تجریدی کیفیت

یاد رکھو کہ ہر مرتبہ مشاہدے کے لیے بیٹھنے سے قبل دس گہرے سانس ناک کے سوراخوں سے لینے اور خارج کرنے ضروری ہیں

گزشتہ کالم میں ہم نے کہا تھا کہ رئیس امروہوی مرحوم کی ڈائری سے کچھ اقتباس پیش کریں گے۔ رئیس صاحب اپنی کتاب ''توجہات'' میں لکھتے ہیں:

''میں اپنی ڈائری کا تعارف کراچکا ہوں، اس ڈائری میں رئیس امروہوی نے رئیس امروہوی کے لیے یہ ہدایات تحریر کی تھیں کہ:

یاد رکھو کہ ہر مرتبہ مشاہدے کے لیے بیٹھنے سے قبل دس گہرے سانس ناک کے سوراخوں سے لینے اور خارج کرنے ضروری ہیں۔ گہرے سانس لینے سے اعصابی نظام کی بحالی میں مدد ملتی ہے جو سرگرم اور گہری توجہ کے لیے ضروری ہے۔ مستقبل بینی مقصود ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ بلور کی گیند سامنے رکھو اور حالت قبول و تسلیم (یعنی انچہ از دوست می رسد نیکوست) میں بیٹھ جاؤ۔ گیند کے کسی خاص پوائنٹ پر نظریں جمانے کے بعد خود یہ سوال قائم کرو کہ تم فلاں اور فلاں مسئلے کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے ہو، اس کے بعد جو مشاہدات ہوں گے وہ مستقبل کے بارے میں ہوں گے۔ بلوریں گیند یا شیشے کا گلاس ذہن کے لیے ایکس رے پلیٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور کائنات کے گہرے اسرار نقطہ توجہ Object پر منعکس ہونے لگتے ہیں۔ ضروری ہدایات یہ ہیں کہ:

(1) کائنات کے بارے میں مثبت اور بامقصد انداز نظر قائم کرو۔
(2) کوئی ایک مخصوص تصور پیش نظر رکھ کر مشق شروع نہ کرو، بلکہ پوری طرح خالی الذہن ہو۔
(3) ہمیشہ تنہا بیٹھو، روزانہ ایک بار ایک نشست۔
(4) مشاہدے میں ہمیشہ غیر معمولی تجربوں کے منتظر رہو۔
(5) نورِ باطن کے متمنی رہو۔
(6) کسی عجیب یا مہیب مشاہدے سے کوئی تشویش یا حیرت محسوس نہ کرو۔

(7) یاد رکھو کہ مشہود (آبجیکٹ) پر خفیف سا سایہ یا بادل بھی گہرے معنی رکھتا ہے۔
(8) ذہن میں ماضی، حال یا مستقبل کے بارے میں سوالات ضرور ہوں مگر کسی ایک سوال پر ذہنی اصرار نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح آدمی مشاہدے میں اٹک کر اور الجھ کر رہ جاتا ہے۔ نشست کے لیے کوئی پرسکون جگہ منتخب کرو۔ یہ تمھاری مستقل خلوت گاہ ہونی چاہیے، وقت کی قید نہیں۔ وقت کوئی بھی کیوں نہ ہو، البتہ اس کی پابندی ضروری ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، بیٹھنے اور نقطہ توجہ کی ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی حالت میں اعصابی کھنچاؤ نہیں ہونا چاہیے، ذرا سی عصبی کشیدگی یا بے قاعدہ نشست مشاہدے کی یکسوئی میں خلل انداز ہوسکتی ہے۔ ہر شخص کو آرام دہ نشست اپنی سہولت و عادت کے مطابق اختیار کرنی چاہیے، یعنی آپ جس طرح آرام دہ طریقے پر بیٹھنے کے عادی ہیں، مشق ارتکاز توجہ میں وہی نشست اختیار کیجیے۔

البتہ یہ شرط ضروری ہے کہ ارتکاز توجہ کی مشق کے دوران کمر جھکی ہوئی اور سینہ نکلا ہوا نہ ہو، گردن میں اکڑاؤ بھی نہ ہونا چاہیے۔ سر، گردن اور پشت ہمواری اور نرمی کے ساتھ ایک سیدھ میں ہوں۔ تخلیے کا کمرہ کا گوشہ اپنے لیے مخصوص کرلیجیے اور بہتر یہ ہے کہ وہیں پابندی وقت کے ساتھ مقررہ مشق کیجیے۔ تخلیے کے کمرے میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو بار بار آپ کی توجہ کو جذب کرلے۔ تخلیہ گاہ میں قدم رکھنے سے قبل اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہیے (یعنی اپنے آپ کو ترغیب دیجیے کہ) میں مشق ارتکاز توجہ کرنا چاہتا ہوں، اس وقت میرے ذہن میں حسب ذیل خیالات ہیں (خیالات کو ایک ایک کرکے شعور کی سطح پر لائیے) میں اس وقت فلاں اور فلاں مسئلے پر سوچ بچار کررہا ہوں۔ مشق ارتکاز توجہ کرتے ہوئے ان میں سے کوئی خیال مجھے پریشان نہ کرے گا، جب میں مشق توجہ سے فارغ ہوجاؤں گا تو پھر ان مسئلوں پر سوچ بچار شروع کردوں گا۔

مقصد صرف یہ ہے کہ مشق شروع کرنے سے قبل آپ ذہن کو اچھی طرح ٹٹول لیں اور یہ دیکھ لیں کہ ذہن کس قسم کے سلسلہ خیالات سے دوچار ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جب آپ ارتکاز توجہ شروع کریں تو ادھر ادھر کے خیالات یکایک ذہن پر ہلہ بول دیں۔ خلوت گاہ میں صرف اتنی روشنی ہونی چاہیے کہ مشہود آپ کو نظر آتا رہے، تیز روشنی بھی بلند آواز کی طرح اپنی طرف توجہ جذب کرلیتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مشق کرتے ہوئے آپ کا منہ شمال کی طرف اور پشت جنوب کی طرف ہو تاکہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے درمیان جو مقناطیسی رو چلتی رہتی ہے وہ دماغ سے پاس ہوتی رہے۔''

رئیس امروہوی اپنے والد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ''میرے والد مرحوم علامہ سید شفیق حسن ایلیا اس انداز سے سویا کرتے تھے کہ سر شمال کی طرف اور پاؤں جنوب کی طرف ہوتے تھے۔ فرماتے تھے کہ اس طرح لیٹنے اور سونے سے جسم میں مقناطیسیت پیدا ہوجاتی ہے، وہ اس سلسلے میں امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ کا ایک قول بھی نقل فرمایا کرتے تھے۔ اگر خلوت گاہ کی دیواروں کا رنگ ہلکا نیلا رنگ کا ہو تو سبحان اﷲ، ورنہ کمرے میں نیلے رنگ کا بلب لگالیا جائے کیونکہ نیلا رنگ ذہن کی تجریدی کیفیت کو ابھارنے میں مدد دیتا ہے۔ کسی پرسکون میدان میں جا کر آسمان نیلگوں پر نظریں جما دیجیے۔ چند لمحے بعد آپ کو محسوس ہونے لگے گا کہ آپ کا رشتہ کرۂ ارض سے منقطع ہوتا چلا جارہا ہے یا اگر سمندر تموج، تلاطم اور طغیانی سے خالی ہو تو سطح بحر پر نظریں جما دیجیے، عجیب و غریب تجریدی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ تجریدی کیفیت یہ ہے کہ دنیا اور ہنگامۂ دنیا سے الگ تھلگ ہوجانے اور کٹ جانے کا احساس اور یہ بھی کہ ہم ایک لامحدود ازلی ابدی تنہائی میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔

بلور بینی کی مشق میں آپ کی نظروں کے سامنے صرف بلور کی گیند یا شیشے کا گلاس ہونا چاہیے۔ ادھر ادھر کوئی اور چمکدار چیز رکھی ہوگی تو ذہن بار بار ادھر جست لگانے لگے گا۔ مشاہدے کی مشق سے قبل مشق تنفس نور یا متبادل طرز تنفس کے پانچ سات چکر کرلینے چاہئیں۔ مشق کرتے ہوئے گہرے گہرے سانس لینے کی کوشش کریں۔ گہرا سانس بجائے خود عمیق خیال اور ارتکاز توجہ کی علامت ہے۔ جب آپ کسی خیال میں محو ہوتے ہیں تو لامحالہ تنفس نور کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ ارتکاز توجہ اور مشاہدے کی مشق میں بلور کو جس قدر اہمیت دی گئی ہے، آج سے نہیں آشور و بابل کے عہد سے! تو اس کا سبب یہ ہے کہ بلور بڑا حساس پتھر ہے، چونکہ عام لوگ آسانی سے بلوری گیند حاصل نہیں کرسکتے لہٰذا صاف شفاف پیپر ویٹ یا صاف پانی سے بھرے ہوئے شیشے کے گلاس پر بھی مشق کی جاسکتی ہے۔

(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
Load Next Story