مسیحائی کردار
اس سال زیادہ ہلاکتیں ٹرک اورٹرالرکی وجہ سے ہوئیں خونی ٹینکروں نے 152 زندگیوں کے چراغ گل کیے
ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2013 میں صرف کراچی شہر میں 2570 ٹریفک حادثات رونما ہوئے جن میں 2118 افراد جاں بحق ہوئے۔ معذور اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ گزشتہ سال ہلاکتوں کی تعداد 2670 تھی۔ اس سال زیادہ ہلاکتیں ٹرک اور ٹرالر کی وجہ سے ہوئیں۔ خونی ٹینکروں نے 152 زندگیوں کے چراغ گل کیے۔ ڈمپروں نے 81 زندگیاں نگلیں۔ آئل ٹینکروں نے 22 جانیں تلف کیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ٹریفک حادثات میں سب سے زیادہ تشویشناک شرح واٹر ٹینکرز، ڈمپر، ٹرکوں جیسے ہیوی ٹرانسپورٹ کی ہے۔ حالانکہ ان کی تعداد اور فاصلاتی سفر کا تناسب دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتا ہے، جب کہ حادثات کی شرح حد سے زیادہ دکھائی دیتی ہے، خاص طور پر ٹینکر مافیا تو انتہائی منظم، مربوط اور طاقتور ہے۔ ہیوی ٹرانسپورٹ کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں بڑی تعداد ڈرگ مافیا، پولیس، کالا دھن رکھنے والوں اور جرائم پیشہ عناصر کی ہے جو اپنے ڈرائیوروں کو قتل کی کھلی چھٹی بلکہ ہدایات دیتے ہیں کہ ٹریفک قوانین اور انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور کسی حادثے کی صورت میں جائے حادثہ سے فرار ہونے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائے، چاہے مزید جانیں لینا پڑیں۔
پولیس رپورٹ بتاتی ہے کہ اس سال 402 ہلاکتیں نامعلوم گاڑیوں سے ہوئیں جن کے مرتکب ڈرائیور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عام طور پر ایسے ڈرائیور گرفتار بھی ہوجائیں تو ان کی فوری ضمانتیں ہوجاتی ہیں۔ پولیس رپورٹس ان کے حق میں کردی جاتی ہیں، اس سلسلے میں پولیس، سرکاری وکلا، عدالتی عملہ کی آؤ بھگت اور خاطر مدارات کی جاتی ہیں۔ گواہ ملتے نہیں، ملتے ہیں تو انھیں خوف زدہ کردیا جاتا ہے یا عدالتوں کے چکر کاٹ کر تنگ آجاتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ مالکان اور ان کی انجمنیں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں جن کے پینل پر وکیل، گواہ، بدمعاش اور پولیس اہلکار سب ایک ٹیلی فون کے فیصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کے عہدیدار متوفی کے گھر پر جاکر فاتحہ پڑھتے ہیں پھر انھیں وعظ کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اﷲ کی طرف سے تھا، موت ایسے ہی لکھی تھی اسے کوئی ٹال نہیں سکتاتھا۔ ڈرائیور غریب آدمی ہے، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے، بوڑھے و معذور ماں باپ فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
عام طورپر لواحقین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اب زندگی تو واپس نہیں آسکتی لہٰذا قصاص یا ڈرائیور کو سزا دلوا کر کیا کریں گے۔ وہ مرنے والے کے خون کا معاوضہ لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ حالانکہ عدالتیں اس قسم کے حادثات میں جرم ثابت ہونے پر Fatal Accident کے تحت لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے تک کے معاوضات بڑی فراخدلی سے دلواتی ہے۔ اس قسم کے فیصلے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں لیکن عام لوگ ان سے لا علم رہتے ہیں۔ انھیں عدالتوں سے انصاف کی توقع کم ہوتی ہے، اگر پورے ملک میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد کا جائزہ لیاجائے تو شاید ان کا تناسب دہشت گردی اور ڈرونز حملوں میں مرنے والے سے زیادہ ہو۔ لیکن تماشہ در تماشہ لگانے والے ہمارے حکمرانوں کو اس بڑے قومی مسئلے پر توجہ دینے اور اس سلسلے میں قوانین سخت کرنے، ان پر عمل کروانے اور نئی قوانین سازی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ وقتی، نمائشی اور علامتی قسم کی قانون سازی کا انبار لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹریفک نظام عوام کے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی عوارض کی بڑی وجہ ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے میڈیا کا کردار بھی انتہائی نامناسب ہے۔ آج کل بعض ٹی وی چینلز سے حادثات پر فلمیں پیش کی جاتی ہیں، ان اندوہناک مناظر کو دیکھ کر صحت مند لوگوں کا اعصابی نظام بھی تناؤ کا شکار ہوجاتاہے۔ کمزور، بیمار، بوڑھے اور خواتین تو انھیں دیکھنے کی تاب ہی نہیں لاتے، نوعمر افراد ایسے پروگرام دیکھ کر یوں قہقہہ لگاتے ہیں جیسے کوئی کارٹون فلم دیکھ رہے ہوں کیوںکہ پس پردہ موسیقی اور کمنٹری میں جب کسی حادثے کے لیے دھول چٹانے کے الفاظ ادا کیے جائیں گے تو لامحالہ نوجوانوں کا یہ ردعمل ہی سامنے آئے گا اور عبرت و اصلاح کے بجائے تفریح کا پہلو سمجھا جائے گا۔ ہمارے سیاست دانوں و حکمرانوں کا بھی یہ حال ہے کہ حساس قسم کے قومی معاملات پر وہ اس قسم کا رویہ اور ٹرمنالوجی استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی سنجیدگی اور اخلاص کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ حادثات کی فلمیں دکھاکر بتایا جائے کہ یہ حادثہ کیوں پیش آیا، کس کی اور کیا غلطی تھی، کون سے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی گئی تھی جو حادثے کا سبب بنی، حادثے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں اور ان کے خاندان پر کیا گزری، غلطی کے مرتکب ڈرائیور پر کون سی دفعات لگیں، ان کی کیا سزا ہوسکتی ہے یا کیا سزا ہوئی، اس کے گھر والے کن مصائب کا شکار ہوئے، ڈرائیور کا ضمیر کیا کہتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے پروگراموں میں ٹریفک پولیس کے ذمے داران، ٹریفک انجینئرنگ کے ماہرین، قانون دان، ماہر نفسیات، شعبہ حادثات کے ڈاکٹروں، ایمبولینس ڈرائیورز، سماجی و مذہبی رہنماؤں اور حادثے کا شکار ہونے والوں یا ان کے لواحقین کو شامل کرلیا جائے تو حادثات کی تکنیکی وجوہات، ان کے تدارک کی تجاویز، ٹریفک قوانین سے آگاہی، حادثات سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے اعداد و شمار اور متعلقین اور ان کے اہل خانہ کے مصائب و مشکلات اور اس سلسلے میں انسانی اقدار، اخلاقیات اور مذہبی تقاضوں سے روشناس کرا کر عام شہریوں کو قانون کی پاسداری اور ٹریفک اصولوں کی پابندی کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔
آج کل ٹی وی چینلز پر ایسے پروگراموں کی بھی بہتات ہوگئی ہے کہ میزبان کسی املاک (private premises) میں داخل ہوجاتا ہے مثلاً مٹھائی، گھی، تیل، گٹکا، سپاری، مصالحہ، حلیم تیار کرنے والے کارخانے، اسکول، اسپتال، قبرستان یا منشیات و فحاشی کے اڈوں وغیرہ میں ان کی خفیہ ریکارڈنگ بھی کی جاتی ہے اور اعلانیہ چیلنج بھی کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا رویہ اختیار اور مکالمہ ادا کیے جاتے ہیں جنھیں دیکھنا اور سننا بھی باعث شرم محسوس ہوتا ہے بلکہ یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ پروگرام کسی خاص مقصد کا حصہ یا پیشہ ورانہ رقابت کی بنا پر کیا جارہا ہے۔ یقیناً ایسے گھناؤنے کاروبار میں شریک عناصر انسانیت اور ملک و قوم کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا فوری تدارک ہونا چاہیے اور ان کے سرپرستوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے لیکن ایسے پرگراموں کے نشر ہوجانے کے بعد بھی مرتکب افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کاروبار میں ملوث دیگر افراد کے علاوہ عام لوگوں میں بھی یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پیسہ اور تعلقات ہونے چاہئیں، قانون اور میڈیا کی تو حیثیت نہیں، ہمارے تمام ریاستی اداروں کی بربادی کی وجہ یہ ہے کہ اس میں پرسنل مینجمنٹ کے بنیادی اصول Right Man On Right job کے اصول کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ میڈیا سے متعلق افراد کو اس قسم کی کارروائی کرنے سے قبل تمام قانونی و اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ کسی کی نجی املاک میں داخل ہوکر اس سے سوال جواب کرنے کا اخلاقی، قانونی جواز اور دائرہ کار کیا ہے، جن کاروبار یا عناصر پر چھاپہ مار کارروائی کرنی ہو ان کی متعلقہ کنٹرولنگ اتھارٹی کون سی ہیں، ان پر کون سے قوانین اور حد بندیاں لاگو ہوتی ہیں۔ ان کے تدارک کے کون سے طریقے ہیں؟ جب ایسے عناصر کو بے نقاب کیا جاتا ہے ساتھ ہی متعلقہ ارباب اختیار سے ان پر عائد منصبی ذمے داریوں اور اختیارات کے استعمال سے متعلق سوالات ہونے چاہئیں کہ ان کے دائرہ اختیار اور حدود کے اندر یہ سرگرمیاں و کاروبار کیسے اور کیونکر چل رہے تھے۔
اب وہ اس پر کیا کارروائی کررہے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ اس کا فیڈ بیک بھی لینا چاہیے اور اسے عوام اور اعلیٰ حکومتی ارباب اختیار تک پہنچانا چاہیے کہ فلاں ایس ایچ او، فلاں ڈائریکٹر فوڈ، ہیلتھ یا دیگر ذمے داروں تک یہ شکایات، انکشافات اور ثبوت پہنچائے گئے، جس پر یہ کارروائی ہوئی یا نہیں ہوئی، کارروائی نہ ہونے کی صورت میں آئی جی پولیس، متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز اور متعلقہ وزراء اور وزیراعلیٰ تک بتدریج رسائی کی جانی چاہیے۔ آج کا میڈیا اتنا موثر ہے کہ آن لائن اعلیٰ سے اعلیٰ حکومتی شخصیات تک رسائی رکھتا ہے۔ وہ ٹیلی فون بند کرکے دفتروں سے غائب ہوجانے والے افسران کے بند ٹیلی فون اور خالی دفاتر کے مناظر دکھاکر انھیں آن لائن پروگرام میں شرکت اور اپنے موقف کے اظہار کی دعوت دے کر عوامی دباؤ بڑھا سکتا ہے، جس سے عملاً ایسے عناصر اور ان کے سرپرستوں کا قلع قمع کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح میڈیا عوام کی مسیحائی کا فریضہ و کردار احسن و بھرپور طریقے سے ادا کرسکتا ہے۔
پولیس رپورٹ بتاتی ہے کہ اس سال 402 ہلاکتیں نامعلوم گاڑیوں سے ہوئیں جن کے مرتکب ڈرائیور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عام طور پر ایسے ڈرائیور گرفتار بھی ہوجائیں تو ان کی فوری ضمانتیں ہوجاتی ہیں۔ پولیس رپورٹس ان کے حق میں کردی جاتی ہیں، اس سلسلے میں پولیس، سرکاری وکلا، عدالتی عملہ کی آؤ بھگت اور خاطر مدارات کی جاتی ہیں۔ گواہ ملتے نہیں، ملتے ہیں تو انھیں خوف زدہ کردیا جاتا ہے یا عدالتوں کے چکر کاٹ کر تنگ آجاتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ مالکان اور ان کی انجمنیں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں جن کے پینل پر وکیل، گواہ، بدمعاش اور پولیس اہلکار سب ایک ٹیلی فون کے فیصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کے عہدیدار متوفی کے گھر پر جاکر فاتحہ پڑھتے ہیں پھر انھیں وعظ کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اﷲ کی طرف سے تھا، موت ایسے ہی لکھی تھی اسے کوئی ٹال نہیں سکتاتھا۔ ڈرائیور غریب آدمی ہے، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے، بوڑھے و معذور ماں باپ فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
عام طورپر لواحقین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اب زندگی تو واپس نہیں آسکتی لہٰذا قصاص یا ڈرائیور کو سزا دلوا کر کیا کریں گے۔ وہ مرنے والے کے خون کا معاوضہ لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ حالانکہ عدالتیں اس قسم کے حادثات میں جرم ثابت ہونے پر Fatal Accident کے تحت لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے تک کے معاوضات بڑی فراخدلی سے دلواتی ہے۔ اس قسم کے فیصلے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں لیکن عام لوگ ان سے لا علم رہتے ہیں۔ انھیں عدالتوں سے انصاف کی توقع کم ہوتی ہے، اگر پورے ملک میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد کا جائزہ لیاجائے تو شاید ان کا تناسب دہشت گردی اور ڈرونز حملوں میں مرنے والے سے زیادہ ہو۔ لیکن تماشہ در تماشہ لگانے والے ہمارے حکمرانوں کو اس بڑے قومی مسئلے پر توجہ دینے اور اس سلسلے میں قوانین سخت کرنے، ان پر عمل کروانے اور نئی قوانین سازی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ وقتی، نمائشی اور علامتی قسم کی قانون سازی کا انبار لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹریفک نظام عوام کے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی عوارض کی بڑی وجہ ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے میڈیا کا کردار بھی انتہائی نامناسب ہے۔ آج کل بعض ٹی وی چینلز سے حادثات پر فلمیں پیش کی جاتی ہیں، ان اندوہناک مناظر کو دیکھ کر صحت مند لوگوں کا اعصابی نظام بھی تناؤ کا شکار ہوجاتاہے۔ کمزور، بیمار، بوڑھے اور خواتین تو انھیں دیکھنے کی تاب ہی نہیں لاتے، نوعمر افراد ایسے پروگرام دیکھ کر یوں قہقہہ لگاتے ہیں جیسے کوئی کارٹون فلم دیکھ رہے ہوں کیوںکہ پس پردہ موسیقی اور کمنٹری میں جب کسی حادثے کے لیے دھول چٹانے کے الفاظ ادا کیے جائیں گے تو لامحالہ نوجوانوں کا یہ ردعمل ہی سامنے آئے گا اور عبرت و اصلاح کے بجائے تفریح کا پہلو سمجھا جائے گا۔ ہمارے سیاست دانوں و حکمرانوں کا بھی یہ حال ہے کہ حساس قسم کے قومی معاملات پر وہ اس قسم کا رویہ اور ٹرمنالوجی استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی سنجیدگی اور اخلاص کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ حادثات کی فلمیں دکھاکر بتایا جائے کہ یہ حادثہ کیوں پیش آیا، کس کی اور کیا غلطی تھی، کون سے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی گئی تھی جو حادثے کا سبب بنی، حادثے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں اور ان کے خاندان پر کیا گزری، غلطی کے مرتکب ڈرائیور پر کون سی دفعات لگیں، ان کی کیا سزا ہوسکتی ہے یا کیا سزا ہوئی، اس کے گھر والے کن مصائب کا شکار ہوئے، ڈرائیور کا ضمیر کیا کہتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے پروگراموں میں ٹریفک پولیس کے ذمے داران، ٹریفک انجینئرنگ کے ماہرین، قانون دان، ماہر نفسیات، شعبہ حادثات کے ڈاکٹروں، ایمبولینس ڈرائیورز، سماجی و مذہبی رہنماؤں اور حادثے کا شکار ہونے والوں یا ان کے لواحقین کو شامل کرلیا جائے تو حادثات کی تکنیکی وجوہات، ان کے تدارک کی تجاویز، ٹریفک قوانین سے آگاہی، حادثات سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے اعداد و شمار اور متعلقین اور ان کے اہل خانہ کے مصائب و مشکلات اور اس سلسلے میں انسانی اقدار، اخلاقیات اور مذہبی تقاضوں سے روشناس کرا کر عام شہریوں کو قانون کی پاسداری اور ٹریفک اصولوں کی پابندی کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔
آج کل ٹی وی چینلز پر ایسے پروگراموں کی بھی بہتات ہوگئی ہے کہ میزبان کسی املاک (private premises) میں داخل ہوجاتا ہے مثلاً مٹھائی، گھی، تیل، گٹکا، سپاری، مصالحہ، حلیم تیار کرنے والے کارخانے، اسکول، اسپتال، قبرستان یا منشیات و فحاشی کے اڈوں وغیرہ میں ان کی خفیہ ریکارڈنگ بھی کی جاتی ہے اور اعلانیہ چیلنج بھی کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا رویہ اختیار اور مکالمہ ادا کیے جاتے ہیں جنھیں دیکھنا اور سننا بھی باعث شرم محسوس ہوتا ہے بلکہ یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ پروگرام کسی خاص مقصد کا حصہ یا پیشہ ورانہ رقابت کی بنا پر کیا جارہا ہے۔ یقیناً ایسے گھناؤنے کاروبار میں شریک عناصر انسانیت اور ملک و قوم کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا فوری تدارک ہونا چاہیے اور ان کے سرپرستوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے لیکن ایسے پرگراموں کے نشر ہوجانے کے بعد بھی مرتکب افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کاروبار میں ملوث دیگر افراد کے علاوہ عام لوگوں میں بھی یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پیسہ اور تعلقات ہونے چاہئیں، قانون اور میڈیا کی تو حیثیت نہیں، ہمارے تمام ریاستی اداروں کی بربادی کی وجہ یہ ہے کہ اس میں پرسنل مینجمنٹ کے بنیادی اصول Right Man On Right job کے اصول کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ میڈیا سے متعلق افراد کو اس قسم کی کارروائی کرنے سے قبل تمام قانونی و اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ کسی کی نجی املاک میں داخل ہوکر اس سے سوال جواب کرنے کا اخلاقی، قانونی جواز اور دائرہ کار کیا ہے، جن کاروبار یا عناصر پر چھاپہ مار کارروائی کرنی ہو ان کی متعلقہ کنٹرولنگ اتھارٹی کون سی ہیں، ان پر کون سے قوانین اور حد بندیاں لاگو ہوتی ہیں۔ ان کے تدارک کے کون سے طریقے ہیں؟ جب ایسے عناصر کو بے نقاب کیا جاتا ہے ساتھ ہی متعلقہ ارباب اختیار سے ان پر عائد منصبی ذمے داریوں اور اختیارات کے استعمال سے متعلق سوالات ہونے چاہئیں کہ ان کے دائرہ اختیار اور حدود کے اندر یہ سرگرمیاں و کاروبار کیسے اور کیونکر چل رہے تھے۔
اب وہ اس پر کیا کارروائی کررہے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ اس کا فیڈ بیک بھی لینا چاہیے اور اسے عوام اور اعلیٰ حکومتی ارباب اختیار تک پہنچانا چاہیے کہ فلاں ایس ایچ او، فلاں ڈائریکٹر فوڈ، ہیلتھ یا دیگر ذمے داروں تک یہ شکایات، انکشافات اور ثبوت پہنچائے گئے، جس پر یہ کارروائی ہوئی یا نہیں ہوئی، کارروائی نہ ہونے کی صورت میں آئی جی پولیس، متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز اور متعلقہ وزراء اور وزیراعلیٰ تک بتدریج رسائی کی جانی چاہیے۔ آج کا میڈیا اتنا موثر ہے کہ آن لائن اعلیٰ سے اعلیٰ حکومتی شخصیات تک رسائی رکھتا ہے۔ وہ ٹیلی فون بند کرکے دفتروں سے غائب ہوجانے والے افسران کے بند ٹیلی فون اور خالی دفاتر کے مناظر دکھاکر انھیں آن لائن پروگرام میں شرکت اور اپنے موقف کے اظہار کی دعوت دے کر عوامی دباؤ بڑھا سکتا ہے، جس سے عملاً ایسے عناصر اور ان کے سرپرستوں کا قلع قمع کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح میڈیا عوام کی مسیحائی کا فریضہ و کردار احسن و بھرپور طریقے سے ادا کرسکتا ہے۔