مارشل لاء اور غربت
میانمار کی فوجی حکومت کی چین کے سوا کوئی ملک حمایت نہیں کررہا ہے۔
میانمار میں فوج نے طاقت کے ذریعہ پھر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی Aung San Suu Kyiکو پھر اسیر کردیا گیا۔ آنگ سان سوچی پر ایک دفعہ ملک دشمنی اور بدعنوانی کے الزامات عائد ہوگئے۔ میانمار کی تاریخ بھی تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سے فوج کے اقتدار اور غربت کی تاریخ ہے۔
یہ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ جنوب مشرقی ایشاء کا ملک میانمار جو برما کہلاتا تھا خلیج بنگال اور بحیرہ انڈمان کے دھانے پر ہے۔ اس کی سرحدیں شمال مغربی چین، لاؤس، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور بھارت سے ملتی ہیں۔ میانمار کی آبادی 2017کے اعداد و شمار کے مطابق 54 ملین ہے۔ میانمار میں مختلف نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ میانمار میں 87 فیصد سے زائد افراد کا مذہب بدھ مت ہے جب کہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا تناسب 16.2 اور اسلام کے پیروکاروں کا تناسب 4.3اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا تناسب 1.6 فیصد ہے۔
تاریخ دانوں نے اپنی تحقیق سے بتایا کہ 9ویں صدی میں جدید تہذیب کے اثرات اس خطہ میں نمایاں ہوئے اورPagal Kingdom قائم ہوئی۔بیگن سلطنت 1050تک اپنے جاہ و جلال کے ساتھ موجود تھی۔ منگول قبائل ایشیاء کے دیگر ممالک میں تباہی مچاتے ہوئے میانمار میں داخل ہوئے۔ بیگن سلطنت کے حکمراں منگول حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرپائے اور منگولوں نے اقتدار قائم کیا۔16ویں صدی میں Taungo Dynasty ٹنگو سلطنت قائم ہوئی اور 19ویں صدی تک قائم رہی۔ 19ویں صدی میں Kangaungسلطنت قائم ہوئی۔ 19ویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو اپنی نوآبادی میں شامل کیا۔
میانمارپرآسانی سے قبضہ کیا۔ اب میانمارکو ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ سے کنٹرول کرنا شروع کیا۔ 1857 میں ہندوستان میں جنگ آزادی ناکام ہوئی۔ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکا اقتدار اختتام پذیر ہوا اور برطانوی ہند حکومت نے ہندوستان کے علاوہ میانمار جو اس زمانہ میں برما کہلاتا تھا کا نظام حکومت سنبھال لیا۔ انگریزوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو جلاوطن کیا اور مغل بادشاہ کو رنگون بھیج دیا گیا جہاں ایک انگریز افسر نے بہادر شاہ ظفر اور ان کی اہلیہ کو اپنے بنگلہ کے سرونٹ کوارٹر میں قید رکھا۔ بہادر شاہ ظفر اس سرونٹ کوارٹر میں کسمپرسی کی حالت میں انتقال کرگئے، ان کا مزار رنگون میں ہے۔
برطانوی ہند حکومت نے میانمار کی بیوروکریسی اور فوج کی تربیت کی۔ برطانوی ہند حکومت نے 1935 میں ایک نیا قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت ہندوستان میں انتخابی اصلاحات ہوئیں اور میانمارکو انگریز نظام حکومت کے تحت خودمختاری دی گئی۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے برما پر حملہ کیا۔ ہندوستان کے فوجی جاپانی حملہ آوروں کو روکنے میں ناکام رہے اور جاپان میانمار پر قابض ہوگیا مگر جاپان کی کامیابی محدود عرصہ پر تھی۔ 1945میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم کی طاقت کو آزمایا اور جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔
بھارت اور پاکستان کی آزادی کے بعد 1948 میں میانمار آزاد ہوا ،تو میانمار میں ظلم وستم کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ایک سویلین حکومت قائم ہوئی مگر 1962 میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا اور برما سوشلسٹ پروگرام کی حکومت قائم ہوئی۔ میانمار اس دوران شدید نسلی تضادات کا شکار ہوا۔ اس علاقہ میں برسوں سول وار جیسی صورتحال رہی۔ اقوام متحدہ نے کوشش کی کہ سول وار کا خاتمہ ہو۔آنگ سان سوچی کے والد کو فوج نے قتل کرا دیا تھا۔
آنگ سان سوچی نے طویل عرصہ جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کے شوہر ایک غیر ملکی تھے جنھیں کینسر ہوا مگر آنگ سان سوچی کو اپنے شوہر کی عیادت کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے آنگ سان سوچی کو اعزازات دیے، انھیں انسانی حقوق کا نوبل انعام بھی ملا۔ قید کے دوران میانمار کے عوام کی جدوجہد 2010میں کامیاب ہوئی۔ انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت کامیاب ہوئی۔
2011 میں فوج اقتدار سے بظاہر دور ہوئی ۔ 2015 کے انتخابات میں آنگ سان سوچی کامیابی کے بعد اقتدار میں آئیں۔ ان کے دور میں ایک شدید مذہبی اور لسانی تضادات ابھرکر سامنے آئے۔ ایک چھوٹی مسلمان اقلیت کی نسل کشی ہوئی۔ میانمارکا آئین دو ایوانی مقننہ پر مشتمل ہے۔ آنگ سان سوچی مسلمان اقلیت کی حمایت کے بجائے اکثریت کے فرقہ بدوازم کے حملہ آوروں کی طرفدار ہوئیں۔
دنیا بھر میں آنگ سان سوچی کا امیج برباد ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعزازات واپس لیے۔ نوبل انعام دینے والے ادارہ نے اپنے قواعد وضوابط کی بناء پر نوبل انعام واپس لینے سے معذرت کی۔ بہرحال آنگ سان سوچی نے اپنے اقتدار کے دور میں بہت کچھ کھودیا مگر فوج نے آنگ سان سوچی کو اپنی راہ میں رکاوٹ جانا اور گزشتہ ہفتہ مسلح افواج نے پھر اقتدار پر قبضہ کیا۔ آنگ سان سوچی اور جمہوری حکومت کے عہدیداروں کی بدعنوانی کے خاتمہ اور احتساب کا عہد کیا۔
میانمار میں مسلح افواج کے اقتدار پر تحقیق کرنے والے محققین کاکہنا ہے کہ فوجی جنرلوں نے اپنے دور میں بے تحاشا اقتصادی فوائد حاصل کیے۔ فوجی جنرلوں اور فوجی افسروں نے ہی نہیں بلکہ ان فوجی افسروں سے متعلق خاندانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، یوں ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔ میانمار قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔
میانمار میں قدرتی گیس وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ گیس کے علاوہ قیمتی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ میانمار میں سولر پاورکا سب سے بڑا پلانٹ ہے۔ چین نے میانمار کی ترقی میں خصوصی دلچسپی لی اور ایک اقتصادی راہ داری تعمیرکی ہے مگر میانمار میں انتہائی غربت ہے اور جدید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں امراء اور عام آدمی کی آمدنی میں خطرناک حد تک فرق ہے۔
2019کے انسانی ترقی کے اعشاریہ H.D.I میں 189 ممالک میں میانمارکا درجہ 144 واں ہے مگر اس دفعہ میانمار کے عوام فوجی جنتا کے اقتدار کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ فوجی جنتا نے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کی ہے ،انٹرنیٹ کی سہولت بند ہے مگر عوام سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں، فوج عوام پر بے پناہ تشدد کررہی ہے مگر لگتا ہے کہ اس دفعہ فوج کو شکست ہوگی۔
میانمار کی فوجی حکومت کی چین کے سوا کوئی ملک حمایت نہیں کررہا ہے۔ آنگ سان سوچی نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک طرف تو انسانی حقوق کی پامالی پر خاموشی اختیار کرلی دوسری طرف فوج کے ریاستی معاملات میں مداخلت روکنے اور اختیارات محدود کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی غلطی کی تھی۔ جب تک ڈیپ اسٹیٹ کی اقتصادی ریاست ختم نہیں ہوگی ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی اور یہ ممالک غربت و افلاس اور مختلف نوعیت کے تضادات کا شکار رہیں گے۔