نئے سال کا ٹمٹماتا سورج…

جس اقتدار کو مال غنیمت سمجھ کر ہر کوئی اپنی جھولیاں بھرتا ہے، انھیں اس ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے


Shirin Hyder January 04, 2014
[email protected]

قارئین کو نیا سال مبارک ہو...یہ برس بھی ہم سب کے لیے خوشیوں اور غموں کا سامان لے کر آیا ہے، ہم کئی نئے عہد کرتے ہیں اور گذشتہ برس کیے گئے عہد بالائے طاق چلے جاتے ہیں بنا تکمیل کے۔ نئے برس کے چار دن بھی بیت گئے ہیں، یوں تو دن گھنٹوں اور گھنٹے منٹوں کی مانند ہو گئے ہیں مگر ... میر ے لیے یہ چار دن چار صدیوں پر محیط ہو گئے ہیں، وقت تھم سا گیا ہے... نہ پچھلے دس دن سے یہ معلوم ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے نہ یہ کہ اپنے اردگرد کیا نہیں ہو رہا۔ ایسی کیفیت ہے کہ اس کی وضاحت کرنا بھی ممکن نہیں۔ ہر برس، سال کے آخری سورج اور نئے برس کے نئے سورج کی تصویر کھینچنا جیسے فرائض میں شامل تھا، مگر اس بار تو سورج بھی ٹمٹما رہا ہے... میری زندگی میں سورج جیسا شخص...

کالم لکھنے بیٹھی ہوں تو میری آنکھیں ڈبڈبا گئی ہیں... میری زندگی کی یہ دوسری تحریر ہو گی جسے میرے والد سب سے پہلے نہیں پڑھیں گے... بلکہ شاید بہت دن کے بعد پڑھیں گے، کتنے دن کے بعد، کہہ نہیں سکتی۔ اتوار کو صبح سویرے گیٹ کے سامنے اس وقت تک موجود رہتے جب تک کہ اخبار والا اخبار نہ پھینک جاتا۔ میری تحریر پر مبنی کوئی رسالہ، ماہنامہ، اخبار ہو تو اسے وصول کرنا گویا ان کی ذمے داری، غور سے پڑھنا اور پھر کال کر کے مجھے اپنی رائے سے آگاہ کرنا... اٹھائیس دسمبر کی دوپہر کو وہ سر درد کی شکایت کے بعد یک لخت کومہ میں چلے گئے اور لمحوں میں ہمارے خاندان کی بنیاد جیسے لرزگئی... فیس بک کے ایک لائن کے اسٹیٹس نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔

انھیں گھر سے اسپتال منتقل کیا گیا اور ڈاکٹروں نے اپنا کام شروع کر دیا، ابتدائی تشخیص جسمانی معائنے سے ہی کی گئی، اس سے زیادہ... سی ٹی اسکین تک کی سہولت اس شہر کے کسی نجی اسپتال میں ہے نہ اس سرکاری اسپتال میں جو کہ ایک بڑی آبادی کے لیے واحد بڑا اسپتال ہے... بد قسمتی سے یہ اسپتال کسی حکمران کا شہر نہیں رہا... اور اگر اس شہر کے کسی لیڈر نے چند ماہ تک حکمرانی کا تاج پہنا بھی تو اسے اپنے خاندان کا مقدر سنوارنے سے ہی فرصت نہ ملی، شہر کے لیے کچھ کرنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں... جن کے ووٹوں سے وہ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں وہ تو ان کے لیے کیڑے مکوڑوں جیسے ہیں...خود تو ہمارے شہر کے بڑے بڑے سیاستدان بھی اپنے سر درد کے علاج کے لیے لندن کے cromwell اسپتال میں چلے جاتے ہیں۔

گجرات میں ناکافی طبی سہولیات کے باعث انھیں راولپنڈی منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو سہولیات اورضروری لوازمات سے آراستہ ایمبولینس نایاب... انھیں بدترین میں سے بہترین ایمبولینس میں راولپنڈی پہنچایا گیا، ڈاکٹروں کے مطابق ہم نے بہترین طبی امداد کے پہلے چار سے چھ گھنٹے گنوا دیے تھے جن کے دوران اگر سی ٹی سکین ہو جاتا اور علم ہو جاتا کہ انھیں Brain Haemorrhage ہوا ہے تو شاید... مگر کیا گجرات میں رہنا اتنا بڑا قصور ہے یا گجرات شہر، اس کے نواح اور اسی طرح کے کئی دوسرے شہر کسی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے کہ ہم لوگ بہترین طبی سہولتوں سے محروم ہیں؟

بے بسی کسے کہتے ہیں... لکھاری ہونے کے باوصف بھی اس کی وضاحت الفاظ میں نہیں کر سکتی، سب در بند ہو جاتے ہیں تو ایک اس کا در کھلا ہوتا ہے جس کے در سے ہم سب اپنی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں، جس سے ہم گڑگڑا کر مانگتے ہیں اور ہمیں مایوس نہیں کرتا۔ ان دس دنوں میں آس اور یاس کے کئی مرحلے آئے ہیں ، کسی وقت دل ڈوب ڈوب جاتا ہے اور کسی وقت امید کا لفظ سن کر آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی صحت یابی اور ہوش میں آنے کے لیے دعائیں مانگی جا رہی ہیں... وہ اکیلے میرے نہیں، ہم آٹھ بہن بھائیوں کے... اپنے آٹھ بہن بھائیوں کے جنھیں انھوں نے 1950 میں اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد باپ کی طرح پالا... ان کے سبھی فرائض پورے کیے... وہ ایک بہت بڑے کنبے کے ہر فرد کے باپ ہیں، کسی کے حقیقی اور کسی کے باپ جیسے۔

میں نے انھیں اپنے بچپن سے ہی کبھی بے وقت لیٹے ہوئے بھی نہیں دیکھا، مگر اب وہ لیٹے ہیں، آنکھیں موند کر اور ہم سب سے بیگانہ، ہوش و خرد کی دنیا سے بیگانہ۔ ان کا blood pressure, heart rate بالکل درست ہے، خود سے سانس بھی لے سکتے ہیں مگر اس کا دماغ ایسی نیند میں مبتلا ہو گیا ہے جسے فقط اللہ کی ذات ہی جگا سکتی ہے۔ ہم دعاؤں سے اور ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کوششیں کر رہے ہیں، وہ بے نیاز جانتا ہے کہ کتنے لوگ ان سے پیار کرتے ہیں اور انھیں اسی طرح دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح وہ کومے میں جانے سے قبل تھے۔

انسان اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہر مشکل اور آزمائش کو برداشت کر لیتا ہے، صبر کر لیتا ہے کہ بیماری اور تکلیف اس کی طرف سے ہے وہ بلاشبہ وہی اس کو ٹالنے والا ہے... وہ اک قطرۂ آب سے انسان کو بنا سکتا ہے تو راکھ کے ڈھیر بنے انسان کو پھر بھی زندگی عطا کر سکتا ہے۔

'' وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا کافی ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ ( سورہء یسین، آیات ۸۲، ۸۳)

ان کے سرہانے کھڑے ہو کر تلاوت کرتے ہوئے میں نے صدق دل سے ان آیات پر یقین کے ساتھ جانا کہ وہی ذات ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے۔ چند سال پہلے جب موبائل ٹیلی فون نہیں تھے اس وقت ایک لطیفہ گردش میں تھا جس کا لب لباب یہی تھا کہ یہ ملک حقیقتا اللہ کے آسرے پر ہی چل رہا ہے۔ کسی بھی دور کو لے لیں، تعلیم اور طبی سہولیات ، عوام کے یہ دو بنیادی حقوق ہیں جنھیں اسلام نے لازم قرار دیا، مگر ہمارے ہاں اس پر بالکل توجہ نہیں دی گئی اور جن ممالک کو ہم بہت سی باتوں میں برا کہتے ہیں، وہاں یہ سب رائج ہے ... ہر کسی کے لیے اور بالکل مفت۔ ایک اسلامی معاشرے میں نہ صرف ان بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنے کو کہا گیا ہے بلکہ ان کے لیے حکمرانوں کو جواب دہ قرار دیا گیا ہے۔ ہر حکومت کے عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپنے اپنے پارٹی کے مسائل کو حل کرنے میں مصروف رہتے ہوئے اپنا عرصہ مکمل کر کے آنے والوں کو مسائل کے انبار کے ساتھ چھوڑ کر اپنی لوٹی ہوئی رقوم سمیت بیرون ممالک چلے جاتے ہیں۔

آپ سب جانتے ہیں کہ جس وقت ہمارے برصغیر پاک و ہند میں تاج محل جیسے عجوبے کی تعمیر کر کے محبت کی عظمت کے نشان رہتی دنیا تک کے لیے بنائے جا رہے تھے ... اس دور میں دنیا بھر میں اہم ترین یونیورسٹیاں تعمیر کی جا رہی تھیں... ان قوموں نے ماضی میں مسلمانوں کی عظمت کا راز پا لیا تھا، یہ تعلیم ہی تھی جس کے باعث ہمارے اسلاف نے کیمیا ، ریاضی اور طب کے شعبوں میں لازوال کارنامے سر انجام دیے۔ تعلیم ہی ہے کہ جس کا حکم ہمیں پہلی قرآنی تعلیم کے طور پر دیا گیا۔ اسلام کے لازوال دور کے حکمرانوں نے تعلیم کے ذریعے ترقی کا راز پانے کی بجائے فضولیات میں اپنی توانائیاں اور خزانے خالی کردیے ، حکمرانوں کی یہی روش آج دن تک قائم ہے...

جس اقتدار کو مال غنیمت سمجھ کر ہر کوئی اپنی جھولیاں بھرتا ہے، انھیں اس ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے، ان کی پکڑ ہو گی ۔ کسی حکمران کے لیے ملک کا مطلب کراچی ہوتا ہے تو کسی کے لیے لاہور... نہ وہ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں نہ اس عوام کے ساتھ جن کے ووٹوں کی طاقت اقتدار کے ہما کو ان کے سروں پر بٹھاتی ہے۔

جب ان کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو یہ علاج کے لیے بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں ، اگر کسی کو سکت ہو تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں، مگر دکھ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی لوٹی ہوئی رقوم ہیں جو ان کے بیرون ممالک کے اکاؤنٹس میں ہیں...اس اندھی دولت کے آنے اور جانے کے راستوں کا کسی کو علم نہیں ہوتا۔ یہ سب دیکھتے ہیں کہ کیسی کیسی سہولتیں ان ممالک میں ہیں، بجائے اس کے کہ وہ ان کو اپنے ملک میںبھی فراہم کرنے کی کوشش کریں، ان کے منظم نظام کو اپنے ملک کے لیے ماڈل بنائیں... اپنے مفادات کی جنگ لڑتے لڑتے وقت گزار دیتے ہیں... ہم گوشواروں میں دیکھتے رہتے ہیں کہ ملک پستی میں کس سطح پر جا پہنچا ہے... ہر روز کئی چراغ بجھتے ہیں اور کئی سورج ٹمٹماتے ہیں!!!

آپ سب سے التماس ہے کہ میرے والد محترم کے لیے آیت کریمہ پڑھ کر دل سے دعا کریں، اللہ تعالی انھیں صحت کاملہ عطا فرمائے اور ان جیسے ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں مریضوں کو صحت یاب کرے، آمین!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں