سو الطاف بھائی اور ان کے ''مشیروں'' سے یہی درخواست ہے کہ زبان کے مسئلے کو سیاست سے الگ رکھیں کہ یہ تباہی کا ایک ایسا راستہ ہے جو ہمہ گیر بھی ہے اور ہمہ جہت بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں