یہ کتابیں پڑھیے بہت کام آئیں گی
کتابوں کے مطالعے سے انسان کا نقطۂ نظر وسیع ہوتا ہے اور اسے اپنے تعصبات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
صدرمملکت عارف علوی نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کتابیں پڑھے۔ ایک وڈیو پیغام میں انھوں نے کہا،''پاکستان کی نوجوان نسل اور عوام کو مطالعے کی عادت اپنانی چاہیے۔
کتابوں کے مطالعے سے انسان کا نقطۂ نظر وسیع ہوتا ہے اور اسے اپنے تعصبات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ میں اپنے حاصل کیے گئے علم کو اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں اور حالات حاضرہ اور کمپیوٹرسائنس سے متعلق کتابیں پڑھتا ہوں۔ ملک میں کتب بینی کے شوق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔'' انھوں نے عوام کے پڑھنے کے لیے دس کتابیں تجویز کیں۔
جناب صدر کی باتیں سُن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی اور افسوس ہوا کہ ہمیں یہ کیوں نہیں پتا تھا کہ ہمارے صدر کتابوں کے اس قدر شوقین ہیں۔ اگر ایوان صدر کی طرف سے طوطے کے پنجرے کے ٹینڈر کے بجائے ''کتابوں کی الماری درکار ہے'' کا اشتہار شایع ہوتا تو یقیناً ہم بہت پہلے جان جاتے کہ جناب صدر کتابیں پڑھنے کے شائق ہیں، طوطے کے پنجرے کے اشتہار سے تو ہم یہی سمجھے کہ وہ طوطوں کو پڑھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ لگتا ہے انھوں نے اپنا مشغلہ تبدیل کرلیا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ بوڑھے طوطوں کو پڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہوں، اور مشہور ہے کہ بوڑھے طوطے نہیں پڑھتے، اس لیے انھوں نے ہار مان کر کتابوں سے رجوع کرلیا۔
ارے یاد آیا، کتابوں سے پہلے جناب صدر کو تِکّے کھانے کا شوق ہوا تھا، وہ بھی حسب ذوق تِکّوں کا، جنھیں تناول فرمانے کے لیے وہ راولپنڈی کے بابو محلے جاپہنچے تھا اور سیکیوریٹی کے اسٹاف نے عوام کے لیے پورا بازار بند کردیا تھا، تاکہ کوئی صدر کو تکے کھاتے ہوئے تکتا نہ رہے۔ اس پروٹوکول کو جواز بنا کر لوگوں نے جب بے تکی تنقید شروع کی تو صدر صاحب نے تِکّوں کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ اب انھیں کتب بینی سے رغبت ہوئی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ پوری قوم کتابیں پڑھے۔
یقیناً جناب صدر اپنے حاصل کیے گئے علم کو اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ایسی ہی کوشش وزیراعظم اور وزراء بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے علم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، خاص طور پر جغرافیے اور تاریخ سے متعلق۔ فروغ علم کی ان کوششوں کے باعث ہی عوام کے علم میں یہ حقیقت آئی ہے کہ گیس کے بغیر کیسے رہا جاتا ہے، معیشت کا وہ کون سا اصول ہے جس کی رو سے آمدنی گھٹتی ہے، اشیاء منہگی ہوتی چلی جاتی ہیں، لیکن منہگائی ذرا بھی نہیں ہوتی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملکی معیشت چلانے کے لیے معاشی حربے نہیں مرغی کے ڈربے کافی ہیں۔
ہم نے سوچا فروغ علم کی اس مہم میں ہم بھی حکومت کا ہاتھ بٹائیں، اور جس طرح ڈاکٹر عارف علوی نے عوام کے مطالعے کے لیے کتابیں تجویز کی ہیں، ہم بھی ان کی پیروی میں قوم کو کچھ کتابیں اور خاص موضوعات کی تصانیف پڑھنے کا مشورہ دیں۔ تو صاحب یہ ہے ہماری تجویز کردہ کتابوں کی فہرست:
موت کا منظر:
وزیراعظم فرما چکے ہیں کہ سکون تو صرف قبر میں ہے، مگر یہ کتاب ذرا مختلف کہانی سناتی ہے۔ بہ ہر حال، یہ کتاب پڑھ کر آپ کا دنیاوی لذائذ وضروریات سے دل اکتا جائے گا، ہر وقت موت یاد آئے گی، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، گھومنے پھرنے اور ہر قسم کی تفریح سے دل اچاٹ ہوجائے گا۔ یوں آپ کے اخراجات میں اتنی کمی آجائے گی کہ بڑھتی منہگائی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی۔
عمران سیریز:
ویسے تو عمران سیریز کی بیسیوں کتابیں ہیں، لیکن ان میں سے چند پڑھنے کے بعد ہی یہ جان کر آپ کی طبیعت بشاش ہوجائے گی کہ آخری فتح عمران کی ہوتی ہے، اور آپ گھبرانا ترک کردیں گے۔
طلسم ہوش ربا:
یہ کتاب پڑھنے سے آپ کو دو فائدے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ اس داستان میں جادو کے کرشمے اور محیرالعقول واقعات پڑھ کر آپ کو یقین آجائے گا کہ ایک دن جادو کی چھڑی گھومے گی اور اگلے لمحے آنکھوں کے سامنے نیا پاکستان ہوگا۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ سیکڑوں صفحات پر پھیلی یہ کتاب پڑھتے پڑھتے باقی کے ڈھائی سال گزر جائیں پتا بھی نہیں چلے گا۔
پاکستان کا آئین:
آئین پڑھنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس پر عمل کی طرح اسے پورا پڑھنے کی ضرورت نہیں، جب چاہیں اٹھا کر ایک طرف رکھ دیں۔
بجٹ:
ملک کے کسی بھی میزانیے کی بھاری بھرکم کتاب کے مطالعے سے ایک تو آپ کے ہاتھوں کی ورزش ہوجائے گی، دوسرے آپ سیکھ پائیں گے کہ جھوٹ کس طرح اس سلیقے اور طریقے سے بولا جائے کہ جھوٹ نہ لگے۔
خان صاحب کی پرانی تقریریں:
یوں تو وزیراعظم عمران خان نے مدت سے کوئی نئی تقریر نہیں کی لیکن ہماری مراد ان تقریروں سے ہے جو انھوں نے حزب اختلاف کے راہ نما کے طور پر فرمائیں۔ امید ہے کوئی ناشر ان تقاریر کا مجموعہ ''ماضی کے مزار'' کے عنوان سے شایع کرے گا، اگرچہ یہ محترم سبط حسن کی کتاب کا عنوان ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ ان کی روح یہ چوری معاف کردے گی۔ یہ تقریریں دورحاضر میں آپ کے جذبات کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کریں گی اور انھیں دہرا کر آپ کے دل کا غبار خوب نکلے گا۔
دوست بنائیے:
اس تصنیف میں دوست بنانے اور ان کے خرچے پر زندگی بتانے کے ایک ہزار ایک طریقے بیان کیے گئے ہیں، جن میں کوئی مماثلت اتفاقیہ ہوگی۔ یہ طریقے بتاتے ہیں کہ کیسے قابل اعتبار ترین، امیرترین اور قریب ترین دوست بنائے جاتے ہیں، پھر کیسے یہ ''ترین'' دوست آپ کو بناتے ہیں اور آپ کچھ بن کر کیسے ان کی بگڑی بناتے اور سنوری مزید بناتے ہیں۔
کپتان سند باد کی کہانیاں:
مشہور تو یہ کردار سندباد جہازی کے نام سے ہے، لیکن اسے ''کیپٹن سندباد'' کے نام سے بننے والی فلم نے بہت شہرت دی۔ یہ کہانیاں دراصل کپتان سند باد کی سمندری مہمات کے قصے ہیں، جنھیں پڑھ کر آپ کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی کہ سندباد کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔ آپ یہ پڑھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کیسی کیسی خطرناک مہمات سر کرنے والے کپتان کو اس کی قوم نے وزیراعظم نہیں بنایا، ورنہ شاید اس کے قصے ''کپتان تباہ برباد'' کے نام کے ساتھ سامنے آتے۔
مختلف اقوام کی ثقافت اور تاریخ:
امریکیوں، یورپی اقوام، چینیوں، عربوں غرض کہ دنیا کہ ہر اہم قوم کی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں جتنی کتابیں پڑھ سکتے ہیں جلد ازجلد پڑھ لیجیے، بلکہ ممکن ہو تو ان کی زبانیں بھی سیکھ لیجیے، ارے بھائی بہت جلد پاکستان کودتا پھاندتا دوڑتا بھاگتا ترقی یافتہ اقوام سے بھی آگے نکلنے والا ہے، پھر ان اقوام کے افراد ہمارے ہاں ملازمتیں کرنے آئیں گے، امریکی ماسیاں، سعودی ڈرائیور، جرمن مالی، روسی چوکی دار۔۔۔۔یعنی ہمارے گھر چھوٹی سی اقوام متحدہ یا ننھے سے دبئی کا منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ لہٰذا ہم ان ملازموں کو جتنا جانتے ہوں اتنا ہی اچھا ہے نا۔
معلومات عامہ:
معلومات عامہ سے متعلق کتابیں پڑھتے رہیے، تاکہ آپ کو معلوم رہے کہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں تو کجا جرمنوں اور جاپانیوں کی شکلیں اور نسلیں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتیں، سال میں بارہ نہیں چار موسم ہوتے ہیں، اور ہر اچھا قول خلیل جبران کا نہیں۔ یوں موجودہ حالات میں آپ کا جو بھی حال ہو آپ کی معلومات فی البدیہہ اور ہر قسم کی غلطیوں سے ''فُل بھری'' تقریروں سے محفوظ رہیں گی۔
کتابوں کے مطالعے سے انسان کا نقطۂ نظر وسیع ہوتا ہے اور اسے اپنے تعصبات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ میں اپنے حاصل کیے گئے علم کو اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں اور حالات حاضرہ اور کمپیوٹرسائنس سے متعلق کتابیں پڑھتا ہوں۔ ملک میں کتب بینی کے شوق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔'' انھوں نے عوام کے پڑھنے کے لیے دس کتابیں تجویز کیں۔
جناب صدر کی باتیں سُن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی اور افسوس ہوا کہ ہمیں یہ کیوں نہیں پتا تھا کہ ہمارے صدر کتابوں کے اس قدر شوقین ہیں۔ اگر ایوان صدر کی طرف سے طوطے کے پنجرے کے ٹینڈر کے بجائے ''کتابوں کی الماری درکار ہے'' کا اشتہار شایع ہوتا تو یقیناً ہم بہت پہلے جان جاتے کہ جناب صدر کتابیں پڑھنے کے شائق ہیں، طوطے کے پنجرے کے اشتہار سے تو ہم یہی سمجھے کہ وہ طوطوں کو پڑھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ لگتا ہے انھوں نے اپنا مشغلہ تبدیل کرلیا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ بوڑھے طوطوں کو پڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہوں، اور مشہور ہے کہ بوڑھے طوطے نہیں پڑھتے، اس لیے انھوں نے ہار مان کر کتابوں سے رجوع کرلیا۔
ارے یاد آیا، کتابوں سے پہلے جناب صدر کو تِکّے کھانے کا شوق ہوا تھا، وہ بھی حسب ذوق تِکّوں کا، جنھیں تناول فرمانے کے لیے وہ راولپنڈی کے بابو محلے جاپہنچے تھا اور سیکیوریٹی کے اسٹاف نے عوام کے لیے پورا بازار بند کردیا تھا، تاکہ کوئی صدر کو تکے کھاتے ہوئے تکتا نہ رہے۔ اس پروٹوکول کو جواز بنا کر لوگوں نے جب بے تکی تنقید شروع کی تو صدر صاحب نے تِکّوں کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ اب انھیں کتب بینی سے رغبت ہوئی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ پوری قوم کتابیں پڑھے۔
یقیناً جناب صدر اپنے حاصل کیے گئے علم کو اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ایسی ہی کوشش وزیراعظم اور وزراء بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے علم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، خاص طور پر جغرافیے اور تاریخ سے متعلق۔ فروغ علم کی ان کوششوں کے باعث ہی عوام کے علم میں یہ حقیقت آئی ہے کہ گیس کے بغیر کیسے رہا جاتا ہے، معیشت کا وہ کون سا اصول ہے جس کی رو سے آمدنی گھٹتی ہے، اشیاء منہگی ہوتی چلی جاتی ہیں، لیکن منہگائی ذرا بھی نہیں ہوتی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملکی معیشت چلانے کے لیے معاشی حربے نہیں مرغی کے ڈربے کافی ہیں۔
ہم نے سوچا فروغ علم کی اس مہم میں ہم بھی حکومت کا ہاتھ بٹائیں، اور جس طرح ڈاکٹر عارف علوی نے عوام کے مطالعے کے لیے کتابیں تجویز کی ہیں، ہم بھی ان کی پیروی میں قوم کو کچھ کتابیں اور خاص موضوعات کی تصانیف پڑھنے کا مشورہ دیں۔ تو صاحب یہ ہے ہماری تجویز کردہ کتابوں کی فہرست:
موت کا منظر:
وزیراعظم فرما چکے ہیں کہ سکون تو صرف قبر میں ہے، مگر یہ کتاب ذرا مختلف کہانی سناتی ہے۔ بہ ہر حال، یہ کتاب پڑھ کر آپ کا دنیاوی لذائذ وضروریات سے دل اکتا جائے گا، ہر وقت موت یاد آئے گی، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، گھومنے پھرنے اور ہر قسم کی تفریح سے دل اچاٹ ہوجائے گا۔ یوں آپ کے اخراجات میں اتنی کمی آجائے گی کہ بڑھتی منہگائی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی۔
عمران سیریز:
ویسے تو عمران سیریز کی بیسیوں کتابیں ہیں، لیکن ان میں سے چند پڑھنے کے بعد ہی یہ جان کر آپ کی طبیعت بشاش ہوجائے گی کہ آخری فتح عمران کی ہوتی ہے، اور آپ گھبرانا ترک کردیں گے۔
طلسم ہوش ربا:
یہ کتاب پڑھنے سے آپ کو دو فائدے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ اس داستان میں جادو کے کرشمے اور محیرالعقول واقعات پڑھ کر آپ کو یقین آجائے گا کہ ایک دن جادو کی چھڑی گھومے گی اور اگلے لمحے آنکھوں کے سامنے نیا پاکستان ہوگا۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ سیکڑوں صفحات پر پھیلی یہ کتاب پڑھتے پڑھتے باقی کے ڈھائی سال گزر جائیں پتا بھی نہیں چلے گا۔
پاکستان کا آئین:
آئین پڑھنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس پر عمل کی طرح اسے پورا پڑھنے کی ضرورت نہیں، جب چاہیں اٹھا کر ایک طرف رکھ دیں۔
بجٹ:
ملک کے کسی بھی میزانیے کی بھاری بھرکم کتاب کے مطالعے سے ایک تو آپ کے ہاتھوں کی ورزش ہوجائے گی، دوسرے آپ سیکھ پائیں گے کہ جھوٹ کس طرح اس سلیقے اور طریقے سے بولا جائے کہ جھوٹ نہ لگے۔
خان صاحب کی پرانی تقریریں:
یوں تو وزیراعظم عمران خان نے مدت سے کوئی نئی تقریر نہیں کی لیکن ہماری مراد ان تقریروں سے ہے جو انھوں نے حزب اختلاف کے راہ نما کے طور پر فرمائیں۔ امید ہے کوئی ناشر ان تقاریر کا مجموعہ ''ماضی کے مزار'' کے عنوان سے شایع کرے گا، اگرچہ یہ محترم سبط حسن کی کتاب کا عنوان ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ ان کی روح یہ چوری معاف کردے گی۔ یہ تقریریں دورحاضر میں آپ کے جذبات کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کریں گی اور انھیں دہرا کر آپ کے دل کا غبار خوب نکلے گا۔
دوست بنائیے:
اس تصنیف میں دوست بنانے اور ان کے خرچے پر زندگی بتانے کے ایک ہزار ایک طریقے بیان کیے گئے ہیں، جن میں کوئی مماثلت اتفاقیہ ہوگی۔ یہ طریقے بتاتے ہیں کہ کیسے قابل اعتبار ترین، امیرترین اور قریب ترین دوست بنائے جاتے ہیں، پھر کیسے یہ ''ترین'' دوست آپ کو بناتے ہیں اور آپ کچھ بن کر کیسے ان کی بگڑی بناتے اور سنوری مزید بناتے ہیں۔
کپتان سند باد کی کہانیاں:
مشہور تو یہ کردار سندباد جہازی کے نام سے ہے، لیکن اسے ''کیپٹن سندباد'' کے نام سے بننے والی فلم نے بہت شہرت دی۔ یہ کہانیاں دراصل کپتان سند باد کی سمندری مہمات کے قصے ہیں، جنھیں پڑھ کر آپ کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی کہ سندباد کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔ آپ یہ پڑھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کیسی کیسی خطرناک مہمات سر کرنے والے کپتان کو اس کی قوم نے وزیراعظم نہیں بنایا، ورنہ شاید اس کے قصے ''کپتان تباہ برباد'' کے نام کے ساتھ سامنے آتے۔
مختلف اقوام کی ثقافت اور تاریخ:
امریکیوں، یورپی اقوام، چینیوں، عربوں غرض کہ دنیا کہ ہر اہم قوم کی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں جتنی کتابیں پڑھ سکتے ہیں جلد ازجلد پڑھ لیجیے، بلکہ ممکن ہو تو ان کی زبانیں بھی سیکھ لیجیے، ارے بھائی بہت جلد پاکستان کودتا پھاندتا دوڑتا بھاگتا ترقی یافتہ اقوام سے بھی آگے نکلنے والا ہے، پھر ان اقوام کے افراد ہمارے ہاں ملازمتیں کرنے آئیں گے، امریکی ماسیاں، سعودی ڈرائیور، جرمن مالی، روسی چوکی دار۔۔۔۔یعنی ہمارے گھر چھوٹی سی اقوام متحدہ یا ننھے سے دبئی کا منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ لہٰذا ہم ان ملازموں کو جتنا جانتے ہوں اتنا ہی اچھا ہے نا۔
معلومات عامہ:
معلومات عامہ سے متعلق کتابیں پڑھتے رہیے، تاکہ آپ کو معلوم رہے کہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں تو کجا جرمنوں اور جاپانیوں کی شکلیں اور نسلیں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتیں، سال میں بارہ نہیں چار موسم ہوتے ہیں، اور ہر اچھا قول خلیل جبران کا نہیں۔ یوں موجودہ حالات میں آپ کا جو بھی حال ہو آپ کی معلومات فی البدیہہ اور ہر قسم کی غلطیوں سے ''فُل بھری'' تقریروں سے محفوظ رہیں گی۔