نہتی لڑکی … بے نظیر بھٹو
’’ جس دھج سے کوئی مقتل کو چلا وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘ اور جان سے گزرنے والے کی شان برسوں گزرگئے آج بھی سلامت ہے
پھر کاگا بولا، من کے سونے آنگن میں
پھر ساون رت کی پون چلی، تم یاد آئے
لوگ اسے رانی کہتے تھے، ہاں وہ رانی ہی تھی،کروڑوں دلوں پر راج کرنے والی رانی، اس کا نام بے نظیرتھا، ہاں وہ بے نظیر ہی تھی، زندگی گزارتے ہوئے اس نے جو نشیب و فراز دیکھے جن کٹھنائیوں سے گزری وہ کندن بن چکی تھی۔ ایک امیرکبیر گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی، دنیا کی بہترین درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی، مگر اس کا مہربان دل غریبوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ اس کو پے در پے اتنے بڑے بڑے صدمے ملے کہ جنھوں نے اس پر سچائیوں کے سارے در کھول دیے، زندگی کیا ہے! وہ یہ راز پاگئی تھی۔ اپنے ماں باپ کی چہیتی،2بہن بھائیوں میں سب سے بڑی، اس کا باپ خداداد صلاحیتوں سے مالا مال، قدرت نے خاص طور پر اسے دور تک دیکھنے والی آنکھ عطا کی تھی۔ مستقبل میں دور تلک جھانکنے کی عادت نے ہی اس کے دشمنوں کو ہوشیارکردیا تھا اور وہ چوکنا رہنے لگے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی سمجھ چکا تھا کہ عیار دشمن اس کے ارادوں کو بھانپ چکا ہے اور اگر اب واپسی کا کوئی امکان بھی تھا تو اسے پیچھے ہٹنا منظور نہیں تھا۔اب اس کے مزاج کے مطابق صرف آگے بڑھنے کا ہی راستہ رہ گیا تھا اور وہ راستہ مقتل کی طرف جاتا تھا۔ مضبوط ارادوں والا رانی بے نظیر کا باپ مقتل کی جانب چلتا رہا اور سرخروئی کی منزل سے گزرگیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے سر نہیں جھکایا۔ اگر وہ سر جھکادیتا تو مقتل سے جھکا ہوا سر ملتا مگر اس نے سر اٹھاکر پھانسی کا پھندا پہنا اور یوں مقتل سے جو سر باہر آیا وہ بلند تھا۔ ہمیشہ ہمیشہ بلند رہنے والا سر مقتل سے باہر آیا۔
'' جس دھج سے کوئی مقتل کو چلا وہ شان سلامت رہتی ہے'' اور جان سے گزرنے والے کی شان برسوں گزرگئے آج بھی سلامت ہے۔ رانی بے نظیر اپنی ماں کے ساتھ جیل میں بند تھی۔ بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے خوفزدہ تھے۔ ضیاء الحق کا حکومت پر غاصبانہ قبضہ تھا۔ وہ سیاہ و سفید کا ملک بنا بیٹھا تھا، سارے کے سارے بے ضمیرے، کیا سیاست کار،کیا قلم کار، کیا صنعت کار، کیا جبہ ودستار، سب ہمیشہ کی طرح سرکار کے در پر سرجھکائے حاضر تھے۔ مگر اتنا کچھ ہونے کے باوجود ''بوٹوں والے'' ایک نہتی لڑکی رانی بے نظیر سے ڈررہے تھے، لرزرہے تھے، یہ ڈر، یہ لرزاہٹ کیوں تھی؟ اس لیے کہ ذوالفقار علی نے ''احترام رسم'' نبھاتے ہوئے سر کٹوالیا جھکایا نہیں۔
دنیا بھر سے پیشکش موجود تھی کہ ''پاکستان چھوڑ کر باہر چلے جاؤ'' آمر بھی کہہ رہا تھا ''سر! باہر چلے جائیں'' مگر اس نے صاف انکارکردیا ، دراصل وہ تاریخ میں ''سر بلند'' زندہ رہنا چاہتا تھا اور وہ کامیاب ہوگیا۔
ایسا بہت کم ہوتاہے کہ اولاد بھی ماں باپ کی طرح ثابت قدم ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بچے بھی اپنے عظیم باپ کے چھوڑے ہوئے قدموں کے نقوش پر چلتے ہوئے جان سے گزرگئے۔ ایک بیٹے کو زہر دے کر ماردیا گیا اور دوسرے جوان پتر کو اپنے ہی گھر کے دروازے پر گولیاں برساکر ختم کردیاگیا۔ دیر تک چھلنی جسم سڑک پر تڑپتا رہا خون بہتارہا اور پھر ساکت جسم کو سڑک سے کسی نے نہیں اٹھایا جب مکمل اطمینان ہوگیا تو لاش کو قریبی اسپتال پہنچایاگیا۔
رانی بہن حکمران تھی، وزیراعظم تھی اور طاقتور دشمن نے بھائی کو ماردیا تھا میں نے بھی وہ منظر دیکھا پوری دنیا دیکھ رہی تھی ملک کی سربراہ اپنے بھائی کی لاش لینے جناح اسپتال کے مردہ خانے کی طرف بڑھ رہی تھی، رانی بے نظیر کا وفادار منور سہروردی ساتھ ساتھ چل رہا تھا (کچھ عرصے بعد منور سہروردی بھی دن دہاڑے قتل کردیاگیا) باپ کی پھانسی، ایک بھائی کو زہر اور دوسرے پر گولیوں کی بوچھاڑ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد رانی بے نظیر کے لیے دشمن کا واضح پیغام تھا کہ ''خاموشی سے زندگی گزارو'' جلد ہی بے نظیر کا اقتدار ختم کردیاگیا اور وہ ملک سے باہر چلی گئی۔
ایک بار پھر ''چڑھ آئیں، ہم پہ طوفان کی موجیں'' پرویز مشرف آگئے۔ بارہ سالہ جلاوطنی کے بعد رانی بے نظیر کو منزل آوازیں دینے لگی۔ آمر نے صاف صاف کہا ''مت آنا، جان کو خطرہ ہے'' مگر باپ کا بلند سر اور دونوں بھائیوں کی راہ حق میں شہادتیں بلارہی تھیں اور سب کچھ جانتے بوجھتے، رانی بینظیر بھی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی، سب سے بڑا ایئرپورٹ قائد اعظم کے نام سے منسوب، وہ 12اکتوبر 2007 کی شام تھی۔ آمر کے حواری تبصرہ کررہے تھے ''ہوائی اڈے کے باہر بمشکل پانچ ہزار لوگ ہیں'' اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانچ ہزار پانچ لاکھ میں بدل گئے۔ آمر کے تبصرے والے بھاگ کر گھروں میں چھپ گئے، کراچی شہر کی سب سے بڑی شاہراہ پر رانی بے نظیر کا جلوس رینگتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا۔ آدھی رات بیت چکی تھی، پانچ لاکھ کا مجمع دس لاکھ کا ہوچکا تھا کہ دو دھماکے ہوئے پہلے ایک چھوٹا اور پھر فوراً ہی بہت بڑا۔ آمر نے کہا تھا ''مت آؤ، جان کو خطرہ ہے'' کارروائی تو ٹھیک ٹھاک تھی مگر سرخروئی کی منزل ابھی ذرا دور تھی، رانی بے نظیر کے 156 جانثاروں نے اس رات منزل کو پا لیا، رانی بے نظیر بچ گئی مگر صبح ہوتے ہی وہ لیاری میں شہداء کے لواحقین کے ساتھ بیٹھی تھی۔ غریب لوگ بوسیدہ گھر رانی بے نظیر کا دل ان ہی کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ لہٰذا وہ وہاں پہنچی، غم زدہ ماں، بیوی، بہنوں کو گلے لگایا، بچوں کو گود میں بٹھایا ور پیغام دیا کہ ''میں ابھی زندہ ہوں'' 1986میں ضیاء الحق کے دور اقتدار میں رانی بے نظیر لاہور ایئرپورٹ اتریں تب بھی نہتی لڑکی سے طاقت ور گروہ ڈر رہے تھے اور اس وقت ضیا کے اقتدار کے زمانے میں حبیب جالب نے ''نہتی لڑکی'' کا یوں سواگت کیا تھا۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملا، تاجر، جنرل جیالے، ایک نہتی لڑکی سے
آزادی کی بات نہ کر لوگوں سے نہ مل یہ کہتے ہیں
بے حس، ظالم، دل کے کالے، ایک نہتی لڑکی سے
دیکھ کے اس صورت کو جالب، ساری دنیا نہتی ہے
بلوانوں کے پڑے ہیں پالے، ایک نہتی لڑکی سے
اور2007 میں پرویز مشرف بھی کہہ رہاتھا ''مت آؤ جان کو خطرہ ہے'' اور نہتی لڑکی خطروں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سرخروئی کی منزل کی طرف مسلسل بڑھ رہی تھی۔
وہ 27دسمبر 2007 کی ایک شدید سرد شام تھی، پہاڑوں کے درمیان راولپنڈی شہر کا لیاقت باغ، لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آخری لمحات میں بھی رانی بے نظیر کو جلسے میں جانے سے روکا جارہاتھا۔ ''بی بی خطرہ ہے'' مگر وہ نہیں مانی اور جلسہ گاہ پہنچی، اس کا جوشیلا خطاب شدید سرد شام کو پسپا کر رہا تھا۔ لوگ پرجوش ہوکر نعرہ زن تھے۔ باہر سردی تھی مگر لیاقت باغ کی فضاء گرم تھی جلسہ ختم ہوا، نہتی لڑکی روانہ ہو رہی تھی اور پھر وہ روانہ ہوگئی۔ سرخروئی کی منزل گڑھی خدا بخش میں اس کی منتظر تھی، باپ، دونوں بھائی، نہتی لڑکی کے لیے کھڑے ہیں۔ آزادی کی تین مشعلوں میں چوتھی کا اضافہ ہونے جا رہا تھا۔ کہتے ہیں سال کے بارہ مہینے لوگ آتے ہیں اور اپنے من اجالتے ہیں، چلے جاتے ہیں پھر آتے ہیں، اور یہ آنا جانا لگا رہتا ہے۔
ناصر کاظمی کے مصرعوں کے ساتھ اجازت ؎
پھر کاگا بولا من کے سونے آنگن میں
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر ساون رت کی پون چلی، تم یاد آئے
لوگ اسے رانی کہتے تھے، ہاں وہ رانی ہی تھی،کروڑوں دلوں پر راج کرنے والی رانی، اس کا نام بے نظیرتھا، ہاں وہ بے نظیر ہی تھی، زندگی گزارتے ہوئے اس نے جو نشیب و فراز دیکھے جن کٹھنائیوں سے گزری وہ کندن بن چکی تھی۔ ایک امیرکبیر گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی، دنیا کی بہترین درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی، مگر اس کا مہربان دل غریبوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ اس کو پے در پے اتنے بڑے بڑے صدمے ملے کہ جنھوں نے اس پر سچائیوں کے سارے در کھول دیے، زندگی کیا ہے! وہ یہ راز پاگئی تھی۔ اپنے ماں باپ کی چہیتی،2بہن بھائیوں میں سب سے بڑی، اس کا باپ خداداد صلاحیتوں سے مالا مال، قدرت نے خاص طور پر اسے دور تک دیکھنے والی آنکھ عطا کی تھی۔ مستقبل میں دور تلک جھانکنے کی عادت نے ہی اس کے دشمنوں کو ہوشیارکردیا تھا اور وہ چوکنا رہنے لگے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی سمجھ چکا تھا کہ عیار دشمن اس کے ارادوں کو بھانپ چکا ہے اور اگر اب واپسی کا کوئی امکان بھی تھا تو اسے پیچھے ہٹنا منظور نہیں تھا۔اب اس کے مزاج کے مطابق صرف آگے بڑھنے کا ہی راستہ رہ گیا تھا اور وہ راستہ مقتل کی طرف جاتا تھا۔ مضبوط ارادوں والا رانی بے نظیر کا باپ مقتل کی جانب چلتا رہا اور سرخروئی کی منزل سے گزرگیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے سر نہیں جھکایا۔ اگر وہ سر جھکادیتا تو مقتل سے جھکا ہوا سر ملتا مگر اس نے سر اٹھاکر پھانسی کا پھندا پہنا اور یوں مقتل سے جو سر باہر آیا وہ بلند تھا۔ ہمیشہ ہمیشہ بلند رہنے والا سر مقتل سے باہر آیا۔
'' جس دھج سے کوئی مقتل کو چلا وہ شان سلامت رہتی ہے'' اور جان سے گزرنے والے کی شان برسوں گزرگئے آج بھی سلامت ہے۔ رانی بے نظیر اپنی ماں کے ساتھ جیل میں بند تھی۔ بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے خوفزدہ تھے۔ ضیاء الحق کا حکومت پر غاصبانہ قبضہ تھا۔ وہ سیاہ و سفید کا ملک بنا بیٹھا تھا، سارے کے سارے بے ضمیرے، کیا سیاست کار،کیا قلم کار، کیا صنعت کار، کیا جبہ ودستار، سب ہمیشہ کی طرح سرکار کے در پر سرجھکائے حاضر تھے۔ مگر اتنا کچھ ہونے کے باوجود ''بوٹوں والے'' ایک نہتی لڑکی رانی بے نظیر سے ڈررہے تھے، لرزرہے تھے، یہ ڈر، یہ لرزاہٹ کیوں تھی؟ اس لیے کہ ذوالفقار علی نے ''احترام رسم'' نبھاتے ہوئے سر کٹوالیا جھکایا نہیں۔
دنیا بھر سے پیشکش موجود تھی کہ ''پاکستان چھوڑ کر باہر چلے جاؤ'' آمر بھی کہہ رہا تھا ''سر! باہر چلے جائیں'' مگر اس نے صاف انکارکردیا ، دراصل وہ تاریخ میں ''سر بلند'' زندہ رہنا چاہتا تھا اور وہ کامیاب ہوگیا۔
ایسا بہت کم ہوتاہے کہ اولاد بھی ماں باپ کی طرح ثابت قدم ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بچے بھی اپنے عظیم باپ کے چھوڑے ہوئے قدموں کے نقوش پر چلتے ہوئے جان سے گزرگئے۔ ایک بیٹے کو زہر دے کر ماردیا گیا اور دوسرے جوان پتر کو اپنے ہی گھر کے دروازے پر گولیاں برساکر ختم کردیاگیا۔ دیر تک چھلنی جسم سڑک پر تڑپتا رہا خون بہتارہا اور پھر ساکت جسم کو سڑک سے کسی نے نہیں اٹھایا جب مکمل اطمینان ہوگیا تو لاش کو قریبی اسپتال پہنچایاگیا۔
رانی بہن حکمران تھی، وزیراعظم تھی اور طاقتور دشمن نے بھائی کو ماردیا تھا میں نے بھی وہ منظر دیکھا پوری دنیا دیکھ رہی تھی ملک کی سربراہ اپنے بھائی کی لاش لینے جناح اسپتال کے مردہ خانے کی طرف بڑھ رہی تھی، رانی بے نظیر کا وفادار منور سہروردی ساتھ ساتھ چل رہا تھا (کچھ عرصے بعد منور سہروردی بھی دن دہاڑے قتل کردیاگیا) باپ کی پھانسی، ایک بھائی کو زہر اور دوسرے پر گولیوں کی بوچھاڑ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد رانی بے نظیر کے لیے دشمن کا واضح پیغام تھا کہ ''خاموشی سے زندگی گزارو'' جلد ہی بے نظیر کا اقتدار ختم کردیاگیا اور وہ ملک سے باہر چلی گئی۔
ایک بار پھر ''چڑھ آئیں، ہم پہ طوفان کی موجیں'' پرویز مشرف آگئے۔ بارہ سالہ جلاوطنی کے بعد رانی بے نظیر کو منزل آوازیں دینے لگی۔ آمر نے صاف صاف کہا ''مت آنا، جان کو خطرہ ہے'' مگر باپ کا بلند سر اور دونوں بھائیوں کی راہ حق میں شہادتیں بلارہی تھیں اور سب کچھ جانتے بوجھتے، رانی بینظیر بھی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی، سب سے بڑا ایئرپورٹ قائد اعظم کے نام سے منسوب، وہ 12اکتوبر 2007 کی شام تھی۔ آمر کے حواری تبصرہ کررہے تھے ''ہوائی اڈے کے باہر بمشکل پانچ ہزار لوگ ہیں'' اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانچ ہزار پانچ لاکھ میں بدل گئے۔ آمر کے تبصرے والے بھاگ کر گھروں میں چھپ گئے، کراچی شہر کی سب سے بڑی شاہراہ پر رانی بے نظیر کا جلوس رینگتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا۔ آدھی رات بیت چکی تھی، پانچ لاکھ کا مجمع دس لاکھ کا ہوچکا تھا کہ دو دھماکے ہوئے پہلے ایک چھوٹا اور پھر فوراً ہی بہت بڑا۔ آمر نے کہا تھا ''مت آؤ، جان کو خطرہ ہے'' کارروائی تو ٹھیک ٹھاک تھی مگر سرخروئی کی منزل ابھی ذرا دور تھی، رانی بے نظیر کے 156 جانثاروں نے اس رات منزل کو پا لیا، رانی بے نظیر بچ گئی مگر صبح ہوتے ہی وہ لیاری میں شہداء کے لواحقین کے ساتھ بیٹھی تھی۔ غریب لوگ بوسیدہ گھر رانی بے نظیر کا دل ان ہی کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ لہٰذا وہ وہاں پہنچی، غم زدہ ماں، بیوی، بہنوں کو گلے لگایا، بچوں کو گود میں بٹھایا ور پیغام دیا کہ ''میں ابھی زندہ ہوں'' 1986میں ضیاء الحق کے دور اقتدار میں رانی بے نظیر لاہور ایئرپورٹ اتریں تب بھی نہتی لڑکی سے طاقت ور گروہ ڈر رہے تھے اور اس وقت ضیا کے اقتدار کے زمانے میں حبیب جالب نے ''نہتی لڑکی'' کا یوں سواگت کیا تھا۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملا، تاجر، جنرل جیالے، ایک نہتی لڑکی سے
آزادی کی بات نہ کر لوگوں سے نہ مل یہ کہتے ہیں
بے حس، ظالم، دل کے کالے، ایک نہتی لڑکی سے
دیکھ کے اس صورت کو جالب، ساری دنیا نہتی ہے
بلوانوں کے پڑے ہیں پالے، ایک نہتی لڑکی سے
اور2007 میں پرویز مشرف بھی کہہ رہاتھا ''مت آؤ جان کو خطرہ ہے'' اور نہتی لڑکی خطروں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سرخروئی کی منزل کی طرف مسلسل بڑھ رہی تھی۔
وہ 27دسمبر 2007 کی ایک شدید سرد شام تھی، پہاڑوں کے درمیان راولپنڈی شہر کا لیاقت باغ، لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آخری لمحات میں بھی رانی بے نظیر کو جلسے میں جانے سے روکا جارہاتھا۔ ''بی بی خطرہ ہے'' مگر وہ نہیں مانی اور جلسہ گاہ پہنچی، اس کا جوشیلا خطاب شدید سرد شام کو پسپا کر رہا تھا۔ لوگ پرجوش ہوکر نعرہ زن تھے۔ باہر سردی تھی مگر لیاقت باغ کی فضاء گرم تھی جلسہ ختم ہوا، نہتی لڑکی روانہ ہو رہی تھی اور پھر وہ روانہ ہوگئی۔ سرخروئی کی منزل گڑھی خدا بخش میں اس کی منتظر تھی، باپ، دونوں بھائی، نہتی لڑکی کے لیے کھڑے ہیں۔ آزادی کی تین مشعلوں میں چوتھی کا اضافہ ہونے جا رہا تھا۔ کہتے ہیں سال کے بارہ مہینے لوگ آتے ہیں اور اپنے من اجالتے ہیں، چلے جاتے ہیں پھر آتے ہیں، اور یہ آنا جانا لگا رہتا ہے۔
ناصر کاظمی کے مصرعوں کے ساتھ اجازت ؎
پھر کاگا بولا من کے سونے آنگن میں
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے