گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ویسے بھی پاکستان میں آج تک جو کام سب سے زیادہ ہوتا رہا ہے، وہ یہی تماشے دکھانا ہی تو ہے
کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کب کسی چیز کی قسمت جاگتی ہے اور کب سوتی ہے۔ سب کچھ اچانک ہوتا ہے۔ شاعر نے بھی یہی رونا رویا ہے کہ
بخت جب بیدار تھا کم بخت آنکھیں سو گئیں
سو گیا جب بخت تو بیدار آنکھیں ہو گئیں
کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ایک دن اچانک لفظ ''تماشا'' کا اتنا بڑا تماشا بنے گا کہ تماشا بھی تماشا بن کر رہ جائے گا اور ملک بھر کے سارے تماشے اچانک اس تماشے کے نیچے دب جائیں گی اور پھر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مٹی تو تماش بینوں کے لیے اتنی تماشا خیز ہے کہ ہر تماشا اس کے سامنے تماشا بن کر رہ جاتا ہے کیوں کہ یہاں ہر تماشے کو تماشا بنانے کے لیے نت نئے تماشے برپا کیے جاتے ہیں تا کہ اصل تماشے کا تماشا تماشائی اور تماش بین دونوں نہ کر سکیں، غالبؔ نے غالباً اس عالمی تماش گاہ ہی کے لیے کہا تھا کہ
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
یہ تو ہم بتا نہیں پائیں گے کہ لفظ ''تماشا'' پارلیمانی ہے یا غیر پارلیمانی، کیوں کہ پارلیمانی یا غیر پارلیمانی الفاظ کی کوئی ڈکشنری بازار میں دستیاب نہیں اور نہ ہی ہمارا کسی ''پارلیمانی'' سے تعلق رہا ہے کیوں کہ پارلیمانی لوگ جب پارلیمانی ہو جاتے ہیں تو ہم جیسوں کے ساتھ بات کرنا بھی غیر پارلیمانی تصور کرتے ہیں۔
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
ہاں ہم اپنی اصطلاح کے مطابق ''تماشا'' کا لفظ کم از کم ان الفاظ میں شامل نہیں سمجھتے جو ''بے وضو'' ہوتے ہیں جنھیں استعمال کرنے سے ہم حتی الوسع دامن بچاتے ہیں مثلاً ایک لفظ ہے جو صحافت میں ''بے وضو'' نہیں ہے اور اس کا استعمال اکثر خبروں میں بے تحاشا کیا جاتا ہے لیکن ہم اسے ''بے وضو'' سمجھتے ہیں اور وہ لفظ ہے رنگ رلیاں ۔۔۔ حالانکہ الگ صورتوں میں اس کا کوئی بھی حصہ بے وضو نہیں ہے۔ رنگ اور رلیاں دونوں الگ ہوں تو اچھے خاصے با وضو بلکہ پارسا نظر آتے ہیں لیکن دونوں کا ملاپ فاسفورس اور گلسیرین کے ملاپ سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے، ''تماشا'' تو اس صورت بھی بے وضو نہیں ۔۔۔۔ نہ ''تما'' بے وضو ہے اور نہ ''شا''۔۔۔ اور نہ یہی دونوں مل کر کوئی خطرناک صورت اختیار کرتے ہیں، جتنی بھی زبانیں ہمیں آتی ہیں، ان سب میں اس لفظ کا چال چلن اتنا برا نہیں ہے جیسے
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
ویسے بھی پاکستان میں آج تک جو کام سب سے زیادہ ہوتا رہا ہے، وہ یہی تماشے دکھانا ہی تو ہے بلکہ اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان کی سب سے بڑی پیداوار کیا ہے تو جواب ''تماشے'' ہی آئے گا جو نہ صرف ملک کے اندر ہوتے ہیں بلکہ بعض زندہ تماشے لندن، دبئی، امریکا وغیرہ میں بھی برآمد کیے جاتے ہیں، نام تو معلوم نہیں لیکن لندن کا کوئی تھیٹر ہے جس میں آٹھ سال تک مسلسل ایک ہی ڈرامہ اسٹیج کیا جاتا رہا اگر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے چاہیں تو اس تھیٹر کا نام مٹا کر پاکستان کا نام بھی لکھ سکتے ہیں کیوں کہ آٹھ سال سے ساٹھ ستر سال بہرحال زیادہ ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ ان برسوں کے دوران کوئی بریک یا وقفہ بھی نہیں آیا۔ بغیر کسی کٹ کے یہ ڈرامہ مسلسل لائیو چلا آ را ہے اور مزیداری کی بات یہ ہے کہ کوئی حکمران اور عوام اس سے اکتائے بھی نہیں ہیں بلکہ کہا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ
کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
شب ہائے ہجر کے طور پر آپ ان ادوار کو شمار کر سکتے ہیں جن کو ''جمہوری'' بلکہ ''عوامی جمہوری پارٹیاں'' آمریت کے ادوار کے نام دیتی ہیں حالانکہ اگر پاکستان میں کچھ کام ہوا ہے وہ ان ہی آمریت کے ادوار میں ہوا ہے اور جمہوری ادوار :
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
لفظ ''تماشا'' پارلیمانی ہو یا نہ ہو بے وضو ہو یا وضو میں لیکن اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ تمام پارٹیاں سارے لیڈر اور ساری حکومتیں آج تک صرف یہی کام کرتی رہی ہیں اور جب ''کام'' کرتی رہی ہیں تو ''نام'' کیسے بدنام ہو سکتا ہے
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
ہمارے نزدیک تو تماشا ایک اچھا کام ہے، لوگوں کے ''منو رنجن'' کے لیے جو ''تماشے'' دکھائے جاتے ہیں وہ تو نہایت پسندیدہ ہوتے ہیں اور تماشا دکھانے والوں کو کروڑوں روپے دیے جا تے ہیں، تازہ ترین خبر کے مطابق پریانکا چوپڑا نے چنائے (سابق مدارس) میں صرف سات منٹ کا تماشا دکھانے کے لیے نیو ایئر نائٹ پر چھ کروڑ روپے لیے ہیں، اس طرح میڈونا، لیڈی گاگا، شکیرا، کرینہ، کترینہ، دیپکا پاڈوکون، شاہ رخ، سلیمان، عامر خان وغیرہ بھی کروڑ روپے ''تماشا'' دکھانے کے لیے اور پھر شیکسپئر نے بھی تو کہا ہے کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر ہر کردار اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے یعنی تماشا دکھاتا ہے جب ساری دنیا ہی اسٹیج ہے اور ہر انسان اداکار تو ''تماشا'' کا لفظ کیسے غلط اور نازیبا ہو سکتا ہے حالانکہ آپ سے کیا پردہ ہے، اپنے یہاں تو لوگ ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھی تماشے دکھاتے ہیں، تماشے کا ذکر حافظ نے یوں کیا ہے کہ
چوں صبا گفتہ حافظؔ بہ شنید از بلبل
خبر افشاں بہ تماشائے ریاحیں آمد
اردو، فارسی، پشتو، پنجابی شاعری میں تماشے کا مقام نہایت اونچا بتایا گیا اور ''تماشا'' دکھانے والے یا والی کی تعریفوں کے پل باندھے گئے، علامہ اقبالؔ نے بھی اس کا ذکر ''عقل'' سے مخصوص کیا ہوا ہے
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عقل کے ساتھ علامہ کی تھوڑی سی پرخاش چلتی تھی لیکن عقل تو عقل ہوتی ہے چاہے وہ سر میں ہو گھٹنوں ایڑیوں میں ہو یا لب بام سے تماشا کر رہی ہو اور پاکستان میں تو پہلے سے بھی ایک نظیر موجود ہے ،کسی ایک پارٹی کو نہیں بلکہ سارے تماش بینوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہے کہ
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
سیدھی سی بات ہے جب طوائف ناچ رہی ہو تو تماشائی تو ہوں گے اور بلکہ یوں کہئے کہ تماشا اور تماش بین دونوں لازم و ملزوم ہوتے ہیں اگر خواہ مخواہ ہی تنازعہ بلکہ تماشا پیدا کرنا ہو تو وہ بات الگ ہے لیکن تماشا میں کوئی برائی نہیں اور نہ ہی تماشائی قابل اعتراض ہیں، البتہ تماشائی کے بجائے تماش بین پر تھوڑا سا برا ماننے میں کوئی قباحت نہیں، اور یہاں تو تماش بین اور تماشائی جو کچھ بھی ہیں عوام ہیں، صرف ایک لفظ تماشا پر برا مانا گیا ہے، ویسے بھی اب حالت یوں ہے کہ
اے زاغ دریں باغ تماشا چہ می کنی
گل رفت غنچہ رفت یک تنہا چہ می کنی
چڑیوں نے کھیت کا جو حشر کرنا تھا وہ کر چکی ہیں، خالی کھیت اور خالی میدان کا تماشا کون کرے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تماشائیوں کو تو کسی نہ کسی طرح مصروف رکھنا ہے ورنہ پھر نہ جانے کیا کیا مانگیں؟ اور پھر پاکستان کے تماشائی تو ہمیشہ کے جدی پشتی تماش بین ہیں اور یک گونہ بے خوری کے رسیا
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
یہ الگ بات ہے کہ یہ بے چارے تماش بین آخر میں پچھتانے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے اور یہ کہہ کر واپس لوٹتے ہیں کہ میلہ ویلہ کچھ نہیں صرف ''میری چادر'' چرانے کے لیے تماشا بنایا گیا تھا۔
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا