شہید بھٹو کا یوم ولادت
5 جنوری 1978 کو جب شہید بھٹو لاہورمیں پابند سلاسل تھے تو انکی سالگرہ پورے ملک میں ’’یوم جمہوریت‘‘ کے طور پر منائی گئی
5 جنوری 1938 کو لاڑکانہ میں پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ 1977 تک سادگی سے خاندانی تقریب کے طور پر منائی جاتی تھی لیکن 5 جنوری 1978 کو جب شہید بھٹو لاہور میں پابند سلاسل تھے تو ان کی سالگرہ پور ے ملک میں ''یوم جمہوریت'' کے طور پر منائی گئی اور آج تک 5 جنوری یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ اس یوم جمہوریت کی تاریخ ہے۔
5 جولائی کو مارشل لاء کے بعد بھٹو کو وزیراعظم ہاؤس سے حفاظتی حراست میں مری لے جایا گیا۔ 28 جولائی کو انھیں رہا کردیا گیا، جس کے بعد بھٹو نے رابطے کا سلسلہ شروع کردیا اور لاہور سے بذریعہ ٹرین کراچی کا سفر کیا۔ ہر اسٹیشن پر بھٹو کا زبردست استقبال ہوتا تھا اور وہ عوام سے خطاب بھی کرتے تھے، عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا۔ جب وہ کراچی 3 اگست کو کینٹ اسٹیشن پہنچے تو عوام کی بہت بڑی تعداد نے بھٹو کا شاندار استقبال کیا۔ ان کا قافلہ کینٹ اسٹیشن سے 70 کلفٹن چارگھنٹے میں پہنچا تھا۔ یہ صورتحال فوجی آمر کے لیے پریشان کن تھی۔ بھٹو نے پی پی پی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس 3 اگست کو طلب کیا، اجلاس سے قبل ہی سینٹرل کمیٹی کے متعدد ارکان سمیت کئی رہنما مارشل لاء12 کے تحت نظر بند کردیے گئے۔ اس صورتحال میں بھٹو کی صدارت میں 3 اگست کو اجلاس ہوا جو دو روز جاری رہا۔ ضیاء الحق کے اعلان کردہ 18 اکتوبر 1977 کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا اور انتخابات کے لیے پروگرام طے کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بھٹو انتخابی مہم کا آغاز لاہور سے کریں گے۔
اس طرح اگست میں کراچی میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو 18 اکتوبر کے انتخابات کے لیے ٹکٹ دے دیے گئے۔ کراچی میں انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا تھا، بھٹو صاحب کے طوفانی دورے جاری تھے کہ 3 ستمبر1977 کو بھٹو شہید کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ بھٹو کراچی سینٹرل جیل میں تھے، جیل کے سامنے حیدرآباد کالونی میں پارٹی کا جلسہ عام رکھا گیا۔ دوسرے دن بھٹو کی رہائی کے لیے ملک کے طول و عرض میں کارکنوں کے مظاہرے شروع ہوگئے۔ ادھر لاہور میں بھٹو کو 13 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کردیا۔ بھٹو 15 ستمبر کی رات کراچی تشریف لائے، انھوں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی، جو ان کی آخری پریس کانفرنس تھی۔
اگلے دن وہ عید منانے کے لیے لاڑکانہ چلے گئے، جہاں عید کے دن 17 ستمبرکو المرتضیٰ لاڑکانہ سے گرفتار کرلیے گئے۔ ان کی گرفتاری پر ملک بھر میں شدید ردعمل ہوا، پارٹی کے کئی اہم رہنما گرفتار کرلیے گئے، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پوری شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئیں اور انتخابی مہم کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 20 ستمبر کو بیگم نصرت نے بھٹو کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی۔ اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس یعقوب علی خان تھے، جنھوں نے بھٹو کی گرفتاری کے خلاف بیگم نصرت بھٹو کی آئینی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی، جس پر چیف جسٹس یعقوب علی خان کو 23 ستمبر کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 9 اکتوبر کو نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں بھٹو کی ضمانت منسوخ کردی اور 11 اکتوبر کو باقاعدہ فرد جرم بھی عائد کردی۔ اس طرح بھٹو کو اس مقدمے میں عدالتی قتل تک جیل میں ہی رکھا گیا۔
دسمبر 1977 کے آخری ہفتہ میں بیگم نصرت بھٹو کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بھٹو کی 5 جنوری کو سالگرہ کا دن یوم جمہوریت کے طور پر منایا جائے گا، ملک بھر میں کارکنان اپنے اپنے اضلاع میں ریلیاں نکالیں گے اور ضرور ت پڑی تو رضاکارانہ گرفتاریاں دیں گے۔ پارٹی کارکنوں میں جوش و جذبے کی تازہ لہر پیدا ہوئی کیونکہ اب ''پارٹی لائن'' آگئی تھی۔ دوسری طرف فوجی انتظامیہ نے گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو لاہور میں نظر بند کردیا گیا تھا۔
بیگم نصرت بھٹو کے یوم جمہوریت منانے کے فیصلے کے بعد پارٹی کے کئی ''بڑے رہنما'' فرار کا راستہ تلاش کررہے تھے مگر کارکنوں کی سطح پر یوم جمہوریت کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ وقت بہت کم تھا، 29 دسمبر سے لے کر 5 جنوری تک پارٹی تنظیموں کے اجلاس کرنا پمفلٹ تیار کرنا کہ جس کی چھپائی اور تقسیم پر مارشل لاء ضابطے کے تحت گرفتاری اور سزا ہوتی تھی، سرگرم کارکنوں کو زیر زمین رہ کر کام کرنے کی ہدایت اور ان تک پیغام رسانی کی حکمت عملی، اسیر کارکنو ں کے اہل خانہ کو حوصلہ دینے کے لیے ان کے گھروں کا دورہ، اسیر کارکنوں کو جیل میں ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی، یہ سب کام پارٹی کی ضلعی اور وارڈ کی تنظیمیں کررہی تھیں۔ ڈویژنل قیادت غیر فعال تھی۔ کراچی میں سرگرم کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نظر بند تھی، اس تمام صورتحال کے باوجود ''جمہوریت پسندوں'' نے ''مصلحت پسندوں'' کا راستہ روک دیا۔
4 جنوری 1978 کی شام تمام اخبارات کو 5 جنوری کے پروگرام کی تفصیلات جاری کردی گئی، یہ تاریخی پریس ریلیز تھی، یہاں اس کی تفصیل مضمون کو طویل کردے گی لیکن یہ تاریخ کا حصہ ہے جس میں کراچی کے ہر علاقے سے کارکنوں کی ریلیاں نکالنے کا پروگرام دیا گیا تھا اور قیادت کرنے والے رہنماؤں کے نام بھی دیے گئے تھے۔
5 جنوری کو مولانا احترام الحق تھانوی بڑی جرات اور بہادری کے ساتھ اختر چاؤلہ مرحوم کی ہنڈا پر میمن مسجد پہنچے، نماز ظہر ادا کی اور جب کارکنوں کے ساتھ زبردست نعروںکی گونج میں مسجد سے باہر آئے تو جو کچھ پولیس نے ان کے ساتھ کیا سو کیا، لیکن مولانا احترام الحق تھانوی اس دن پاکستان کے بہادر سیاسی رہنما بن گئے، ان کی گرفتاری پر بی بی سی نے 10 منٹ کا پروگرام نشر کیا۔ ملک کے طول و عرض میں ''یوم جمہوریت'' پر ایک دن میں پانچ ہزار سے زیادہ گرفتاریاں کی گئیں۔ اس دن یوم جمہوریت نے آمریت کے چہرے سے ''غیر جانبدار ریفری'' کا نقاب نوچ کر ضیاء الحق کے مکروہ عزائم کو بے نقاب کردیا اور پاکستان بھر میں آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک کی تاریخ کا آغاز کردیا۔ بیگم نصرت بھٹو کے جرات مندانہ فیصلے نے شہید بھٹو کے یوم ولادت کو ''یوم جمہوریت'' کا نام دے کر تاریخ کا سنہرا باب بنادیا۔ مصلحت پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے درمیان فیصلہ کردیا تھا۔