حضرت سید خواجہ خاوند محمودؒ
آپؒ کا اصل وطن موجودہ اُزبکستان کا شہر بُخارا تھا، جہاں 971ھ میں آپ کی ولادت ہوئی۔
حضرت سید خواجہ خاوند محمود ابنِ شریف نقشبندیؒ جو ''حضرت ایشاں'' کے نام سے جانے جاتے ہیں لاہور شہر کے علاقے بیگم پورہ میں مدفون ہیں۔ حضرت ایشاں یا آں شاں آپ کا لقب تھا۔ ''آں شاں'' فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ''وہ شان'' یعنی عوام میں بڑی شان والا۔ آپ کے مریدین اور عقیدت مند آپ کو احترام سے حضرت ایشاں کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ وہ تعظیمی کلمات ہیں جو ترکستان میں شیخ، مرشد، استاد، پیر اور راہ نما کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
آپؒ کا اصل وطن موجودہ اُزبکستان کا شہر بُخارا تھا، جہاں 971ھ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ اصل نام خاوند محمود تھا۔ جامع کمال و صاحب حال و قال ہونے کی وجہ سے آپ کو حضرت ایشاں کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد کا نام میر سیدمیرشریف نقشبندی بن خواجہ ضیاء ہے۔ وہ خوارزم کے سادات میں سے تھے جب کہ آپ کی والدہ ہاشمی خاندان سے تھیں جن کا شجرہ حضرت امام حسینؓ سے جا ملتا ہے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد سے حاصل کی اور بارہ برس میں قرآن شریف حفظ کیا۔ اپنے والد کے حکم پر بخارا سے مدرسہ سلطانیہ میں داخل ہو کر علومِ متداولہ کی تحصیل کی پھر راہِ سلوک میں قدم رکھا۔ آپ کو عربی اور فارسی میں ملکہ کامل حاصل تھا۔
آپ جب 18 برس کے ہوئے تو خواجہ محمد اسحاق سفید کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے جنہوں نے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کر کے اسباق و وظائف دیے اور منازل سلوک طے کرا کر خرقہ خلافت عطا کیا۔ اس کے علاوہ شاہ بہاؤالدین نقشبندیؒ سے نسبتِ اویسی حاصل ہونے کی ساتھ ساتھ خواجہ محمد قبادانی سے بھی فیض یاب ہوئے۔
صوفیانہ ذوق کی وجہ سے اکثر سیروسیاحت میں رہتے تھے۔ تیس سال کی عمر میں شہر وخش (جو ختلان کے قریب ہے) گئے اور پھر بلخ سمرقند ہرات قندھار سے ہوتے ہوئے کابل پہنچے جہاں پہلے وعظ میں ہی لوگوں پر وجد کی کیفیات طاری ہوگئیں۔ دو سال کابُل میں قیام کیا اور وہاں سے وادیٔ کشمیر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ایک مدرسہ و خانقاہ قائم کی پھر آگرہ چلے گئے۔
عہدشاہجہاں میں شاہجہاں کے حکم سے آپ مستقل لاہور آ گئے۔ آج جس جگہ آپ کا مقبرہ ہے تب یہاں ایک باغ اور خانقاہ تعمیر ہو رہی تھی، آپ یہیں اقامت گزیں ہوگئے۔ قیام لاہور میں اس وقت کا حاکمِ لاہور نواب وزیر خان (جو آپ کے مریدوں میں سے تھا) اکثر آپ کے پاس حاضر ہوتا تھا۔ لاہور میں آپ کا قیام 9 سال رہا جہاں آپؒ نے درس و تدریس اور علم باطنی کی ترویج کی۔
حضرت ایشاں کی12 شعبان بروز اتوار 1052ھ بمطابق 1642ء عہدشاہجہاں میں وفات ہوئی جب سعید خان بہادر جنگ، حاکمِ لاہور تھا تب شاہجہاں نے تجہیز و تکفین کے لیے سید جلال الدین صدرالصدور کو بھیجا۔ آپ کی پانچ بیٹیاں اور چھے بیٹے تھے جو تمام
آپؒ کا مزار بیگم پورہ میں یتیم خانہ دارالفرقان لاہور سے متصل واقع ہے۔ سفید رنگ کا مقبرہ جس کے بہت بلند و بالا گنبد تلے تین قبریں ہیں۔ پہلی قبر حضرت ایشاںؒ کی دوسری میر جان نقشبندی کی اور تیسری قبر ان کے چھوٹے بھائی سید محمود آغا کی ہے۔
حضرت ایشاں کے معاصرین میں حضرت مجددالف ثانیؒ، حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، حضرت شاہ حسین بلاول قادریؒ اور مفتی عبد السلام شیخؒ شامل ہیں۔
حضرت ایشاں نے بے شمار لوگوں کو راہ حق پر گام زن کیا۔ آپ کے 16 خلفاء ہیں جنہیں مختلف علاقوں لوگوں کی رشد وہدایت کے لیے مامور فرمایا۔ ان میں خواجہ خاوند احمد جو آپ کے فرزند تھے، خواجہ عبد الرحیم نقشبندی جو خواجہ علاؤ الدین عطار کی اولاد میں سے تھے، خواجہ سید یحییٰ جو شاہ شجاع کرمانی کی اولاد سے تھے، خواجہ عبد العزیز وحید، خواجہ ترسون المعروف خواجہ باقی، خواجہ شادمان کابلی، خواجہ مرزا ہاشم جو خواجہ دیوانہ بلخی کے بھائی تھے، خواجہ لطیف درخشی، خواجہ مرزاابراہیم جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے بھائی ہیں، خواجہ باندی کشمیری، خواجہ حاجی طوسی، حاجی ضیاء الدین، خواجہ ابو الحسن سمرقندی، مولانا پائندہ حارثی اور خواجہ معین الدین احمد نقشبندی جو آپ کے فرزند تھے، شامل ہیں۔
یہاں ایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ علامہ محمد اقبالؒ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال، سلطان العارفین حافظ محمد مظفر ہجویری نظامیؒ، میجر محمد سرور شہید (شہادت بمقام چھمب جوڑیاں، 6 ستمبر 1965) ، ان کی بیوی ریحانہ سرور اور مولوی حاکم علی صاحب (سابق پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور) جیسے نام ور لوگوں کی قبریں بھی اسی مقبرے کے پاس والے قبرستان میں موجود ہیں۔ جانے والے دوست ان کی قبروں پر بھی فاتحہ پڑھ سکتے ہیں۔
حوالہ جات ؛
تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ692، مشتاق بک کارنر، لاہور۔
تذکرہ اولیاء پاکستان جلد دوم، صفحہ 277 تا282، عالم فقری، شبیر برادرز، لاہور۔
آپؒ کا اصل وطن موجودہ اُزبکستان کا شہر بُخارا تھا، جہاں 971ھ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ اصل نام خاوند محمود تھا۔ جامع کمال و صاحب حال و قال ہونے کی وجہ سے آپ کو حضرت ایشاں کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد کا نام میر سیدمیرشریف نقشبندی بن خواجہ ضیاء ہے۔ وہ خوارزم کے سادات میں سے تھے جب کہ آپ کی والدہ ہاشمی خاندان سے تھیں جن کا شجرہ حضرت امام حسینؓ سے جا ملتا ہے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد سے حاصل کی اور بارہ برس میں قرآن شریف حفظ کیا۔ اپنے والد کے حکم پر بخارا سے مدرسہ سلطانیہ میں داخل ہو کر علومِ متداولہ کی تحصیل کی پھر راہِ سلوک میں قدم رکھا۔ آپ کو عربی اور فارسی میں ملکہ کامل حاصل تھا۔
آپ جب 18 برس کے ہوئے تو خواجہ محمد اسحاق سفید کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے جنہوں نے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کر کے اسباق و وظائف دیے اور منازل سلوک طے کرا کر خرقہ خلافت عطا کیا۔ اس کے علاوہ شاہ بہاؤالدین نقشبندیؒ سے نسبتِ اویسی حاصل ہونے کی ساتھ ساتھ خواجہ محمد قبادانی سے بھی فیض یاب ہوئے۔
صوفیانہ ذوق کی وجہ سے اکثر سیروسیاحت میں رہتے تھے۔ تیس سال کی عمر میں شہر وخش (جو ختلان کے قریب ہے) گئے اور پھر بلخ سمرقند ہرات قندھار سے ہوتے ہوئے کابل پہنچے جہاں پہلے وعظ میں ہی لوگوں پر وجد کی کیفیات طاری ہوگئیں۔ دو سال کابُل میں قیام کیا اور وہاں سے وادیٔ کشمیر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ایک مدرسہ و خانقاہ قائم کی پھر آگرہ چلے گئے۔
عہدشاہجہاں میں شاہجہاں کے حکم سے آپ مستقل لاہور آ گئے۔ آج جس جگہ آپ کا مقبرہ ہے تب یہاں ایک باغ اور خانقاہ تعمیر ہو رہی تھی، آپ یہیں اقامت گزیں ہوگئے۔ قیام لاہور میں اس وقت کا حاکمِ لاہور نواب وزیر خان (جو آپ کے مریدوں میں سے تھا) اکثر آپ کے پاس حاضر ہوتا تھا۔ لاہور میں آپ کا قیام 9 سال رہا جہاں آپؒ نے درس و تدریس اور علم باطنی کی ترویج کی۔
حضرت ایشاں کی12 شعبان بروز اتوار 1052ھ بمطابق 1642ء عہدشاہجہاں میں وفات ہوئی جب سعید خان بہادر جنگ، حاکمِ لاہور تھا تب شاہجہاں نے تجہیز و تکفین کے لیے سید جلال الدین صدرالصدور کو بھیجا۔ آپ کی پانچ بیٹیاں اور چھے بیٹے تھے جو تمام
آپؒ کا مزار بیگم پورہ میں یتیم خانہ دارالفرقان لاہور سے متصل واقع ہے۔ سفید رنگ کا مقبرہ جس کے بہت بلند و بالا گنبد تلے تین قبریں ہیں۔ پہلی قبر حضرت ایشاںؒ کی دوسری میر جان نقشبندی کی اور تیسری قبر ان کے چھوٹے بھائی سید محمود آغا کی ہے۔
حضرت ایشاں کے معاصرین میں حضرت مجددالف ثانیؒ، حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، حضرت شاہ حسین بلاول قادریؒ اور مفتی عبد السلام شیخؒ شامل ہیں۔
حضرت ایشاں نے بے شمار لوگوں کو راہ حق پر گام زن کیا۔ آپ کے 16 خلفاء ہیں جنہیں مختلف علاقوں لوگوں کی رشد وہدایت کے لیے مامور فرمایا۔ ان میں خواجہ خاوند احمد جو آپ کے فرزند تھے، خواجہ عبد الرحیم نقشبندی جو خواجہ علاؤ الدین عطار کی اولاد میں سے تھے، خواجہ سید یحییٰ جو شاہ شجاع کرمانی کی اولاد سے تھے، خواجہ عبد العزیز وحید، خواجہ ترسون المعروف خواجہ باقی، خواجہ شادمان کابلی، خواجہ مرزا ہاشم جو خواجہ دیوانہ بلخی کے بھائی تھے، خواجہ لطیف درخشی، خواجہ مرزاابراہیم جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے بھائی ہیں، خواجہ باندی کشمیری، خواجہ حاجی طوسی، حاجی ضیاء الدین، خواجہ ابو الحسن سمرقندی، مولانا پائندہ حارثی اور خواجہ معین الدین احمد نقشبندی جو آپ کے فرزند تھے، شامل ہیں۔
یہاں ایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ علامہ محمد اقبالؒ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال، سلطان العارفین حافظ محمد مظفر ہجویری نظامیؒ، میجر محمد سرور شہید (شہادت بمقام چھمب جوڑیاں، 6 ستمبر 1965) ، ان کی بیوی ریحانہ سرور اور مولوی حاکم علی صاحب (سابق پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور) جیسے نام ور لوگوں کی قبریں بھی اسی مقبرے کے پاس والے قبرستان میں موجود ہیں۔ جانے والے دوست ان کی قبروں پر بھی فاتحہ پڑھ سکتے ہیں۔
حوالہ جات ؛
تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ692، مشتاق بک کارنر، لاہور۔
تذکرہ اولیاء پاکستان جلد دوم، صفحہ 277 تا282، عالم فقری، شبیر برادرز، لاہور۔