شہید بھٹو عظیم رہنما
قائد عوام پرصاحبانِ فکر نے بہت کچھ لکھا ہے،ان کے چاہنے والوں اور مخالفین نے کھل کر شہید کی شخصیت پر اظہار خیال کیا ہے
یوں تو روزانہ اس دنیا میں ہزاروں افراد پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں ہی رخصت ہو جاتے ہیں، لیکن ان ہی لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں حیات جن سے ثبات آتی ہے اور موت وقار۔ تاریخ انھیں نہیں بناتی بلکہ یہ تاریخ بناتے ہیں۔ ایسی ہی منفرد شخصیات میں ایک بڑا نام قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا بھی ہے، جن کی 5 جنوری 1928 لاڑکانہ میں ولادت ہوئی اور ان کا نام محکوم و مظلوم عوام کے لیے وجہ افتخار بن گیا۔ قائد عوام پر صاحبانِ فکر نے بہت کچھ لکھا ہے، ان کے چاہنے والوں اور مخالفین نے کھل کر شہید کی شخصیت پر اظہار خیال کیا ہے، ان سے محبت کرنے والے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بلاشبہ بھٹو شہید اس معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کے بے باک ترجمان تھے۔ پاکستان کے غریب لوگ آج بھی بھٹو سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور نعرہ مستانہ لگاتے ہیں کہ ''کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے''۔
بھٹو نے محروم طبقات کو سیاسی شعور بخشا، انھیں جینے کی راہ دکھائی، امن، انصاف، مساوات، آزادی اور قومی خود مختاری کے عظیم جذبوں سے سرشار کیا۔ جب وطن عزیز میں آمریت کا اندھیرا تھا شہید بھٹو نے جمہوریت کا علم بلند کیا۔ ایوب آمریت کے خلاف ملک بھر کے محنت کشوں، ہاریوں، مزدوروں، کسانوں، طلبہ، اساتذہ، دانشوروں، صحافیوں، متوسط طبقے کے لوگوں، ٹھیلے والوں، دکانداروں اور ترقی پسند و روشن خیال لوگوں نے قائد عوام کی آواز پر لبیک کہا۔ بھٹو نے بحالی جمہوریت کے لیے تاریخ ساز عوامی تحریک کا آغاز کیا اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوا، عوام میں شعور بیدار ہوا اور وہ آمریت کے خلاف سروں پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل آئے۔ فوجی آمریت برقرار رہی، ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو منتقل کیا، جنرل یحییٰ کی بداعمالیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دولخت ہوگیا۔
جب ملک کا یہ حصہ شکستہ حالت میں تھا، 93 ہزار فوجی ہندوستان کے قیدی تھے، ہزاروں مربع میل علاقہ ہندوستان کے قبضے میں تھا، معاشی بحران تھا، اس وقت اقتدار قائد عوام کو سونپا گیا، بھٹو نے شکستہ دل قوم کا جذبہ بلند کیا، اس میں عزم و استقلال اور محنت کی تحریک بیدار کی اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے عزم کیا کہ وہ ملک کو ترقی یافتہ، مضبوط اور خوشحال بنا کر دم لیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چار انقلابی نعرے انتخابی منشور قرار پائے۔ (1) اسلام ہمارا دین ہے۔ (2) جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ (3) سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ (4) طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔
بھٹو شہید نے ملک کے گوشے گوشے کا دورہ کیا، عوام کے مسائل سنے اور انھیں اپنے پروگرام سے آگاہی دی، ملک بھر کے لوگوں نے شہید پر اعتماد کا مثالی مظاہرہ کیا اور ان کی قیادت میں جد و جہد کا علم بلند ہوا۔ شہید بھٹو اپنی باوقار شخصیت اور انقلابی و عوام دوست تقاریر کی وجہ سے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گئے، بھٹو کی قیادت میں سفر جمہوریت کا آغا ہوا۔
ہندوستان کی قید سے 93 ہزار جنگی قیدیوں کی باعزت رہائی ممکن ہوئی، کھویا ہوا علاقہ واپس حاصل ہوا، انقلابی پالیسوں کا اجراء ہوا، جن کے نفاذ سے مزدوروں، ہاریوں، طلبہ، اساتذہ اور دانشور طبقات کو اطمینان حاصل ہوا۔ بھٹو نے تمام طبقات فکر کی مشاورت سے 1973 کا متفقہ دستور بنایا۔ 73 کا آئین بھٹو کا وہ بے مثال کارنامہ ہے جس پر انھیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے، کم ہے۔ اس تاریخی دستاویز پر تمام قوتوں نے اتفاق رائے کیا۔ بھٹو نے بے روزگاری دور کرنے کے لیے احسن اقدامات کیے۔ سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور مغربی ممالک جانے کے لیے پاکستانیوں کو سہولتیں فراہم کی گئیں تاکہ معاشی استحکام میں اضافہ ہو اور زر مبادلہ بھی حاصل ہوسکے۔ خوشحالی کا دور دورہ ہوا، لوگوں کو حقوق حصول کا جذبہ میسر آیا، جمہوریت کا سفر جاری تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہورہا تھا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی، جس نے وطن عزیز کو اسلام کا قلعہ بنادیا۔ مسلمان متحد ہونے لگے، مسلم دنیا میں اپنے وسائل کو یکجا کرنے کی تحریک بیدار ہوئی تاکہ مسلمانانِ عالم کی اقتصادی قوت مستحکم ہو، اسلامی بینک کا تصور قائم ہوا۔ تیسری دنیا کی ابھرتی ہوئی اقوام میں وطن عزیز سرفہرست ہوگیا۔ بھٹو عالمی سطح کے مدبر، مفکر اور قائد بن کر ابھرے۔ ان کی بہترین دفاعی پالیسی کے نتیجے میں وطنِ عزیز کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بھٹو نے ایک بہترین مومن ہونے کا ثبوت دیا اور ختم نبوت کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کردیا۔
بھٹو شہید کے یہ بے مثال کارنامے اور انقلابی اقدامات وطن و اسلام دشمن قوتوں گوارا نہ ہوئے، اسلام، جمہوریت اور عوام کے دشمنوں نے سازش تیار کی، ڈالر سے ضمیروں کا سودا ہوا، محافظ مالک بن گئے اور معمار کو دیوار میں چنوانے کے عمل سیاہ کا آغاز ہوا، آمریت کے گماشتے یکجا ہوئے اور جمہوریت کا تختہ ''شب خون'' مار کر الٹ دیا گیا۔ قائد عوام پابند سلاسل ہوگئے، خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹوپر تشدد کیا گیا، بینظیر، مرتضیٰ شاہ نواز اور صنم پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور قائد عوام سے ان کے اہل خانہ کو ملنے تک سے محروم کردیا گیا۔ جھوٹے مقدمے میں بھٹو کو پھانسی دی گئی اور راتوں رات گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ:
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
آج 5 جنوری ہے، جو اسی شہید کا یوم ولادت ہے کہ جس نے اپنے پورے خاندان سمیت پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے عظیم قربانیوں کی بے مثال تاریخ رقم کی ہے۔ آج یہ عظیم شہدا گڑھی خدا بخش میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ گڑھی خدا بخش ملکی سیاست کا مرکز ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور جیالے کارکنان کو اپنی قیادت پر فخر ہے۔ آئیے! یوم ولادت قائد عوام کو اس عہد کی تجدید کے ساتھ منائیے کہ ہم قائد عوام کے عطا کردہ نظریات افکار اور فلسفہ سیاست پر کاربند رہتے ہوئے جدوجہد کا سفر جاری رکھیں گے۔
(مضمون نگار صوبائی وزیر ہیں)