ترقی کی جاسکتی ہے
اس خاتون نے چونتیس سالہ کیمونسٹ حکومت کوہرایا جو ایک ناممکن سیاسی کام نظر آتاتھا۔
ممتابنیرجی2011سے ہندوستان کے صوبے، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ہیں۔انتہائی متحرک اورذہین سیاستدان۔ انھوں نے جوگمایہ دیوی کالج سے مسلمانوں کی تاریخ میں ایم اے کیاہواہے۔ قانون اورتعلیم میں بھی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔
یہ خاتون کانگریس کے پلیٹ فارم پربنگال میں نمایاں ہوئیں۔ والد پروملشور علاج نہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوا۔اس وقت ممتا بنیرجی سترہ برس کی تھی۔1984سے شروع ہونے والا سیاسی کیریئرآج تک جاری ہے۔مرکزی حکومت میں بھی کوئی ایسی اہم وزارت نہیں جس پریہ خاتون فائزنہ رہی ہو۔بنیرجی کی سیاسی پالیسی حددرجہ حیرت انگیز ہے۔
وزیربرائے کھیل کے طورپراس نے بھرپور کوشش کی کہ اپنے ملک میں کھیلوں کی ترویج کرے۔ کامیاب نہ ہونے پر1993میں خوداستعفیٰ دے ڈالاکہ اپنے شعبہ میں بہترکام نہیں کرسکی۔وزیربرائے ریلوے کے طورپرحددرجہ محنت کے ساتھ اس نے نہ صرف اپنے محکمہ بلکہ پورے ہندوستان میں سیاحت کوحددرجہ فروغ دے ڈالا۔اس کی وزارت اعلیٰ کے دورمیں مغربی بنگال کی ترقی کی شرح 13فیصدہوگئی۔پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ مغربی بنگال بن گیا۔انتہائی سادگی سے رہنے والی اس وزیراعلیٰ کے پاس چند ساڑھیاں اوردرمیانے درجہ کی رہائشگاہ ہے۔
اس خاتون نے چونتیس سالہ کیمونسٹ حکومت کوہرایا جو ایک ناممکن سیاسی کام نظر آتاتھا۔خاتون نے پوری زندگی سیاست کی نذر کر دی۔ مغربی بنگال کوترقی دینے کے خواب کوپوراکرنے کے لیے شادی تک نہیں کی۔ برصغیرمیں ایسے سیاستدان موجود تھے اورہیںجنھوں نے سیاست کوحقیقت میں خدمت سمجھ کرنبھایا۔آج بی جے پی،ہاتھ دھوکرپوری طاقت کے ساتھ اس وزیراعلیٰ کے پیچھے پڑی ہے۔
ریاستی الیکشن میں وہ ممتاکوہرانے کاہرحربہ استعمال کررہی ہے۔امیت شاہ جیسامتعصب انسان،مغربی بنگال میں پڑاؤڈالے ہوئے ہے کہ کسی بھی طریقے سے ریاستی الیکشن میں موجودہ وزیراعلیٰ کو ہرایاجاسکے۔مگرمغربی بنگال کے مقامی لوگ،اقلیتیں جانتی ہیں کہ بی جے پی دراصل کتنی متعصب اوراقلیت کش جماعت ہے۔کچھ عرصے کے بعدہونے والے الیکشن میں ممتابنیرجی کے دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے امکانات موجودہیں۔صوبے کوتیرہ فیصدتک ترقی دینے والی لیڈرہرگزہرگزمعمولی نہیں ہوسکتی۔ سادگی بھی لوگوں کے لیے مثال ہے اوریہی سب کچھ اس کی سیاسی طاقت ہے۔ہاں ایک اوربات،اس نے عام آدمی کواُمیددی ہے کہ حالات بہترہوسکتے ہیں۔ غربت کم ہوسکتی ہے اورزندگی کوبہترکیاجاسکتاہے۔
پاکستان اورہندوستان کی سیاست حددرجہ مختلف ہے۔مگرہرملک کی طرح سیاسی قائدین کواپنے علاقے،صوبے اورملک میں ترقی کی منزل پرپہنچانے کاخواب یکساں ہے۔ہمارے حکومتی قائدین بھی ملکی ترقی کے حساب سے اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم ایسی سیاسی پختگی کیوں حاصل نہیں کرپائے جوہماری اقتصادی طاقت میں تبدیل ہوجائے۔
اگر گوگل پر دنیا کے کرپٹ ترین سیاسی رہنماؤں کی غیر جانبدار فہرست دیکھیں،توپاکستان کے سیاسی خاندان سب سے آگے نظرآئیں گے۔حیران ہوجائینگے کہ جمہوریت کے پاکستان چمپئین ناجائزمنی لانڈرنگ،کمیشن خوری اور ناجائز دولت کمانے والوں میں سرِفہرست ہیں۔ان سیاسی لوگوں کو باربار مسندِ اقتدار پر بٹھایا، مگر ہرباریہ پہلے سے زیادہ بحری قزاق ثابت ہوئے۔
چنددانشورفرماتے ہیں کہ پانچ سال کی مدت کسی بھی حکومت کے لیے بہت کم ہے۔اتنے قلیل عرصے میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔مگریہ دلیل حقائق کی کسوٹی پرپوری نہیں اُترتی۔ماضی سے مثال دیتاہوں۔برصغیرمیں ترقی کی حیرت انگیزمثالیں شیرشاہ سوری نے قائم کی تھیں۔ اس کا دورِحکومت کتناطویل تھا۔
1540سے1545تک، صرف اورصرف پانچ برس۔اتنے کم عرصے میں ترقی کی کون سی ایسی جہت ہے جس پراس عظیم بادشاہ نے کام نہیں کیا۔ جن قائدین نے واقعی قوموں کوترقی کی شاہراہ پرگامزن کرنا ہو، ان کے لیے پانچ برس بھی بہت ہوتے ہیں اورجنھوں نے نعروں کے ذریعے لوگوں کواحمق بنانا ہو،ان کے لیے پنتیس برس بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ 2018سے پہلے کے حالات دیکھیے۔اس وقت عمران خان حددرجہ عوامی مقبولیت کاحامل تھا۔
لوگوں نے اس شخص کوصرف اس لیے ووٹ دیے تھے کہ ذاتی جدوجہد سے محیرالعقول کارنامے کرنے کاحوصلہ رکھتاتھا۔لوگوں کو یقین تھاکہ اس کے پاس جادوکی چھڑی ہے جس سے وہ ملک کی تقدیربدل دیگا۔ جن لوگوں نے زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔2018کے الیکشن میں باقاعدہ قطار میں لگ کراپناحقِ رائے استعمال کیا۔مگراس وقت لوگوں کی اکثریت اُمیدکے بجائے مایوسی کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔ماضی کے سیاستدان،منفی کاموں کے گروہیں۔وہ موجودہ وزیراعظم کاسیاسی بسترا گول کرناچاہ رہے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی ذات کی حدتک کوئی مالیاتی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔مگران کے ساتھیوں کے متعلق حددرجہ تشویشناک منفی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ جس طرح ڈھائی سال گزرنے کاپتہ نہیں چلا،بالکل اسی طرح اگلے دوڈھائی سال بھی چٹکیوں میں گزر جائینگے۔ عمران خان کو حقیقت پسندی اورسفاکیت کی حدتک اپنے سیاسی وعدوں پرعمل کرناچاہیے۔یہ ممکن اورناممکن کے درمیان پُل صراط والی کیفیت ہے اورعمران خان اگلے دوسال کیاکریگا،اس پرقطعی رائے نہیں دی جاسکتی۔
اگروزیراعظم،اپنی سرکاری رہائشگاہ کوچھوڑکرایک کنال کے سادہ سے سرکاری گھرمیں منتقل ہوجاتے ہیں توکیااس سے سادگی کے بیانیے پرعملدرآمدپرمثبت فرق نہیں پڑیگا۔اگرغیرملکی قیمتی گاڑیاں چھوڑکرعام پاکستانی گاڑیوں کواستعمال کرناشروع کردیں،توکیایہ بہترقدم نہیں ہوگا۔کیاسیاسی وعدوں کے مطابق تمام گورنر ہاؤسوں کوعوام کے لیے یونیورسٹیاں قراردیناکوئی غلط اقدام ہوگا۔کیاقصرِصدارت کی واقعی ہمیں ضرورت ہے۔ موجودہ صدرانتہائی عملیت پسندانسان ہیں۔اگرسیاسی سطح پرفیصلہ ہوجائے اورانھیں ایک مناسب سرکاری رہائشگاہ میں منتقل ہوناپڑے،تویہ حددرجہ سودمندبات ہوگی۔
بالکل اسی طرح،ملک کی اقتصادی غربت کو مدِنظر رکھ کروزارء اعلیٰ عمائدین کی شاہانہ رہائشگاہوں کوختمکرناغلط فیصلہ ہوگا۔کیاسرکاری سطح پر لینڈکروزر اورمرسیڈیزکے استعمال پرپابندی نہیں لگنی چاہیے۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہمسایہ ملک کی مثال دے رہا ہوں۔ کیاآزادی کے بعددہائیوں تک ہندوستان کے وزیراعظم اورتمام قائدین مقامی معمولی سی گاڑی استعمال نہیں کرتے رہے۔موجودہ وزیراعظم حددرجہ مشکلات کاشکار ہیں۔ کیایہ وقت نہیں کہ اقتصادی ٹیم سے پوچھاجائے کہ ملک کی ترقی اتنی کم کیوں ہوگئی ہے۔روپے کی قدراتنی گرکیوں گئی ہے۔
2018سے اگرصرف مہنگائی کاموازنہ کیاجائے توافسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔خان صاحب سے ابھی تک لوگوں کواُمیدبندھی ہوئی ہیں۔ کیاوہ قومی اسمبلی اورسینیٹ کے جوائنٹ سیشن کروا کر غیرمعمولی قانون پاس نہیں کرواسکتے۔کیاچیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کرنظام عدل کوفعال نہیں کیا جاسکتا۔ کیا پولیس اصلاحات کاڈول نہیں ڈالاجاسکتا۔کیااندرونی امن بحال کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے سنجیدہ مذاکرات واقعی کرناضروری نہیں ہے۔کیاپاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسلسل دشمنی کی پالیسی کوختم نہیں کر سکتا۔سیکڑوں کام ہیں جوچٹکی بجاتے ہوسکتے تھے۔
بجلی کے کارخانوں کومن مانی کرنے کی اجازت بہرحال ماضی کی حکومتوں نے دی ہے۔مگرکیاحکومتی قانونی طاقت اتنی کم ہے کہ ان کارخانوں سے عوام دوست نرخ نہیں لیے جاسکتے۔ مگر لگتا ایسے ہی ہے کہ شایدکچھ بھی نہیں ہو پائیگا۔اُمیدصرف نااُمیدی کے سفرمیں تبدیل ہوجائیگی۔ مستقبل کے دوڈھائی برس حددرجہ محنت بلکہ ریاضت کرنے کے سال ہیں۔اگرمغربی بنگال کی ہندوستانی وزیراعلیٰ،غیرملکی اقتصادی ٹیم کے بغیرتیرہ فیصدترقی کی شرح حاصل کرسکتی ہے،توہمیں کس نے روک رکھاہے؟اسی سوال میں شایدجواب چھپاہواہے؟
یہ خاتون کانگریس کے پلیٹ فارم پربنگال میں نمایاں ہوئیں۔ والد پروملشور علاج نہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوا۔اس وقت ممتا بنیرجی سترہ برس کی تھی۔1984سے شروع ہونے والا سیاسی کیریئرآج تک جاری ہے۔مرکزی حکومت میں بھی کوئی ایسی اہم وزارت نہیں جس پریہ خاتون فائزنہ رہی ہو۔بنیرجی کی سیاسی پالیسی حددرجہ حیرت انگیز ہے۔
وزیربرائے کھیل کے طورپراس نے بھرپور کوشش کی کہ اپنے ملک میں کھیلوں کی ترویج کرے۔ کامیاب نہ ہونے پر1993میں خوداستعفیٰ دے ڈالاکہ اپنے شعبہ میں بہترکام نہیں کرسکی۔وزیربرائے ریلوے کے طورپرحددرجہ محنت کے ساتھ اس نے نہ صرف اپنے محکمہ بلکہ پورے ہندوستان میں سیاحت کوحددرجہ فروغ دے ڈالا۔اس کی وزارت اعلیٰ کے دورمیں مغربی بنگال کی ترقی کی شرح 13فیصدہوگئی۔پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ مغربی بنگال بن گیا۔انتہائی سادگی سے رہنے والی اس وزیراعلیٰ کے پاس چند ساڑھیاں اوردرمیانے درجہ کی رہائشگاہ ہے۔
اس خاتون نے چونتیس سالہ کیمونسٹ حکومت کوہرایا جو ایک ناممکن سیاسی کام نظر آتاتھا۔خاتون نے پوری زندگی سیاست کی نذر کر دی۔ مغربی بنگال کوترقی دینے کے خواب کوپوراکرنے کے لیے شادی تک نہیں کی۔ برصغیرمیں ایسے سیاستدان موجود تھے اورہیںجنھوں نے سیاست کوحقیقت میں خدمت سمجھ کرنبھایا۔آج بی جے پی،ہاتھ دھوکرپوری طاقت کے ساتھ اس وزیراعلیٰ کے پیچھے پڑی ہے۔
ریاستی الیکشن میں وہ ممتاکوہرانے کاہرحربہ استعمال کررہی ہے۔امیت شاہ جیسامتعصب انسان،مغربی بنگال میں پڑاؤڈالے ہوئے ہے کہ کسی بھی طریقے سے ریاستی الیکشن میں موجودہ وزیراعلیٰ کو ہرایاجاسکے۔مگرمغربی بنگال کے مقامی لوگ،اقلیتیں جانتی ہیں کہ بی جے پی دراصل کتنی متعصب اوراقلیت کش جماعت ہے۔کچھ عرصے کے بعدہونے والے الیکشن میں ممتابنیرجی کے دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے امکانات موجودہیں۔صوبے کوتیرہ فیصدتک ترقی دینے والی لیڈرہرگزہرگزمعمولی نہیں ہوسکتی۔ سادگی بھی لوگوں کے لیے مثال ہے اوریہی سب کچھ اس کی سیاسی طاقت ہے۔ہاں ایک اوربات،اس نے عام آدمی کواُمیددی ہے کہ حالات بہترہوسکتے ہیں۔ غربت کم ہوسکتی ہے اورزندگی کوبہترکیاجاسکتاہے۔
پاکستان اورہندوستان کی سیاست حددرجہ مختلف ہے۔مگرہرملک کی طرح سیاسی قائدین کواپنے علاقے،صوبے اورملک میں ترقی کی منزل پرپہنچانے کاخواب یکساں ہے۔ہمارے حکومتی قائدین بھی ملکی ترقی کے حساب سے اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم ایسی سیاسی پختگی کیوں حاصل نہیں کرپائے جوہماری اقتصادی طاقت میں تبدیل ہوجائے۔
اگر گوگل پر دنیا کے کرپٹ ترین سیاسی رہنماؤں کی غیر جانبدار فہرست دیکھیں،توپاکستان کے سیاسی خاندان سب سے آگے نظرآئیں گے۔حیران ہوجائینگے کہ جمہوریت کے پاکستان چمپئین ناجائزمنی لانڈرنگ،کمیشن خوری اور ناجائز دولت کمانے والوں میں سرِفہرست ہیں۔ان سیاسی لوگوں کو باربار مسندِ اقتدار پر بٹھایا، مگر ہرباریہ پہلے سے زیادہ بحری قزاق ثابت ہوئے۔
چنددانشورفرماتے ہیں کہ پانچ سال کی مدت کسی بھی حکومت کے لیے بہت کم ہے۔اتنے قلیل عرصے میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔مگریہ دلیل حقائق کی کسوٹی پرپوری نہیں اُترتی۔ماضی سے مثال دیتاہوں۔برصغیرمیں ترقی کی حیرت انگیزمثالیں شیرشاہ سوری نے قائم کی تھیں۔ اس کا دورِحکومت کتناطویل تھا۔
1540سے1545تک، صرف اورصرف پانچ برس۔اتنے کم عرصے میں ترقی کی کون سی ایسی جہت ہے جس پراس عظیم بادشاہ نے کام نہیں کیا۔ جن قائدین نے واقعی قوموں کوترقی کی شاہراہ پرگامزن کرنا ہو، ان کے لیے پانچ برس بھی بہت ہوتے ہیں اورجنھوں نے نعروں کے ذریعے لوگوں کواحمق بنانا ہو،ان کے لیے پنتیس برس بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ 2018سے پہلے کے حالات دیکھیے۔اس وقت عمران خان حددرجہ عوامی مقبولیت کاحامل تھا۔
لوگوں نے اس شخص کوصرف اس لیے ووٹ دیے تھے کہ ذاتی جدوجہد سے محیرالعقول کارنامے کرنے کاحوصلہ رکھتاتھا۔لوگوں کو یقین تھاکہ اس کے پاس جادوکی چھڑی ہے جس سے وہ ملک کی تقدیربدل دیگا۔ جن لوگوں نے زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔2018کے الیکشن میں باقاعدہ قطار میں لگ کراپناحقِ رائے استعمال کیا۔مگراس وقت لوگوں کی اکثریت اُمیدکے بجائے مایوسی کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔ماضی کے سیاستدان،منفی کاموں کے گروہیں۔وہ موجودہ وزیراعظم کاسیاسی بسترا گول کرناچاہ رہے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی ذات کی حدتک کوئی مالیاتی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔مگران کے ساتھیوں کے متعلق حددرجہ تشویشناک منفی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ جس طرح ڈھائی سال گزرنے کاپتہ نہیں چلا،بالکل اسی طرح اگلے دوڈھائی سال بھی چٹکیوں میں گزر جائینگے۔ عمران خان کو حقیقت پسندی اورسفاکیت کی حدتک اپنے سیاسی وعدوں پرعمل کرناچاہیے۔یہ ممکن اورناممکن کے درمیان پُل صراط والی کیفیت ہے اورعمران خان اگلے دوسال کیاکریگا،اس پرقطعی رائے نہیں دی جاسکتی۔
اگروزیراعظم،اپنی سرکاری رہائشگاہ کوچھوڑکرایک کنال کے سادہ سے سرکاری گھرمیں منتقل ہوجاتے ہیں توکیااس سے سادگی کے بیانیے پرعملدرآمدپرمثبت فرق نہیں پڑیگا۔اگرغیرملکی قیمتی گاڑیاں چھوڑکرعام پاکستانی گاڑیوں کواستعمال کرناشروع کردیں،توکیایہ بہترقدم نہیں ہوگا۔کیاسیاسی وعدوں کے مطابق تمام گورنر ہاؤسوں کوعوام کے لیے یونیورسٹیاں قراردیناکوئی غلط اقدام ہوگا۔کیاقصرِصدارت کی واقعی ہمیں ضرورت ہے۔ موجودہ صدرانتہائی عملیت پسندانسان ہیں۔اگرسیاسی سطح پرفیصلہ ہوجائے اورانھیں ایک مناسب سرکاری رہائشگاہ میں منتقل ہوناپڑے،تویہ حددرجہ سودمندبات ہوگی۔
بالکل اسی طرح،ملک کی اقتصادی غربت کو مدِنظر رکھ کروزارء اعلیٰ عمائدین کی شاہانہ رہائشگاہوں کوختمکرناغلط فیصلہ ہوگا۔کیاسرکاری سطح پر لینڈکروزر اورمرسیڈیزکے استعمال پرپابندی نہیں لگنی چاہیے۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہمسایہ ملک کی مثال دے رہا ہوں۔ کیاآزادی کے بعددہائیوں تک ہندوستان کے وزیراعظم اورتمام قائدین مقامی معمولی سی گاڑی استعمال نہیں کرتے رہے۔موجودہ وزیراعظم حددرجہ مشکلات کاشکار ہیں۔ کیایہ وقت نہیں کہ اقتصادی ٹیم سے پوچھاجائے کہ ملک کی ترقی اتنی کم کیوں ہوگئی ہے۔روپے کی قدراتنی گرکیوں گئی ہے۔
2018سے اگرصرف مہنگائی کاموازنہ کیاجائے توافسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔خان صاحب سے ابھی تک لوگوں کواُمیدبندھی ہوئی ہیں۔ کیاوہ قومی اسمبلی اورسینیٹ کے جوائنٹ سیشن کروا کر غیرمعمولی قانون پاس نہیں کرواسکتے۔کیاچیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کرنظام عدل کوفعال نہیں کیا جاسکتا۔ کیا پولیس اصلاحات کاڈول نہیں ڈالاجاسکتا۔کیااندرونی امن بحال کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے سنجیدہ مذاکرات واقعی کرناضروری نہیں ہے۔کیاپاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسلسل دشمنی کی پالیسی کوختم نہیں کر سکتا۔سیکڑوں کام ہیں جوچٹکی بجاتے ہوسکتے تھے۔
بجلی کے کارخانوں کومن مانی کرنے کی اجازت بہرحال ماضی کی حکومتوں نے دی ہے۔مگرکیاحکومتی قانونی طاقت اتنی کم ہے کہ ان کارخانوں سے عوام دوست نرخ نہیں لیے جاسکتے۔ مگر لگتا ایسے ہی ہے کہ شایدکچھ بھی نہیں ہو پائیگا۔اُمیدصرف نااُمیدی کے سفرمیں تبدیل ہوجائیگی۔ مستقبل کے دوڈھائی برس حددرجہ محنت بلکہ ریاضت کرنے کے سال ہیں۔اگرمغربی بنگال کی ہندوستانی وزیراعلیٰ،غیرملکی اقتصادی ٹیم کے بغیرتیرہ فیصدترقی کی شرح حاصل کرسکتی ہے،توہمیں کس نے روک رکھاہے؟اسی سوال میں شایدجواب چھپاہواہے؟