مایوسی سے کیسے محفوظ رہا جائے
مایوسی کیا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہوتے ہیں اور علاج کیا ہے؟
انسان کی زندگی میں ہر قسم کا وقت اور طرح طرح کے موڑ آتے ہیں، جب کبھی خوشیاں اور آسائشیں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غافل کرتی ہیں، تو ہم راستہ بھٹک کر مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ امتحانات اور آزمائشیں دنیا میں نظام الٰہی کا حصہ ہیں۔
امتحانات اور مشکلات کے بھنور میں بسا اوقات حالات انتہا درجے تک بگڑ بھی جاتے ہیں، مصیبتیں بڑھ جاتی ہیں، ظلم کے بادل چھٹنے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ بدگمانیاں، مایوسی اور ناامیدی دل میں گھر کر جاتی ہے۔
شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ مایوسی ایسی دھوپ ہے جو سخت سے سخت وجود کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک مایوسی اس احساس کا نام ہے جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے کیونکہ خواہش پوری نہ ہونے پر اس کے دل و دماغ میں تلخی کا جو احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔
ماہرین نے مایوسی کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اختیار میں ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں اگر کسی شخص کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، زندگی میں بہت کامیاب و کامران ہو، اگر مختلف وجوہات کی بناء پر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو پاتی تو یہ اختیار سے باہر والی مایوسی ہوئی ۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان سے لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہے، وہ ناقابلِ اختیار ہے۔ خالقِ کائنات نے دنیا کو اس اصول پر تخلیق فرمایا ہے کہ یہاں انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے مابین کشمکش کا شکار ہے، کامیابی پر خوشی کا اظہار تو ہر شخص کر لیتا ہے لیکن تاریخ میں ایسے افراد کم ہی نظر آتے ہیں جو ناکامی کی صورت میں مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے ایک نئے جذبہ کے ساتھ دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوں ۔
مشہور ماہر نفسیات ڈینل کارنیگی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ''جب انسان ناکامیوں اور مشکلات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے تو اس کے لیے دو راستے ہوتے ہیں، مثبت راستہ اور منفی راستہ ۔ اگر انسان ایسے میں مثبت راستہ اختیار کرتا ہے تو یہی ناکامیاں اور محرومیاں اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا کر مہمیز کر دیتی ہیں، اور اگر ایسے میں منفی راستہ اختیار کیا جائے تو مایوسی اس کا مقدر بن کر تساہل، احساسِ کمتری، خوف، جرم یہاں تک کہ خودکشی جیسے انتہائی اقدام تک لے جاتی ہے۔
انسان کی مسلسل ناکام ہونے کی بنیادی وجہ ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک غلطی کرنے کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک ناکامی کے بعد اس کا ازالہ کرنے کی بجائے حزن و ملال میں وقت ضائع کرتا رہتا ہے۔ پریشانی سے نکلنے کے امکانات تلاش کرنے کی بجائے وہ چیخ و پکار کر کے اپنی پریشانی کو مزید بڑھا لیتا ہے ۔ امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ولیم آرچی کے مطابق: '' آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں اپنا وقت برباد کرتا ہے، وہ افسوس اور مایوسی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کی تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں، وہ یہ سوچ کر کُڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرا کام جو بگڑ گیا، وہ نہ بگڑتا...... اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا ۔''
مایوسی کی وجوہات
ہر شخص کی مایوسی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اس وجہ کو جان کر، اس سے نجات کی راہ اختیار کر کے ہی انسان ایک مطمئن زندگی کی جانب لوٹ سکتا ہے۔
ناممکن خواہشات رکھنا
مایوسی کی ایک بہت بڑی وجہ ایسی خواہشات ہیں، جن کی تسکین ممکن نہیں ہوتی۔ مایوسی کی اس قسم سے نجات پانے کے لئے ماہرین نے ایک بہت دلچسپ طریقہ تجویز کیا ہے۔ ایک کاغذ اور قلم لے کر اس پر اپنی خواہشات تحریر کریں، خواہشات کی اس فہرست میں نہ پوری ہونے والی خواہشات پر نشان لگائیں، اب نہ پوری ہونے والی خواہشات کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کریں کہ وہ مبنی بر حقیقت ہیں یا غیر حقیقی خواہشات ہیں؟ جس شخص کی جتنی زیادہ خواہشات غیر حقیقت پسندانہ ہوں گی، وہ اتنا ہی مایوس ہو گا۔ اس لیے کوشش کر کے ان خواہشات سے نجات حاصل کریں، آپ خود محسوس کریں گے کہ آپ کی مایوسی کی کیفیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
شدت خواہشات
کسی خواہش کا بہت زیادہ شدید ہونا بھی مایوسی کی وجہ بنتا ہے کیونکہ خواہش جتنی شدید ہوتی ہے، اس کی تسکین سے اتنی ہی خوشی ملتی ہے، لیکن اگر وہ خواہش پوری نہ ہو سکے تو مایوسی بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔ مایوسی کی اس قسم کا زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں، کیونکہ جذباتی ہونے کی وجہ سے ان میں خواہشات کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ہر اس حقیقت پسند کو، جو مایوسی سے نکلنے کا خواہش مند ہے، اپنی خواہشات کی شدت کو قابو کرنا چاہیے۔کوئی بھی معاملہ درپیش ہو، کامیابی اور ناکامی دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر، ہر امکان کا سامنا کرنے کو تیار رہنا چاہئے۔ جب آپ ناکامی کو بھی ذہن میں رکھیں گے تو خواہش کی شدت میں نمایاں کمی ہو گی۔ بات محض اتنی سی ہے کہ انسان کے تمام جذبے اس کے اپنے کنٹرول میں رہیں تو وہ خوش رہے گا، ورنہ مایوسی اور ناکامی کے مہیب غار میں جا گرے گا۔
دوسروں سے توقعات وابستہ کرنا
مایوسی کی ایک بڑی وجہ لوگوں سے بے جا توقعات وابستہ کرنا ہے۔ اکثر لوگ اپنے عزیزوں، دوستوں اور جاننے والوں سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ہر شخص کے حالات ایسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے سے متعلق ہر شخص کی توقعات پر پورا اتر سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں سے بالکل بھی کوئی توقع نہ رکھیں اور ہر معاملے میں اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح کرنے سے اگر حقیقی زندگی میں دوستوں، رشتہ داروں کی طرف سے کچھ نہ کچھ مدد ملی بھی تو یہ امر اس کے لیے مایوسی نہیں بلکہ اچانک ملنے والی خوشی کا پیغام لائے گا۔
منفی ذہنیت
بعض لوگ اس قدر منفی ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں کہ زندگی کی چند ناکامیوں کو پوری زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں اور اپنی مایوسی دوسروں تک منتقل کرنے کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔کسی محفل میں موجود ہوں تو مایوسی کی بات کریں گے، کسی شخص کو خوش دیکھیں گے تو اپنا تلخ تجربہ بتا کر اداس کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ایسے منفی ذہنیت کے لوگ اپنی خوش قسمتی اور معاشرے کی بدقسمتی سے شاعر، ادیب، کالم نگار، صحافی، ڈرامہ نگار، موسیقار، گلوکار یا کسی بھی حیثیت میں نامور ہو جائیں تو اپنی اس منفی ذہنیت کے ذریعے پورے معاشرے میں مایوسی پھیلاتے ہیں۔ جو شخص بھی مایوسی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو لازم ہے کہ وہ ایسے لوگوں، ایسے لکھاریوں، ان کی تحریروں اور ان کی صحبت سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔ مثبت سوچ اور صحت مند طرزِ فکر رکھنے والے اشخاص کی صحبت اختیار کرے، تا کہ وہ اسے خوش امید اور پر یقین رہنے میں مدد کر سکیں۔
فکر و عمل میں تضاد
مایوسی کی ایک اور بڑی وجہ سوچ کا جمود اور فکر و عمل کا تضاد ہے۔ سوچ میں جمود اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں اپنے فکر و عمل کا تنقیدی جائزہ لینے کی زحمت نہ کرے، اپنی ہر سوچ اور عمل کو درست سمجھے اور دوسروں کو غلط سمجھے۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر، اصلاح کرنے کی بجائے ان کا الزام بھی اوروں کو دے کر اپنی ڈگر پر قائم رہتے ہیں۔ اگر انسان اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور فکرو عمل کے تضاد کو دور کرتے ہوئے محنت کر کے اپنی خامیوں پر قابو پا لے تو کچھ عرصے کی ناکامیوں کے بعد وہ کامیابی حاصل کر ہی لیتا ہے۔ خود کو خامیوں اور غلطیوں سے مبرا سمجھنا چھوڑ دیں، اپنے آپ کو انسان ہونے کا مارجن دیں، انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے، کامیاب وہ ہے جو خامیوں پر قابو پا لے۔
اسلامی تعلیمات کی رُو سے مایوسی کو کفر کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ دراصل مایوسی ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس کے اثرات انسانی شخصیت کے عناصر پر اثرانداز ہوتے ہیں اور انسان کے اندر سے جینے کی امنگ ختم کر کے اسے زندہ لاش بنا دیتے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو سرگرم اور بامقصد زندگی کی تعلیم دیتا ہے، جبکہ مایوسی اس کی ضد ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے مایوسی سے متعلق دو اہم باتیں سامنے آتی ہیں:
1:مایوسی کی وجہ
2:مایوسی کا علاج
انسان مایوس کیوں ہوتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن دو باتیں بہت بنیادی اور اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی مقصد کے حصول میں ناکام ہونا اور دوسری بات کسی نعمت کا چھن جانا اور ابتلاء مصیبت ہو جانا.......... اول الذکر کو ایک مفصل حدیث میں اس طرح بتایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کئے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، وہ توبہ کرنے کے ارادے سے نکلتا، ایک مذہبی پیشوا اس کو یہ کہہ کر کہ تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی، دھتکار دیتا ہے۔ وہ قاتل اپنے مقصد کے حصول سے مایوس ہو کر اس مذہبی پیشوا کو بھی قتل کر کے سو کا عدد پورا کرتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں جہاں اور کئی پہلو موجود ہیں، وہاں یہ بھی ہے کہ جب انسان حصول مقصد میں ناکام ہو جائے تو وہ مایوس ہو کر کچھ بھی کرنے کو آمادہ ہو جاتا ہے۔ اہل ایمان کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ خواہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں، بظاہر تمام مادی اسباب بھی ختم ہو جائیں لیکن پھر بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ جو لوگ اللہ رب العزت کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں، وہ کسی بھی حالت میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتے، مگر جو لوگ صرف مادی اسباب کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، وہ ان مادی اسباب کے ختم ہوتے ہی مایوسی کی دلدل میں دھنسے چلے جاتے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو کامیاب زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتا ہے۔ مایوسی سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسلام نے ایک نفسیاتی اصول بیان کیا ہے کہ جب تم پر کوئی بلائے ناگہانی، مصیبت، تکلیف یا کوئی دینی و دنیوی نقصان آ پہنچے تو اس وقت کامل شعور اور مفہوم کو سمجھتے ہوئے غوروفکر کے ساتھ یہ کلمات ادا کرو۔
و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون (البقرہ 2:156)
ترجمہ:اور خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یعنی مشکل پڑنے پر واویلا مچانا مایوسی کے مہیب اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور صبر کرنا، اللہ کی رضا میں راضی ہونا، مشکل کو آزمائش میںسمجھ کر اللہ کی مدد طلب کرنا انسان کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ مومن واویلا مچا کر، اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والا نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں شکر ادا کرنے والا ہوتا ہے۔ شکر کرنے والی زبان اور دل مایوسی کے غاروں میں کبھی نہیں بھٹکتے کیونکہ شکرگزاری کا وصف تمام مثبت جذبات میں سب سے طاقتور ہے، جدید سائنس نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ انسانی دماغ کے خلیوں پر شکرگزاری کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، شکر گزاری کے جذبات خوشی کے ہارمونز کے اخراج کا باعث بنتے ہیں، اس لیے جو نہیں ملا کا حساب رکھ کر مایوس ہونے کی بجائے، ان نعمتوں کا شمار کریں، جو بن مانگے آپ کو عطا ہوئی ہیں۔خود کو شکرگزاری اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا سکھائیں۔ یہی دو چیزیں ہیں جو آپ کو مایوسی سے نجات دلا سکتی ہیں ۔
امتحانات اور مشکلات کے بھنور میں بسا اوقات حالات انتہا درجے تک بگڑ بھی جاتے ہیں، مصیبتیں بڑھ جاتی ہیں، ظلم کے بادل چھٹنے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ بدگمانیاں، مایوسی اور ناامیدی دل میں گھر کر جاتی ہے۔
شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ مایوسی ایسی دھوپ ہے جو سخت سے سخت وجود کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک مایوسی اس احساس کا نام ہے جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے کیونکہ خواہش پوری نہ ہونے پر اس کے دل و دماغ میں تلخی کا جو احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔
ماہرین نے مایوسی کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اختیار میں ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں اگر کسی شخص کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، زندگی میں بہت کامیاب و کامران ہو، اگر مختلف وجوہات کی بناء پر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو پاتی تو یہ اختیار سے باہر والی مایوسی ہوئی ۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان سے لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہے، وہ ناقابلِ اختیار ہے۔ خالقِ کائنات نے دنیا کو اس اصول پر تخلیق فرمایا ہے کہ یہاں انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے مابین کشمکش کا شکار ہے، کامیابی پر خوشی کا اظہار تو ہر شخص کر لیتا ہے لیکن تاریخ میں ایسے افراد کم ہی نظر آتے ہیں جو ناکامی کی صورت میں مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے ایک نئے جذبہ کے ساتھ دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوں ۔
مشہور ماہر نفسیات ڈینل کارنیگی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ''جب انسان ناکامیوں اور مشکلات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے تو اس کے لیے دو راستے ہوتے ہیں، مثبت راستہ اور منفی راستہ ۔ اگر انسان ایسے میں مثبت راستہ اختیار کرتا ہے تو یہی ناکامیاں اور محرومیاں اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا کر مہمیز کر دیتی ہیں، اور اگر ایسے میں منفی راستہ اختیار کیا جائے تو مایوسی اس کا مقدر بن کر تساہل، احساسِ کمتری، خوف، جرم یہاں تک کہ خودکشی جیسے انتہائی اقدام تک لے جاتی ہے۔
انسان کی مسلسل ناکام ہونے کی بنیادی وجہ ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک غلطی کرنے کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک ناکامی کے بعد اس کا ازالہ کرنے کی بجائے حزن و ملال میں وقت ضائع کرتا رہتا ہے۔ پریشانی سے نکلنے کے امکانات تلاش کرنے کی بجائے وہ چیخ و پکار کر کے اپنی پریشانی کو مزید بڑھا لیتا ہے ۔ امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ولیم آرچی کے مطابق: '' آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں اپنا وقت برباد کرتا ہے، وہ افسوس اور مایوسی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کی تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں، وہ یہ سوچ کر کُڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرا کام جو بگڑ گیا، وہ نہ بگڑتا...... اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا ۔''
مایوسی کی وجوہات
ہر شخص کی مایوسی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اس وجہ کو جان کر، اس سے نجات کی راہ اختیار کر کے ہی انسان ایک مطمئن زندگی کی جانب لوٹ سکتا ہے۔
ناممکن خواہشات رکھنا
مایوسی کی ایک بہت بڑی وجہ ایسی خواہشات ہیں، جن کی تسکین ممکن نہیں ہوتی۔ مایوسی کی اس قسم سے نجات پانے کے لئے ماہرین نے ایک بہت دلچسپ طریقہ تجویز کیا ہے۔ ایک کاغذ اور قلم لے کر اس پر اپنی خواہشات تحریر کریں، خواہشات کی اس فہرست میں نہ پوری ہونے والی خواہشات پر نشان لگائیں، اب نہ پوری ہونے والی خواہشات کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کریں کہ وہ مبنی بر حقیقت ہیں یا غیر حقیقی خواہشات ہیں؟ جس شخص کی جتنی زیادہ خواہشات غیر حقیقت پسندانہ ہوں گی، وہ اتنا ہی مایوس ہو گا۔ اس لیے کوشش کر کے ان خواہشات سے نجات حاصل کریں، آپ خود محسوس کریں گے کہ آپ کی مایوسی کی کیفیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
شدت خواہشات
کسی خواہش کا بہت زیادہ شدید ہونا بھی مایوسی کی وجہ بنتا ہے کیونکہ خواہش جتنی شدید ہوتی ہے، اس کی تسکین سے اتنی ہی خوشی ملتی ہے، لیکن اگر وہ خواہش پوری نہ ہو سکے تو مایوسی بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔ مایوسی کی اس قسم کا زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں، کیونکہ جذباتی ہونے کی وجہ سے ان میں خواہشات کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ہر اس حقیقت پسند کو، جو مایوسی سے نکلنے کا خواہش مند ہے، اپنی خواہشات کی شدت کو قابو کرنا چاہیے۔کوئی بھی معاملہ درپیش ہو، کامیابی اور ناکامی دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر، ہر امکان کا سامنا کرنے کو تیار رہنا چاہئے۔ جب آپ ناکامی کو بھی ذہن میں رکھیں گے تو خواہش کی شدت میں نمایاں کمی ہو گی۔ بات محض اتنی سی ہے کہ انسان کے تمام جذبے اس کے اپنے کنٹرول میں رہیں تو وہ خوش رہے گا، ورنہ مایوسی اور ناکامی کے مہیب غار میں جا گرے گا۔
دوسروں سے توقعات وابستہ کرنا
مایوسی کی ایک بڑی وجہ لوگوں سے بے جا توقعات وابستہ کرنا ہے۔ اکثر لوگ اپنے عزیزوں، دوستوں اور جاننے والوں سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ہر شخص کے حالات ایسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے سے متعلق ہر شخص کی توقعات پر پورا اتر سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں سے بالکل بھی کوئی توقع نہ رکھیں اور ہر معاملے میں اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح کرنے سے اگر حقیقی زندگی میں دوستوں، رشتہ داروں کی طرف سے کچھ نہ کچھ مدد ملی بھی تو یہ امر اس کے لیے مایوسی نہیں بلکہ اچانک ملنے والی خوشی کا پیغام لائے گا۔
منفی ذہنیت
بعض لوگ اس قدر منفی ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں کہ زندگی کی چند ناکامیوں کو پوری زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں اور اپنی مایوسی دوسروں تک منتقل کرنے کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔کسی محفل میں موجود ہوں تو مایوسی کی بات کریں گے، کسی شخص کو خوش دیکھیں گے تو اپنا تلخ تجربہ بتا کر اداس کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ایسے منفی ذہنیت کے لوگ اپنی خوش قسمتی اور معاشرے کی بدقسمتی سے شاعر، ادیب، کالم نگار، صحافی، ڈرامہ نگار، موسیقار، گلوکار یا کسی بھی حیثیت میں نامور ہو جائیں تو اپنی اس منفی ذہنیت کے ذریعے پورے معاشرے میں مایوسی پھیلاتے ہیں۔ جو شخص بھی مایوسی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو لازم ہے کہ وہ ایسے لوگوں، ایسے لکھاریوں، ان کی تحریروں اور ان کی صحبت سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔ مثبت سوچ اور صحت مند طرزِ فکر رکھنے والے اشخاص کی صحبت اختیار کرے، تا کہ وہ اسے خوش امید اور پر یقین رہنے میں مدد کر سکیں۔
فکر و عمل میں تضاد
مایوسی کی ایک اور بڑی وجہ سوچ کا جمود اور فکر و عمل کا تضاد ہے۔ سوچ میں جمود اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں اپنے فکر و عمل کا تنقیدی جائزہ لینے کی زحمت نہ کرے، اپنی ہر سوچ اور عمل کو درست سمجھے اور دوسروں کو غلط سمجھے۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر، اصلاح کرنے کی بجائے ان کا الزام بھی اوروں کو دے کر اپنی ڈگر پر قائم رہتے ہیں۔ اگر انسان اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور فکرو عمل کے تضاد کو دور کرتے ہوئے محنت کر کے اپنی خامیوں پر قابو پا لے تو کچھ عرصے کی ناکامیوں کے بعد وہ کامیابی حاصل کر ہی لیتا ہے۔ خود کو خامیوں اور غلطیوں سے مبرا سمجھنا چھوڑ دیں، اپنے آپ کو انسان ہونے کا مارجن دیں، انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے، کامیاب وہ ہے جو خامیوں پر قابو پا لے۔
اسلامی تعلیمات کی رُو سے مایوسی کو کفر کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ دراصل مایوسی ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس کے اثرات انسانی شخصیت کے عناصر پر اثرانداز ہوتے ہیں اور انسان کے اندر سے جینے کی امنگ ختم کر کے اسے زندہ لاش بنا دیتے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو سرگرم اور بامقصد زندگی کی تعلیم دیتا ہے، جبکہ مایوسی اس کی ضد ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے مایوسی سے متعلق دو اہم باتیں سامنے آتی ہیں:
1:مایوسی کی وجہ
2:مایوسی کا علاج
انسان مایوس کیوں ہوتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن دو باتیں بہت بنیادی اور اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی مقصد کے حصول میں ناکام ہونا اور دوسری بات کسی نعمت کا چھن جانا اور ابتلاء مصیبت ہو جانا.......... اول الذکر کو ایک مفصل حدیث میں اس طرح بتایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کئے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، وہ توبہ کرنے کے ارادے سے نکلتا، ایک مذہبی پیشوا اس کو یہ کہہ کر کہ تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی، دھتکار دیتا ہے۔ وہ قاتل اپنے مقصد کے حصول سے مایوس ہو کر اس مذہبی پیشوا کو بھی قتل کر کے سو کا عدد پورا کرتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں جہاں اور کئی پہلو موجود ہیں، وہاں یہ بھی ہے کہ جب انسان حصول مقصد میں ناکام ہو جائے تو وہ مایوس ہو کر کچھ بھی کرنے کو آمادہ ہو جاتا ہے۔ اہل ایمان کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ خواہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں، بظاہر تمام مادی اسباب بھی ختم ہو جائیں لیکن پھر بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ جو لوگ اللہ رب العزت کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں، وہ کسی بھی حالت میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتے، مگر جو لوگ صرف مادی اسباب کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، وہ ان مادی اسباب کے ختم ہوتے ہی مایوسی کی دلدل میں دھنسے چلے جاتے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو کامیاب زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتا ہے۔ مایوسی سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسلام نے ایک نفسیاتی اصول بیان کیا ہے کہ جب تم پر کوئی بلائے ناگہانی، مصیبت، تکلیف یا کوئی دینی و دنیوی نقصان آ پہنچے تو اس وقت کامل شعور اور مفہوم کو سمجھتے ہوئے غوروفکر کے ساتھ یہ کلمات ادا کرو۔
و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون (البقرہ 2:156)
ترجمہ:اور خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یعنی مشکل پڑنے پر واویلا مچانا مایوسی کے مہیب اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور صبر کرنا، اللہ کی رضا میں راضی ہونا، مشکل کو آزمائش میںسمجھ کر اللہ کی مدد طلب کرنا انسان کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ مومن واویلا مچا کر، اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والا نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں شکر ادا کرنے والا ہوتا ہے۔ شکر کرنے والی زبان اور دل مایوسی کے غاروں میں کبھی نہیں بھٹکتے کیونکہ شکرگزاری کا وصف تمام مثبت جذبات میں سب سے طاقتور ہے، جدید سائنس نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ انسانی دماغ کے خلیوں پر شکرگزاری کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، شکر گزاری کے جذبات خوشی کے ہارمونز کے اخراج کا باعث بنتے ہیں، اس لیے جو نہیں ملا کا حساب رکھ کر مایوس ہونے کی بجائے، ان نعمتوں کا شمار کریں، جو بن مانگے آپ کو عطا ہوئی ہیں۔خود کو شکرگزاری اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا سکھائیں۔ یہی دو چیزیں ہیں جو آپ کو مایوسی سے نجات دلا سکتی ہیں ۔