ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری۔۔۔۔ ہمارے عہد کا ایک علمی درویش
آسمان علم وتحقیق کا یہ آفتاب غروب ہوا مگر اپنے پیچھے کتابوں کی صورت اجالے چھوڑ گیا
گذشتہ چند ماہ سے ہمارے دل میں مسلسل یہ خیال آرہا تھا کہ کافی دن بیت گئے، ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری صاحب کی خیر، خیریت تو لی جائے۔۔۔ لیکن بس زندگی کے جھمیلے اور مسئلے مسائل میں 'آج کل، آج کل' ہی کرتے رہ گئے اور پھر اچانک دو فروری 2020ء کی دوپہر کو 'فیس بک' پر ان کی رحلت کی خبر رنج کے پہاڑ کی طرح ہم پر آ گری۔۔۔!
آسمانِ علم وتحقیق کا ایک آفتاب ڈوب گیا۔۔۔ ہمارے عہد کا ایک علمی درویش اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا۔۔۔ پورے دو برس قبل فروری میں ہی ہمیں پہلی بار ان سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔۔۔ جو بدقسمتی سے آخری ثابت ہوا، لیکن وہ ہماری زندگی کا ایک ایسا زریں لمحہ تھا، جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔۔۔
آج اگر ہم اب تک اپنے کیے گئے بہت سی قدآور شخصیات کے انٹرویو پر نظر ڈالیں، تو بلاشبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے ساتھ بیٹھک ایسی تھی کہ جسے ہم باقی سب کے مقابلے میں ایک پلڑے میں ڈال سکتے ہیں۔۔۔ وجہ صرف ان کا بلند تر علمی مرتبہ نہیں، بلکہ اُن سے ہمارا کچھ ذاتی اُنس بھی تھا۔۔۔ ان کی علمیت کے ساتھ اُن کی امام الہند جناب ابو الکلام آزاد سے خصوصی نسبت اور اس پر مستزاد ان کا مشفقانہ برتائو اور نورانی سراپا۔۔۔ الغرض کیا کیا بیان کیجیے کہ جسے آج بھی تصور میں لائیے، تو ہمارے وجود کا رواں رواں جھوما جائے ہے۔۔۔
اُن کی ہم سے دو گھنٹے طویل ملاقات میں تکلم کے گلاب بکھیرتے ہوئے بار بار یادداشت پر زور ڈالنا اور واقعے کے 'اسم' کو کھوجنا۔۔۔ کبھی وہ کچھ اشخاص کے ناموں کو یاد نہیں کر پاتے، تو کبھی بَرتنے والی چیزوں کو بتانے میں دشواری محسوس کرتے۔۔۔ یہی سبب تھا کہ ہم نے اس طویل بیٹھک کے تھوڑے حصے کو ہی اشاعت کا حصہ بنایا۔۔۔
دو سال قبل 'ایکسپریس' کے لیے ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے اُن کے حافظے پر ضُعف کے آثار ضرور گہرے تھے، لیکن جسمانی اعتبار سے وہ ماشاء اللہ خوب بھلے چنگے تھے۔۔۔ اور ہَوا کے کسی جھونکے کی مانند لاٹھی ٹیکتے ہوئے کمرے میں آتے اور پھر اچانک دورانِ گفتگو کچھ یاد آتا یا کوئی چیز نکالنے، کوئی دستاویز کھنگالنے کے لیے گفتگو چھوڑ کر چلے جاتے۔۔۔ اور پھر چند منٹ بعد دوبارہ آکر محفل کو منور کر دیتے۔۔۔
زندگی کی اس قیمتی ترین بیٹھک میں ایک نہایت پراسرار، مسرت آمیز اور جذباتی لمحہ وہ تھا، جب ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے اپنے آپ ہی یہ خیال کر لیا کہ ہم ''مولانا ابوالکلام آزاد کی طرف سے اُن سے ملنے آئیں گے۔۔۔!'' اور اسی پر ہی بس نہیں، بلکہ پھر انھوں نے ابو الکلام آزاد کے اہل خانہ کی جانب سے دی گئی ابو الکلام آزاد کی ٹوپی نکالی اور فرمایا کہ 'جب بھی ہمارا کوئی دوست آتا ہے، تو ہم یہ ٹوپی اس کے سر پر رکھوانا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ بھی رکھیے!'
یوں ہم نے بھی کچھ دیر کو وہ 'سَر پوش' اپنے سر پر رکھا، تو ایسا لگا کہ گویا ہمارے سر پر 'امام الہند' کا دَست شفقت سایہ فگن ہو گیا ہو۔۔۔!
وہ ابو الکلام آزاد، جس کی فصاحت وبلاغت، امامت، صحافت، سیاست اور خطابت کا ڈنکا پورے برصغیر پاک وہند میں بجتا تھا۔۔۔ اس کا دَستار آج کے خالی اور کھوکھلے زمانے کے ایک ہم جیسے کم علم اور اُن کے قدموں کی خاک بننے کا خواب دیکھنے والے کے سر پر سج گیا تھا۔۔۔! قدرت کی اس عظیم 'عطا' پر کتنا ہی کیوں نہ لکھ لیا جائے، لیکن اس لمحے کی کیفیت کو احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔
یہ امر عام عقل سے ماورا ہے کہ انھوں نے کیسے خود سے ہی ہماری نسبت ابو الکلام آزاد سے جوڑ دی، جب کہ ہم نے تو صرف ان کے انٹرویو کی خواہش کی تھی، انھیں اپنے ابوالکلام آزاد کے معتقد ہونے کا کوئی ذکر تک نہ کیا تھا۔۔۔! یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ وہ کم زور یادداشت کے باوجود اپنے اِس ادنیٰ سے مہمان کے سر پر ابو الکلام آزاد کے سَرپوش رکھنے کی رِِیت بھی نبھانا نہ بھولے۔۔۔ کہنے کو آپ اِس پورے واقعے کو محض 'اتفاق' کہہ لیجیے، مگر ہم تو اس لمحے کو اپنے مرشد سے خلوص کا ایک بڑا انعام اور زندگی بھر کی خوش نصیبیوں میں شمار کرتے رہیں گے۔۔۔!
اُن اس ملاقات کو ذہن میں منظر کیجیے، تو ایسا لگے ہے، کہ جیسے آپ برصغیر کے کسی گزرے ہوئے زمانے میں جا پہنچے ہیں، جہاں گنگا جمنی تہذیب میں ڈھلا ہوا ایک بزرگ 'جناب والا' کے وضع دار 'تکیۂ کلام' کے ساتھ اپنے لیے اہل زبان کی طرح روایتی طور پر 'ہم' کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے محو کلام ہے۔۔۔ ہم نے جیون کی اس اَن مول گھڑی کو محفوظ کرانے کی خاطر ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری سے ان کی ایک کتاب پر اپنے نام کے ساتھ دستخط کرالیے، اگرچہ انھیں اپنی کم زور یادداشت' کے سبب اپنے نام کی بھی درست ہجّے لکھنے کے لیے کافی جستجو کرنی پڑی۔۔۔ لیکن انھوں نے اپنے دستِ مبارک سے وہ چند لفظ کاغذ پر سچے موتیوں کی طرح جَڑ دیے، ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے یہ چند لفظ ہماری زندگی کا بیش قیمت سرمائے کے طور پر محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری 1940ء میں 'یوپی' کے علاقے 'شاہ جہاں پور' میں پیدا ہوئے۔۔۔ وہیں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے ہوئے اور اعلیٰ تعلیمی مدارج 1951ء میں ہجرت کے بعد یہاں طے کیے۔ پھر جلد ہی وہ درس وتدریس اور تحقیقی کاموں میں جُت گئے اور اداروں کے پیمانے کے کرنے والے کام تنِ تنہا انجام دے ڈالے۔۔۔ وہ خودنمائی سے اتنے پَرے تھے کہ انھیں بطور مرتب بھی اپنا نام سامنے آنا گراں گزرتا تھا۔۔۔ پھر اپنی زندگی کے آخری برس تو انھوں نے جیسے مکمل گوشہ نشینی میں ہی بسر کیے۔۔۔ یا اگر ہم اپنے سنیئر ساتھی عارف عزیز کے الفاظ میں کہیں تو یہ دراصل ''وہ نہیں بلکہ یہ سماج اور ہم لوگ 'گم نامی' میں پڑے رہے۔۔۔!'' بالکل ایسے ہی ان کے انتقال کی خبر بھی ذرایع اِبلاغ پر خاطر خواہ جگہ نہ پا سکی۔
صرف 'روزنامہ ایکسپریس نے تین فروری کو اس اہم ترین خبر کو 'صفحۂ اول' پر اپنی لوح کے برابر میں نمایاں جگہ دی، باقی ایک دو دیگر اخبارات کے اندرونی صفحات پر یہ خبر آسکی، جن میں سے بعض معاصر روزناموں نے دراصل 'جمعیت علمائے اسلام' (ف) کے راہ نما قاری عثمان کے تعزیتی بیان کو ڈاکٹر ابو سلمان کے انتقال کی خبر بنا کر مع تعزیت شایع کیا۔ اس کے علاوہ کسی اور نمایاں سیاسی ومذہبی راہ نما یا جماعت کی طرف سے اس سانحے پر کوئی تعزیتی کلمات جاری نہ ہو سکے۔۔۔ ہمارا وہ محقق جس کی تحقیق کا شہرہ سرحد پار ہندوستان تک میں تھا، اس سے ہمارا سماج بے خبر تھا۔ اگر یہاں اس عظیم 'مینارۂ علمی' کے رتبے سے آگاہی ہوتی، تو ان کے انتقال پر ملکی جامعات سوگ میں ڈوب جاتیں، ان کے علمی مرتبے کو خراج عقیدت پیش کی جاتا۔۔۔ اہل علم وہنر اس آفتاب کے ڈوب جانے کا غم کرتے۔۔۔ تاریخ اور سیاسیات پر تحقیق کرنے والے علمی وتحقیقی مراکز پر بھی اَلم کے پھریرے لہرا جاتے۔۔۔ لیکن ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔۔۔!
یہی عالَم ہم نے اُن کی نمازِ جنازہ کے موقع پر بھی دیکھا کہ اتنے بلندقامت علمی کام کرنے والے 'عالم' کے پھول جیسے ہلکے پھلکے سے وجود کو کندھا دینے کو چند ایک کے سوا شہر کے سارے دانش وَر اور اہل
علم اپنے اپنے معمولات میں مصروف رہے۔۔۔ شاید کسی کو کانوںکان خبر ہی نہ ہوئی کہ 'شہرقائد' میں آج تاریخ کا کتنا عظیم چراغ بجھ گیا ہے۔۔۔ جب 'بے خبری' کا یہ عالم تھا، تو کیوں کر خبر نگار اور صحافی اس
فرشتہ صفت درویش کے آخری سفر کی خبر دینے کو وہاں پہنچتے۔۔۔ وہ زندگی میں جیسے دھیمے دھیمے بڑے بڑے قدم بڑھا کر تنِ تنہا تحقیقی کاموں میں جتے رہے۔۔۔ بالکل ایسے ہی ان کا جسدِخاکی بھی چُپکے سے ہوا کے کسی جھونکے پر سوار ابدی آرام گاہ کی سمت اُڑا اُڑا جاتا تھا۔۔۔
اب ایسے میں ہم ریاست سے کیا شکوہ کریں کہ اُس نے کبھی کسی قومی تمغے یا اعلیٰ اعزاز کو ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کو دے کر 'معتبر' کیوں نہ کیا۔۔۔ شاید ہمارے کسی سرکاری تمغے کو ہی یہ 'اعزاز' نہیں
مل سکا کہ وہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے نام سے منسلک ہو کر اوجِ ثریا کو پہنچتا۔۔۔!
165 کتب میں سے
50 تصانیف صرف مولانا ابوالکلام آزاد پر!
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا اصل نام تصدق حسین خان تھا۔ وہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد پر تو 'سند' سمجھے ہی جاتے تھے، لیکن اس کے علاوہ انھوں نے 'جمعیت علمائے ہند' کے مولانا حسین احمد مدنی کی آٹھ جلدوں پر مشتمل 'سیاسی ڈائری' بھی مرتب کی تھی، اس کے علاوہ مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمد علی پر تصانیف کے علاوہ 1857ء کی جنگ آزادی پر بھی ان کا اچھا خاصا تحقیقی کام موجود ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے ذخیرۂ علمی کے نگہ بان مکتبہ رشیدیہ (اردو بازار) کے حافظ تنویر نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی عطیہ کردہ تمام کتب کی ایک فہرست بنا چکے ہیں، ان کتب کی تعداد تقریباً نو ہزار ہے، جب کہ ابھی اس ذخیرے کے رسائل و جرائد کی ترتیب باقی ہے۔
واضح رہے کہ یہ وہ تمام سرمایہ ہے، جو 1986ء کے فسادات کے دوران علی گڑھ کالونی میں ان کے قیمتی کتب خانے کے نذرآتش ہو جانے کے بعد بچ رہا یا دوبارہ جمع کیا گیا۔۔۔ یہ کتب ڈاکٹر صاحب نے تقریباً نو برس قبل سے وقتاً فوقتاً انھیں دینا شروع کیں اور پھر وہ ہر اتوار کے اتوار آکر انھیں موضوعاتی اعتبار سے ترتیب دیتے تھے۔۔۔ پھر خرابی صحت آڑے آئی تو وہ نہ آسکے۔۔۔ حافظ تنویر کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کا کتب خانہ 'پاکستان چوک' پر ایک مدرسے سے متصل ہے اور تشنگان علم کے استفادے کے لیے ہر اتوار کو دست یاب ہوتا ہے۔۔۔ وہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی تصنیفات کی تعداد 165 بتاتے ہیں، جس میں 50 کے لگ بھگ کتب صرف مولانا ابوالکلام آزاد پر ہیں۔ مولانا آزاد پر ایک کتاب انھوں نے شرف الحق صدیقی کے صاحب زادے امداد صابری کے نام سے بھی بہ عنوان 'امام الہند' لکھی، جو پھر دہلی میں امداد صابری کو پیش بھی کی۔ اس کے علاوہ ان کے کچھ نامکمل مضامین بھی ہیں، جن کی اشاعت کو انھوں نے کسی کی ادارت سے مشروط کیا تھا۔۔۔ اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر اشاعت پذیر ان کے مختلف تحقیقی مقالے بھی منتشر ہیں، جو کتابی شکل میں لائے جا سکتے ہیں۔
''ایسا لگتا تھا کہ 'ابو' ابھی جاگ جائیں گے۔۔۔!'': نواسی
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی بیٹیوں کی طرح ساتھ رہنے والی نواسی طیبہ نے اپنے نانا کی علالت کے زمانے میں خوب خدمت کی، یہاں تک کہ انھوں نے اپنی 'فارمیسی' کی جاب بھی نانا کی تیمار داری کے لیے تج دی۔۔۔ کیوں کہ وہ ڈیوٹی پر اسپتال میں ہوتی تھیں، اور شاہ جہاں پوری صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی، ایسے میں انھیں اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر گھر لوٹنا کافی مشکل ہو جاتا تھا۔ طیبہ نے ہمیں بتایا کہ 'ابو' اکتوبر 2020ء میں دل کے دورے کے بعد سے زیادہ علیل ہو گئے تھے، اور ان کی جسمانی کم زوری بڑھتی جا رہی تھی، وہ جب تک کھانا نہیں کھاتے تھے، تب تک ہمارے حلق سے بھی کوئی لقمہ یا نوالہ نہیں اترتا تھا۔۔۔ ہر چند کہ ان کی غذا پرہیزی ہوتی، لیکن وہ ہمارے دسترخوان کا حصہ ہوتے تھے، آخر میں ان کی کھانے سے رغبت بالکل ختم ہو گئی تھی، رات کو وہ سو بھی جاتے، تو ہم رات بھر اُن کی آہٹ پر کان لگائے رہتے کہ جانے وہ کس پہر جاگیں، تو ہم ان سے کہیں 'آئیے ابو، کھانا کھا لیجیے۔۔۔'
طیبہ کہتی ہیں کہ آخری ایام میں وہ بولنے میں بھی کافی دشواری محسوس کرنے لگے اور اپنی نیند بھی آنکھیں موندے بغیر پوری کرنے لگے۔۔۔ تبھی مجھے ان کی روح پرواز کرنے کے بعد بھی یہی لگتا تھا کہ 'ابو' ابھی سو رہے ہیں، جاگ جائیں گے۔۔۔! وہ آخر کے دو، تین روز شاید کوئی اور 'عالَم' دیکھنے لگے تھے۔۔۔ جب اُن سے پوچھا جاتا کہ 'ابو' کون ہے۔۔۔؟ تو وہ اپنے مرحوم بیٹے اور بیٹی کی 'موجودگی' کا بتاتے۔۔۔ اس دنیا میں اپنی آخری رات کو انھوں نے دیوار کی طرف رخ کر کے اپنی انگشت سے دیوار پر کچھ لکھا، اُن کی خالہ نے بتایا کہ ابو کلمہ لکھ رہے ہیں۔۔۔! کہنے کو 'ابو' اپنے بستر تک محدود ہو گئے تھے، لیکن آج وہ ہم میں نہیں رہے، تو ہمارا پورا گھر بالکل ویران اور سُونا ہو گیا ہے۔۔۔!
آسمانِ علم وتحقیق کا ایک آفتاب ڈوب گیا۔۔۔ ہمارے عہد کا ایک علمی درویش اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا۔۔۔ پورے دو برس قبل فروری میں ہی ہمیں پہلی بار ان سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔۔۔ جو بدقسمتی سے آخری ثابت ہوا، لیکن وہ ہماری زندگی کا ایک ایسا زریں لمحہ تھا، جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔۔۔
آج اگر ہم اب تک اپنے کیے گئے بہت سی قدآور شخصیات کے انٹرویو پر نظر ڈالیں، تو بلاشبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے ساتھ بیٹھک ایسی تھی کہ جسے ہم باقی سب کے مقابلے میں ایک پلڑے میں ڈال سکتے ہیں۔۔۔ وجہ صرف ان کا بلند تر علمی مرتبہ نہیں، بلکہ اُن سے ہمارا کچھ ذاتی اُنس بھی تھا۔۔۔ ان کی علمیت کے ساتھ اُن کی امام الہند جناب ابو الکلام آزاد سے خصوصی نسبت اور اس پر مستزاد ان کا مشفقانہ برتائو اور نورانی سراپا۔۔۔ الغرض کیا کیا بیان کیجیے کہ جسے آج بھی تصور میں لائیے، تو ہمارے وجود کا رواں رواں جھوما جائے ہے۔۔۔
اُن کی ہم سے دو گھنٹے طویل ملاقات میں تکلم کے گلاب بکھیرتے ہوئے بار بار یادداشت پر زور ڈالنا اور واقعے کے 'اسم' کو کھوجنا۔۔۔ کبھی وہ کچھ اشخاص کے ناموں کو یاد نہیں کر پاتے، تو کبھی بَرتنے والی چیزوں کو بتانے میں دشواری محسوس کرتے۔۔۔ یہی سبب تھا کہ ہم نے اس طویل بیٹھک کے تھوڑے حصے کو ہی اشاعت کا حصہ بنایا۔۔۔
دو سال قبل 'ایکسپریس' کے لیے ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے اُن کے حافظے پر ضُعف کے آثار ضرور گہرے تھے، لیکن جسمانی اعتبار سے وہ ماشاء اللہ خوب بھلے چنگے تھے۔۔۔ اور ہَوا کے کسی جھونکے کی مانند لاٹھی ٹیکتے ہوئے کمرے میں آتے اور پھر اچانک دورانِ گفتگو کچھ یاد آتا یا کوئی چیز نکالنے، کوئی دستاویز کھنگالنے کے لیے گفتگو چھوڑ کر چلے جاتے۔۔۔ اور پھر چند منٹ بعد دوبارہ آکر محفل کو منور کر دیتے۔۔۔
زندگی کی اس قیمتی ترین بیٹھک میں ایک نہایت پراسرار، مسرت آمیز اور جذباتی لمحہ وہ تھا، جب ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے اپنے آپ ہی یہ خیال کر لیا کہ ہم ''مولانا ابوالکلام آزاد کی طرف سے اُن سے ملنے آئیں گے۔۔۔!'' اور اسی پر ہی بس نہیں، بلکہ پھر انھوں نے ابو الکلام آزاد کے اہل خانہ کی جانب سے دی گئی ابو الکلام آزاد کی ٹوپی نکالی اور فرمایا کہ 'جب بھی ہمارا کوئی دوست آتا ہے، تو ہم یہ ٹوپی اس کے سر پر رکھوانا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ بھی رکھیے!'
یوں ہم نے بھی کچھ دیر کو وہ 'سَر پوش' اپنے سر پر رکھا، تو ایسا لگا کہ گویا ہمارے سر پر 'امام الہند' کا دَست شفقت سایہ فگن ہو گیا ہو۔۔۔!
وہ ابو الکلام آزاد، جس کی فصاحت وبلاغت، امامت، صحافت، سیاست اور خطابت کا ڈنکا پورے برصغیر پاک وہند میں بجتا تھا۔۔۔ اس کا دَستار آج کے خالی اور کھوکھلے زمانے کے ایک ہم جیسے کم علم اور اُن کے قدموں کی خاک بننے کا خواب دیکھنے والے کے سر پر سج گیا تھا۔۔۔! قدرت کی اس عظیم 'عطا' پر کتنا ہی کیوں نہ لکھ لیا جائے، لیکن اس لمحے کی کیفیت کو احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔
یہ امر عام عقل سے ماورا ہے کہ انھوں نے کیسے خود سے ہی ہماری نسبت ابو الکلام آزاد سے جوڑ دی، جب کہ ہم نے تو صرف ان کے انٹرویو کی خواہش کی تھی، انھیں اپنے ابوالکلام آزاد کے معتقد ہونے کا کوئی ذکر تک نہ کیا تھا۔۔۔! یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ وہ کم زور یادداشت کے باوجود اپنے اِس ادنیٰ سے مہمان کے سر پر ابو الکلام آزاد کے سَرپوش رکھنے کی رِِیت بھی نبھانا نہ بھولے۔۔۔ کہنے کو آپ اِس پورے واقعے کو محض 'اتفاق' کہہ لیجیے، مگر ہم تو اس لمحے کو اپنے مرشد سے خلوص کا ایک بڑا انعام اور زندگی بھر کی خوش نصیبیوں میں شمار کرتے رہیں گے۔۔۔!
اُن اس ملاقات کو ذہن میں منظر کیجیے، تو ایسا لگے ہے، کہ جیسے آپ برصغیر کے کسی گزرے ہوئے زمانے میں جا پہنچے ہیں، جہاں گنگا جمنی تہذیب میں ڈھلا ہوا ایک بزرگ 'جناب والا' کے وضع دار 'تکیۂ کلام' کے ساتھ اپنے لیے اہل زبان کی طرح روایتی طور پر 'ہم' کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے محو کلام ہے۔۔۔ ہم نے جیون کی اس اَن مول گھڑی کو محفوظ کرانے کی خاطر ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری سے ان کی ایک کتاب پر اپنے نام کے ساتھ دستخط کرالیے، اگرچہ انھیں اپنی کم زور یادداشت' کے سبب اپنے نام کی بھی درست ہجّے لکھنے کے لیے کافی جستجو کرنی پڑی۔۔۔ لیکن انھوں نے اپنے دستِ مبارک سے وہ چند لفظ کاغذ پر سچے موتیوں کی طرح جَڑ دیے، ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے یہ چند لفظ ہماری زندگی کا بیش قیمت سرمائے کے طور پر محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری 1940ء میں 'یوپی' کے علاقے 'شاہ جہاں پور' میں پیدا ہوئے۔۔۔ وہیں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے ہوئے اور اعلیٰ تعلیمی مدارج 1951ء میں ہجرت کے بعد یہاں طے کیے۔ پھر جلد ہی وہ درس وتدریس اور تحقیقی کاموں میں جُت گئے اور اداروں کے پیمانے کے کرنے والے کام تنِ تنہا انجام دے ڈالے۔۔۔ وہ خودنمائی سے اتنے پَرے تھے کہ انھیں بطور مرتب بھی اپنا نام سامنے آنا گراں گزرتا تھا۔۔۔ پھر اپنی زندگی کے آخری برس تو انھوں نے جیسے مکمل گوشہ نشینی میں ہی بسر کیے۔۔۔ یا اگر ہم اپنے سنیئر ساتھی عارف عزیز کے الفاظ میں کہیں تو یہ دراصل ''وہ نہیں بلکہ یہ سماج اور ہم لوگ 'گم نامی' میں پڑے رہے۔۔۔!'' بالکل ایسے ہی ان کے انتقال کی خبر بھی ذرایع اِبلاغ پر خاطر خواہ جگہ نہ پا سکی۔
صرف 'روزنامہ ایکسپریس نے تین فروری کو اس اہم ترین خبر کو 'صفحۂ اول' پر اپنی لوح کے برابر میں نمایاں جگہ دی، باقی ایک دو دیگر اخبارات کے اندرونی صفحات پر یہ خبر آسکی، جن میں سے بعض معاصر روزناموں نے دراصل 'جمعیت علمائے اسلام' (ف) کے راہ نما قاری عثمان کے تعزیتی بیان کو ڈاکٹر ابو سلمان کے انتقال کی خبر بنا کر مع تعزیت شایع کیا۔ اس کے علاوہ کسی اور نمایاں سیاسی ومذہبی راہ نما یا جماعت کی طرف سے اس سانحے پر کوئی تعزیتی کلمات جاری نہ ہو سکے۔۔۔ ہمارا وہ محقق جس کی تحقیق کا شہرہ سرحد پار ہندوستان تک میں تھا، اس سے ہمارا سماج بے خبر تھا۔ اگر یہاں اس عظیم 'مینارۂ علمی' کے رتبے سے آگاہی ہوتی، تو ان کے انتقال پر ملکی جامعات سوگ میں ڈوب جاتیں، ان کے علمی مرتبے کو خراج عقیدت پیش کی جاتا۔۔۔ اہل علم وہنر اس آفتاب کے ڈوب جانے کا غم کرتے۔۔۔ تاریخ اور سیاسیات پر تحقیق کرنے والے علمی وتحقیقی مراکز پر بھی اَلم کے پھریرے لہرا جاتے۔۔۔ لیکن ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔۔۔!
یہی عالَم ہم نے اُن کی نمازِ جنازہ کے موقع پر بھی دیکھا کہ اتنے بلندقامت علمی کام کرنے والے 'عالم' کے پھول جیسے ہلکے پھلکے سے وجود کو کندھا دینے کو چند ایک کے سوا شہر کے سارے دانش وَر اور اہل
علم اپنے اپنے معمولات میں مصروف رہے۔۔۔ شاید کسی کو کانوںکان خبر ہی نہ ہوئی کہ 'شہرقائد' میں آج تاریخ کا کتنا عظیم چراغ بجھ گیا ہے۔۔۔ جب 'بے خبری' کا یہ عالم تھا، تو کیوں کر خبر نگار اور صحافی اس
فرشتہ صفت درویش کے آخری سفر کی خبر دینے کو وہاں پہنچتے۔۔۔ وہ زندگی میں جیسے دھیمے دھیمے بڑے بڑے قدم بڑھا کر تنِ تنہا تحقیقی کاموں میں جتے رہے۔۔۔ بالکل ایسے ہی ان کا جسدِخاکی بھی چُپکے سے ہوا کے کسی جھونکے پر سوار ابدی آرام گاہ کی سمت اُڑا اُڑا جاتا تھا۔۔۔
اب ایسے میں ہم ریاست سے کیا شکوہ کریں کہ اُس نے کبھی کسی قومی تمغے یا اعلیٰ اعزاز کو ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کو دے کر 'معتبر' کیوں نہ کیا۔۔۔ شاید ہمارے کسی سرکاری تمغے کو ہی یہ 'اعزاز' نہیں
مل سکا کہ وہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے نام سے منسلک ہو کر اوجِ ثریا کو پہنچتا۔۔۔!
165 کتب میں سے
50 تصانیف صرف مولانا ابوالکلام آزاد پر!
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا اصل نام تصدق حسین خان تھا۔ وہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد پر تو 'سند' سمجھے ہی جاتے تھے، لیکن اس کے علاوہ انھوں نے 'جمعیت علمائے ہند' کے مولانا حسین احمد مدنی کی آٹھ جلدوں پر مشتمل 'سیاسی ڈائری' بھی مرتب کی تھی، اس کے علاوہ مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمد علی پر تصانیف کے علاوہ 1857ء کی جنگ آزادی پر بھی ان کا اچھا خاصا تحقیقی کام موجود ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے ذخیرۂ علمی کے نگہ بان مکتبہ رشیدیہ (اردو بازار) کے حافظ تنویر نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی عطیہ کردہ تمام کتب کی ایک فہرست بنا چکے ہیں، ان کتب کی تعداد تقریباً نو ہزار ہے، جب کہ ابھی اس ذخیرے کے رسائل و جرائد کی ترتیب باقی ہے۔
واضح رہے کہ یہ وہ تمام سرمایہ ہے، جو 1986ء کے فسادات کے دوران علی گڑھ کالونی میں ان کے قیمتی کتب خانے کے نذرآتش ہو جانے کے بعد بچ رہا یا دوبارہ جمع کیا گیا۔۔۔ یہ کتب ڈاکٹر صاحب نے تقریباً نو برس قبل سے وقتاً فوقتاً انھیں دینا شروع کیں اور پھر وہ ہر اتوار کے اتوار آکر انھیں موضوعاتی اعتبار سے ترتیب دیتے تھے۔۔۔ پھر خرابی صحت آڑے آئی تو وہ نہ آسکے۔۔۔ حافظ تنویر کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کا کتب خانہ 'پاکستان چوک' پر ایک مدرسے سے متصل ہے اور تشنگان علم کے استفادے کے لیے ہر اتوار کو دست یاب ہوتا ہے۔۔۔ وہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی تصنیفات کی تعداد 165 بتاتے ہیں، جس میں 50 کے لگ بھگ کتب صرف مولانا ابوالکلام آزاد پر ہیں۔ مولانا آزاد پر ایک کتاب انھوں نے شرف الحق صدیقی کے صاحب زادے امداد صابری کے نام سے بھی بہ عنوان 'امام الہند' لکھی، جو پھر دہلی میں امداد صابری کو پیش بھی کی۔ اس کے علاوہ ان کے کچھ نامکمل مضامین بھی ہیں، جن کی اشاعت کو انھوں نے کسی کی ادارت سے مشروط کیا تھا۔۔۔ اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر اشاعت پذیر ان کے مختلف تحقیقی مقالے بھی منتشر ہیں، جو کتابی شکل میں لائے جا سکتے ہیں۔
''ایسا لگتا تھا کہ 'ابو' ابھی جاگ جائیں گے۔۔۔!'': نواسی
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی بیٹیوں کی طرح ساتھ رہنے والی نواسی طیبہ نے اپنے نانا کی علالت کے زمانے میں خوب خدمت کی، یہاں تک کہ انھوں نے اپنی 'فارمیسی' کی جاب بھی نانا کی تیمار داری کے لیے تج دی۔۔۔ کیوں کہ وہ ڈیوٹی پر اسپتال میں ہوتی تھیں، اور شاہ جہاں پوری صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی، ایسے میں انھیں اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر گھر لوٹنا کافی مشکل ہو جاتا تھا۔ طیبہ نے ہمیں بتایا کہ 'ابو' اکتوبر 2020ء میں دل کے دورے کے بعد سے زیادہ علیل ہو گئے تھے، اور ان کی جسمانی کم زوری بڑھتی جا رہی تھی، وہ جب تک کھانا نہیں کھاتے تھے، تب تک ہمارے حلق سے بھی کوئی لقمہ یا نوالہ نہیں اترتا تھا۔۔۔ ہر چند کہ ان کی غذا پرہیزی ہوتی، لیکن وہ ہمارے دسترخوان کا حصہ ہوتے تھے، آخر میں ان کی کھانے سے رغبت بالکل ختم ہو گئی تھی، رات کو وہ سو بھی جاتے، تو ہم رات بھر اُن کی آہٹ پر کان لگائے رہتے کہ جانے وہ کس پہر جاگیں، تو ہم ان سے کہیں 'آئیے ابو، کھانا کھا لیجیے۔۔۔'
طیبہ کہتی ہیں کہ آخری ایام میں وہ بولنے میں بھی کافی دشواری محسوس کرنے لگے اور اپنی نیند بھی آنکھیں موندے بغیر پوری کرنے لگے۔۔۔ تبھی مجھے ان کی روح پرواز کرنے کے بعد بھی یہی لگتا تھا کہ 'ابو' ابھی سو رہے ہیں، جاگ جائیں گے۔۔۔! وہ آخر کے دو، تین روز شاید کوئی اور 'عالَم' دیکھنے لگے تھے۔۔۔ جب اُن سے پوچھا جاتا کہ 'ابو' کون ہے۔۔۔؟ تو وہ اپنے مرحوم بیٹے اور بیٹی کی 'موجودگی' کا بتاتے۔۔۔ اس دنیا میں اپنی آخری رات کو انھوں نے دیوار کی طرف رخ کر کے اپنی انگشت سے دیوار پر کچھ لکھا، اُن کی خالہ نے بتایا کہ ابو کلمہ لکھ رہے ہیں۔۔۔! کہنے کو 'ابو' اپنے بستر تک محدود ہو گئے تھے، لیکن آج وہ ہم میں نہیں رہے، تو ہمارا پورا گھر بالکل ویران اور سُونا ہو گیا ہے۔۔۔!