السلام علیکم
مصافحہ و معانقہ کرنا اسلام کا طریقہ ہے۔ کسی کو سلام کرنا اچھے طور طریقوں اور بہترین اصولوں کی نشاندہی کرتا ہے
یقیناً قارئین کرام نے وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ ضرور کہا ہوگا۔ اب ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ کیا حال ہے جناب کا؟ ہاں اتنا ضرور کہیں گے کہ ہر ملک میں مخاطب کرنے کے بہت سے الفاظ ہیں جو ملاقات کرتے وقت ادا کیے جاتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک میں ''نمستے'' اور ''رام رام'' کے الفاظ کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو انکساری و محبت کے ساتھ جوڑنے کا بھی رواج ہے۔ سلام محبت، تسلیمات، آداب عرض ہے اور ہیلو، ہائے، گڈ مارننگ (گڈ کے ساتھ آپ اوقات شامل کرسکتے ہیں) وغیرہ۔ ان تمام الفاظ کی ادائیگی میں خلوص کا عنصر شامل ہوتا ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کچھ دیر گفتگو ایک اچھے اور خوشگوار ماحول میں ممکن ہے۔
پڑوسی ملک کے اثرات خصوصاً تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کے حوالے سے ہمارے ملک کے باسیوں پر بہت تیزی کے ساتھ مرتب ہوئے ہیں، اور اکثر حضرات ان کی پیروی کرتے ہوئے سلام کے بجائے ہاتھ جوڑنا ہی مناسب خیال کرتے ہیں، ایسا کرنے سے وہ اپنے پڑوسیوں کو خوش کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ خیر جانے دیں اس بات کو، دوسری بات کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں اپنی مادری زبان ''اردو'' کا حشر نشر کردیا گیا ہے۔ چند ٹی وی اینکرز کے علاوہ اکثریت اردو غلط بولتی اور لکھتی ہے۔ ٹی وی پر جو پٹی چل رہی ہوتی ہے اس میں اس میٹھی اور پیاری زبان کا کچومر نکال کر نذر ناظرین کردیا جاتا ہے۔ جس کی تھوڑی بہت اردو صحیح ہے، اس بے چارے کو ذہنی تکلیف پہنچتی ہے۔ تذکیر و تانیث میں بھی بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں، میں کو ''میّں'' ایسا کو ''ایّسا'' ویسا کو ''ویّسا'' خوب خوب بولا جاتا ہے۔ کبھی اس طرح بات کی جاتی تھی کہ ''جناب میں عرض کر رہا تھا، میں یہ کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔'' لیکن اب انداز تکلم یہ ہے ملاحظہ فرمائیے: ''میں بول ریا تھا کہ فلاں فلاں جگہ دھماکے کی آواز سننے میں آرئی ائے، انھوں نے بہت دفعہ بولا لیکن وہ سنتے نہیں''۔ ''کہا'' کے بجائے ''بولا، بولا'' کی گردان سننا پڑتی ہے، جو کانوں کو کوے کی آواز کی طرح بری معلوم ہوتی ہے۔
ایسے اینکرز کو ٹریننگ دینے اور اردو کے صحیح تلفظ کی ادائیگی کے لیے درس و تدریس کی ضرورت ہے۔ خبرنامے میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ ایک لفظ ہے ''زیاں'' اور دوسرا ہے ''ضیا'' جس کا مطلب ''روشنی'' اور زیاں کا مطلب ''نقصان'' لیکن دونوں ایک دوسرے کے متبادل خوب خوب لکھے جاتے ہیں۔ ضیاع فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب خسارہ ،نقصان ہے۔ اسی طرح ''طلبا، طلبہ اور طالبات'' میں بھی کسی قسم کی تفریق نہیں برتی جاتی، پہلا لفظ صرف لڑکوں کے لیے دوسرا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے اور تیسرا یعنی طالبات صرف لڑکیوں کے لیے، لیکن اعلیٰ حضرات لکھتے وقت خوب خوب غلطیاں کرتے ہیں۔ بس بات یہ ہے کہ کام چلایا جارہا ہے۔ افراتفری اور خود غرضی کا عالم ہے، جو جس کا عزیز ہوا، اسے موقع دے دیا گیا، ٹیلنٹ و صلاحیت کی ضرورت ہی نہیں، بس جلدی جلدی کام نمٹا لو، پھر موقع ملے نہ ملے، ورنہ تو ہمارے ملک میں بڑے عالم فاضل اساتذہ موجود ہیں جو اردو و فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی خدمات لینے کے بجائے اپنوں کی خدمات میں پیش پیش ہیں۔
ایک وقت تھا جب طالب علم ٹی وی کے پروگرام دیکھ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ ٹی وی دیکھ کر جو کچھ آتا ہے وہ بھی بھولنے کی باری آگئی ہے اور وہ جو کہتے ہیں ناں ''نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان'' تو ٹی وی کے پروگراموں میں نیم کا بہت زیادہ دخل ہوچکا ہے۔ نیم کا درخت تو ہر لحاظ سے فائدہ مند ہے، بہت سی جلدی بیماریوں کا معالج، جراثیم کش، ٹھنڈک اور سکون کا باعث، لیکن ٹی وی کا نیم باعث نقصان ہے۔
ٹی وی پر ہر روز مختلف نوعیت کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں، ان پروگراموں میں مہمان آتے ہیں، سلام دعا ہوتی ہے۔ مہمان کہتا ہے ''اسام لیکم''۔ میزبان ''وعائیکم''۔ کچھ مہمان ''سائکم'' کہنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہماری عام زندگی میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو پورا سلام نہیں کرتے۔ ''اساعیکم ، سامالیکم'' وغیرہ وغیرہ۔ ایک ادبی پروگرام میں ہماری بھی شرکت تھی ایک معروف شاعرہ تشریف لائیں، باآواز بلند سلام کا نعرہ کچھ اس طرح لگایا ''سلاوعلیکم ، سلاوعلیکم'' ہم ان کا یہ طرز سخن سن کر ایک لمحے کے لیے سناٹے میں آگئے۔ موصوفہ دور دراز کے ملکوں میں بھی تشریف لے جاتی ہیں۔ کیا سوچتے ہوں گے باہر کے لوگ کہ پاکستانیوں کو سلام کرنا بھی نہیں آتا ہے۔ ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''السلام علیکم'' اور ''اساعلیکم'' وغیرہ کے معنوں کے ساتھ پمفلٹ تقسیم کیے جا رہے ہیں تاکہ ایک دوسرے پر سلامتی کی ہی دعا کی جائے، بددعا کے الفاظ ببانگ دہل نہ ادا کیے جائیں۔ سلام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سلام میں پہل کرنا زیادہ افضل ہے اور اس کے درست الفاظ یہ ہیں ''السلام علیکم''۔ (تم پر سلامتی ہو)۔
''اسام علیکم'' (تم کو موت آئے)۔ ''سلالیکم'' (تم پر لعنت ہو)۔ ''اسلاعلیکم''(تم خوشی کو ترسو)۔ ''سام علیکم'' (تم برباد ہو)۔ جیسے جیسے باشعور حضرات کو کسی اچھی بات کا علم ہوتا ہے تو وہ اپنی سابقہ کوتاہیوں پر قابو پالیتے ہیں اور یہ ایک اچھی بات ہے، اب اکثریت فون اٹینڈ کرتے وقت ''السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ'' ہی کہتی ہے۔ یقیناً ایک دوسرے کے لیے سلامتی و خیر کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ ''کر بھلا، ہو بھلا'' والی بات زیادہ بہتر اور کامیابیوں و خوشیوں کی ضامن ہوتی ہے۔ سلام کرنا، مصافحہ و معانقہ کرنا اسلام کا طریقہ ہے۔ کسی کو سلام کرنا اچھے طور طریقوں اور بہترین اصولوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بہت سے ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو سلام کا جواب یا تو سر ہلاکر دیتے ہیں یا پھر جواب ہی نہیں دیتے۔ ان کے ایسا کرنے سے ان کے عزت و مرتبے میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہوتی ہے۔ ہم نے اکثر ایسے لوگوں کے لیے لوگوں کی زبان سے برے الفاظ کو نکلتے دیکھا ہے کہ ''نہ جانے کیا سمجھتا ہے، ارے یار! بڑا ہوگا اپنے لیے، ہمیں کیا دے رہا ہے؟ اتنا تو یہ شخص بدتہذیب ہے، سلام کا جواب تک دینا نہیں جانتا، مغرور کہیں کا''۔ غرور کا سر نیچا۔ سچ ہی تو کہتے ہیں کہنے والے کہ غرور کرنے والوں کا سر ایک دن سب کے سامنے نیچا ہی نہیں بلکہ بہت نیچا ہوجاتا ہے۔
پڑوسی ملک کے اثرات خصوصاً تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کے حوالے سے ہمارے ملک کے باسیوں پر بہت تیزی کے ساتھ مرتب ہوئے ہیں، اور اکثر حضرات ان کی پیروی کرتے ہوئے سلام کے بجائے ہاتھ جوڑنا ہی مناسب خیال کرتے ہیں، ایسا کرنے سے وہ اپنے پڑوسیوں کو خوش کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ خیر جانے دیں اس بات کو، دوسری بات کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں اپنی مادری زبان ''اردو'' کا حشر نشر کردیا گیا ہے۔ چند ٹی وی اینکرز کے علاوہ اکثریت اردو غلط بولتی اور لکھتی ہے۔ ٹی وی پر جو پٹی چل رہی ہوتی ہے اس میں اس میٹھی اور پیاری زبان کا کچومر نکال کر نذر ناظرین کردیا جاتا ہے۔ جس کی تھوڑی بہت اردو صحیح ہے، اس بے چارے کو ذہنی تکلیف پہنچتی ہے۔ تذکیر و تانیث میں بھی بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں، میں کو ''میّں'' ایسا کو ''ایّسا'' ویسا کو ''ویّسا'' خوب خوب بولا جاتا ہے۔ کبھی اس طرح بات کی جاتی تھی کہ ''جناب میں عرض کر رہا تھا، میں یہ کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔'' لیکن اب انداز تکلم یہ ہے ملاحظہ فرمائیے: ''میں بول ریا تھا کہ فلاں فلاں جگہ دھماکے کی آواز سننے میں آرئی ائے، انھوں نے بہت دفعہ بولا لیکن وہ سنتے نہیں''۔ ''کہا'' کے بجائے ''بولا، بولا'' کی گردان سننا پڑتی ہے، جو کانوں کو کوے کی آواز کی طرح بری معلوم ہوتی ہے۔
ایسے اینکرز کو ٹریننگ دینے اور اردو کے صحیح تلفظ کی ادائیگی کے لیے درس و تدریس کی ضرورت ہے۔ خبرنامے میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ ایک لفظ ہے ''زیاں'' اور دوسرا ہے ''ضیا'' جس کا مطلب ''روشنی'' اور زیاں کا مطلب ''نقصان'' لیکن دونوں ایک دوسرے کے متبادل خوب خوب لکھے جاتے ہیں۔ ضیاع فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب خسارہ ،نقصان ہے۔ اسی طرح ''طلبا، طلبہ اور طالبات'' میں بھی کسی قسم کی تفریق نہیں برتی جاتی، پہلا لفظ صرف لڑکوں کے لیے دوسرا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے اور تیسرا یعنی طالبات صرف لڑکیوں کے لیے، لیکن اعلیٰ حضرات لکھتے وقت خوب خوب غلطیاں کرتے ہیں۔ بس بات یہ ہے کہ کام چلایا جارہا ہے۔ افراتفری اور خود غرضی کا عالم ہے، جو جس کا عزیز ہوا، اسے موقع دے دیا گیا، ٹیلنٹ و صلاحیت کی ضرورت ہی نہیں، بس جلدی جلدی کام نمٹا لو، پھر موقع ملے نہ ملے، ورنہ تو ہمارے ملک میں بڑے عالم فاضل اساتذہ موجود ہیں جو اردو و فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی خدمات لینے کے بجائے اپنوں کی خدمات میں پیش پیش ہیں۔
ایک وقت تھا جب طالب علم ٹی وی کے پروگرام دیکھ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ ٹی وی دیکھ کر جو کچھ آتا ہے وہ بھی بھولنے کی باری آگئی ہے اور وہ جو کہتے ہیں ناں ''نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان'' تو ٹی وی کے پروگراموں میں نیم کا بہت زیادہ دخل ہوچکا ہے۔ نیم کا درخت تو ہر لحاظ سے فائدہ مند ہے، بہت سی جلدی بیماریوں کا معالج، جراثیم کش، ٹھنڈک اور سکون کا باعث، لیکن ٹی وی کا نیم باعث نقصان ہے۔
ٹی وی پر ہر روز مختلف نوعیت کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں، ان پروگراموں میں مہمان آتے ہیں، سلام دعا ہوتی ہے۔ مہمان کہتا ہے ''اسام لیکم''۔ میزبان ''وعائیکم''۔ کچھ مہمان ''سائکم'' کہنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہماری عام زندگی میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو پورا سلام نہیں کرتے۔ ''اساعیکم ، سامالیکم'' وغیرہ وغیرہ۔ ایک ادبی پروگرام میں ہماری بھی شرکت تھی ایک معروف شاعرہ تشریف لائیں، باآواز بلند سلام کا نعرہ کچھ اس طرح لگایا ''سلاوعلیکم ، سلاوعلیکم'' ہم ان کا یہ طرز سخن سن کر ایک لمحے کے لیے سناٹے میں آگئے۔ موصوفہ دور دراز کے ملکوں میں بھی تشریف لے جاتی ہیں۔ کیا سوچتے ہوں گے باہر کے لوگ کہ پاکستانیوں کو سلام کرنا بھی نہیں آتا ہے۔ ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''السلام علیکم'' اور ''اساعلیکم'' وغیرہ کے معنوں کے ساتھ پمفلٹ تقسیم کیے جا رہے ہیں تاکہ ایک دوسرے پر سلامتی کی ہی دعا کی جائے، بددعا کے الفاظ ببانگ دہل نہ ادا کیے جائیں۔ سلام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سلام میں پہل کرنا زیادہ افضل ہے اور اس کے درست الفاظ یہ ہیں ''السلام علیکم''۔ (تم پر سلامتی ہو)۔
''اسام علیکم'' (تم کو موت آئے)۔ ''سلالیکم'' (تم پر لعنت ہو)۔ ''اسلاعلیکم''(تم خوشی کو ترسو)۔ ''سام علیکم'' (تم برباد ہو)۔ جیسے جیسے باشعور حضرات کو کسی اچھی بات کا علم ہوتا ہے تو وہ اپنی سابقہ کوتاہیوں پر قابو پالیتے ہیں اور یہ ایک اچھی بات ہے، اب اکثریت فون اٹینڈ کرتے وقت ''السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ'' ہی کہتی ہے۔ یقیناً ایک دوسرے کے لیے سلامتی و خیر کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ ''کر بھلا، ہو بھلا'' والی بات زیادہ بہتر اور کامیابیوں و خوشیوں کی ضامن ہوتی ہے۔ سلام کرنا، مصافحہ و معانقہ کرنا اسلام کا طریقہ ہے۔ کسی کو سلام کرنا اچھے طور طریقوں اور بہترین اصولوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بہت سے ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو سلام کا جواب یا تو سر ہلاکر دیتے ہیں یا پھر جواب ہی نہیں دیتے۔ ان کے ایسا کرنے سے ان کے عزت و مرتبے میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہوتی ہے۔ ہم نے اکثر ایسے لوگوں کے لیے لوگوں کی زبان سے برے الفاظ کو نکلتے دیکھا ہے کہ ''نہ جانے کیا سمجھتا ہے، ارے یار! بڑا ہوگا اپنے لیے، ہمیں کیا دے رہا ہے؟ اتنا تو یہ شخص بدتہذیب ہے، سلام کا جواب تک دینا نہیں جانتا، مغرور کہیں کا''۔ غرور کا سر نیچا۔ سچ ہی تو کہتے ہیں کہنے والے کہ غرور کرنے والوں کا سر ایک دن سب کے سامنے نیچا ہی نہیں بلکہ بہت نیچا ہوجاتا ہے۔