سینیٹ الیکشن اورترجیحات
سینیٹ کا ادارہ استحکام پاکستان کی علامت ہے، کیونکہ اس میں تمام صوبوں کے اراکین کی تعداد برابر ہوتی ہے۔
اس وقت سینیٹ انتخابات موضوع سخن ہیں، صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہورہی ہے، حکومت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کردیا ہے،سیاسی دائو پیچ کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے ، یہ سب باتیں تو جمہوری عمل کا حصہ ہیں لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے جتنی نظر آرہی ہے۔
سینیٹ میں اراکین کے انتخاب کا طریقہ وجہ تنازع بن چکا ہے ۔شو آف ہینڈ یاخفیہ ووٹنگ ، حکومت پہلے سپریم کورٹ گئی ، پھرعجلت میں ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کردیا ۔ اسی دوران پچھلے سینیٹ انتخابات کی ایک ویڈیو بھی ریلیز کی گئی ، جس پر بہت شور اٹھا، الزامات کی گرد ابھی بیٹھی نہیں ہے، جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی موجودگی میں فرانزک رپورٹ کے ذریعے سچ ، جھوٹ کا فیصلہ ہوسکتا ہے، لیکن حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک حکومتی کمیٹی کا خود ہی اعلان کردیا ہے،لیکن اصل سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ کسی کے دامن کو داغدار کرنے کی سازش تو نہیں اور سیاسی انتقام وبدلہ لینے کا عمل تو نہیں ہے ۔
دو برس پرانی ویڈیوکو سامنے لانے کی ٹائمنگ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے،کیا یہ ویڈیو، فیصلہ حکومت کے حق میں کروانے میں مددگار ثابت ہوگی ، یہ بات چند دنوں میں واضح ہوجائے گی ۔
سینیٹ کا ادارہ استحکام پاکستان کی علامت ہے، کیونکہ اس میں تمام صوبوں کے اراکین کی تعداد برابر ہوتی ہے، یعنی یہاں سب برابری کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں برخواست کیے جانے کے باوجود سینیٹ کا ادارہ موجود رہتا ہے،اسے نہیں توڑا جاتا کیونکہ اگر سینیٹ کو توڑا جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور سینیٹ کا چیئرمین، صدرپاکستان کی غیرموجودگی یا کسی ہنگامی صورتحال میں صدر کا عہدہ سنبھال کر امور مملکت بھی چلاتا ہے ۔
سینیٹرز کی آئینی مدت چھ برس ہے اور ہر تین برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی باون نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے بارہ سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے گیارہ سینیٹرز منتخب ہوں گے جب کہ فاٹا سے چاراور اسلام آباد سے دو ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔
اس وقت سینیٹ میں جس کو پارلیمنٹ کا ایوان بالا بھی کہا جاتا ہے اپوزیشن کو حکومت پر واضح عددی اکثریت حاصل ہے جس کی وجہ سے حکومت کو کسی بھی قانون کی ایوان بالا سے منظوری کے لیے اپوزیشن کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے،چونکہ سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج قومی اور صوبائی اسمبلیاں ہوتی ہیں جہاں 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی اکثریت ہے اس لیے حکومت بے تابی سے سینیٹ انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے ،دوسری طرف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں تھے اس لیے ان کی بنیاد پر سینیٹ میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل کرنے کا حق حاصل نہیںہے ۔
قانونی جنگ بھی شدت اختیار کرسکتی ہے ،کیونکہ صدارتی آرڈیننس پر ن لیگ نے اپنا تحریری موقف سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ہے اور صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ عدالت اس معاملے میں قرار دے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے آرٹیکل226 کے تحت ہوتے ہیں۔ ریفرنس میں سیاسی نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ وزیراعظم کے ایک بیان میں یہ حیرت انگیز دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے مفاد میں سینیٹ انتخاب میں اعلانیہ ووٹنگ کے خواہاں ہیں ایسا نہ ہوا تو حزب اختلاف روئے گی، رلانے کی پالیسی فقط سینیٹ انتخابات کے موقع پر تبدیلی اور اس قدر سادگی کے مظاہرے میں کیا راز پوشیدہ ہے ، یہ دلچسپ امر ہے ۔
بات کو آسان پیرائے میں سمجھنے کی کوشش کریں تو بات کچھ یوں ہے کہ حکومتی اراکین اور حزب اختلاف کے اراکین کی ایک تعداد ہے اور اسی شرح سے سینیٹ میں ان کی نشستیں آنی چاہئیں جس کے بھی ممبراپنے پارٹی کے نامزد امیدوار کے علاوہ کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے ،وہ سب کے سامنے آجائے گا۔ حزب اختلاف کے ممبران کے ٹوٹنے اور حزب اختلاف کو رونے کا موقع کیوں ملے گا؟ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے بھی ہارس ٹریڈنگ تو نہیں ہورہی ہے، دوسری کسی صورت میں ایسا ممکن نہیں۔
کسی بھی ملک میں حکومت اور اپوزیشن جمہوری سیٹ اپ کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے۔ حکومت ملک و قوم کے لیے منصوبہ بندی کرتی ہے اور حزب اختلاف اس اَمر کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی پالیسی یا منصوبہ ملکی اور قومی مفادات کے خلاف نہ بنے، وہ ایسی پایسیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، لیکن یہ امر طے ہے کہ کوئی حکومت سبھی پالیسیاں تن تنہا مرتب نہیں کرسکتی ہے،لیکن یہاں پر راقم الحروف کی رائے میں قومی قیادت کا فقدان ہے، ہمارے یہاں جمہوریت اس طرح پروان نہیں چڑھ سکی ہیں جیسے دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں ہیں ۔
حکومت اور اپوزیشن قومی معاملات پر ایک پیج پر نہیں ہے، یہ طرزعمل افسوسناک ہے کہ ہمارے ملک میں سینیٹ انتخابات میں ''ہارس ٹریڈنگ '' نتائج پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ گویا ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ووٹ خریدنے کے لیے منڈی لگتی ہے ،بولیاں ہوتی ہیںاور یہ ہی سب کچھ اس باربھی ہونے جارہا ہے، کیونکہ یہ انتخابی نظام میرٹ پرقومی قیادت کے چنائو میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مستقبل میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ جس وفاقی نظام میں قومی جماعتوں اور قومی قیادت کا فقدان ہو جائے ،وہاں بحران دربحران پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
میری ادنی ترین رائے کے مطابق سینیٹ کے ارکان کے انتخابات کے لیے وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے جو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخابات کے لیے آئین میں درج ہے۔حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے جن امیدواروں کے نام سامنے آئے ہیں ، ان میں سے بعض ناموں پر اعتراضات سامنے آرہے ہیں ، کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں میں امیدواروں کی نامزدگی ذاتی پسند وناپسند پر ہوتی ہے نہ کہ میرٹ پر۔
پاکستان تحریک انصاف،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں میں جن امیدواروں کا حق بنتا تھا کہ انھیں ٹکٹ دیا جائے انھیں نہیں دیا گیا ہے جب کہ امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سفارشی امیدواروں کو ترجیح دی گئی ہے یعنی پراشوٹ کلچر کو پروان چڑھایا گیا ہے ۔ایک جانب تو جمہوریت اور جمہوری نظام کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے لیکن دوسری جانب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدارنظر نہیں آتی ہیں ، ایسی صورتحال میں جو امیدوار جیتے گا وہ مشکل گھڑی میں اپنی پارٹی کا ساتھ نہیں دے گا۔
ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا کہ سندھ سے جو بھی سینیٹ چنائو ہوتا ہے ، اس میںدوسرے صوبوں کے امیدواروں کو نامز د کردیا جاتا ہے جیسے ماضی میں سندھ سے رحمن ملک اور بابراعوان کوسینیٹ کا رکن بنوایا گیا ، اس طرزعمل سے اہل سندھ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار سیاسی جماعتیں کیا ترجیحات طے کرتی ہیں۔
جو صورتحال ہمارے سامنے ہے ، اس کا ایک غیرجانبدار تجزیہ پیش کرنے کی سعی کی ہے،بہرحال جو بھی ہو جاری سینیٹ انتخابات کے بعد سول سوسائٹی کی طرف سے یہ مطالبہ اُٹھایا جانا چاہیے کہ آیندہ کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا راستہ مکمل طور پر بند کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور ایوان بالا میں حقیقی نمایندگی ہو، نہ کہ دولت کے بل بوتے پر کوئی ایوان بالا پہنچ سکے۔ سیاسی جماعتوں میںقانونی اور آئینی ماہرین کی کمی نہیں ہے لہٰذا آسان طریقہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی ماحول کو خیانت سے پاک کرنے کی جانب پیش رفت ممکن بنائی جائے۔
سینیٹ میں اراکین کے انتخاب کا طریقہ وجہ تنازع بن چکا ہے ۔شو آف ہینڈ یاخفیہ ووٹنگ ، حکومت پہلے سپریم کورٹ گئی ، پھرعجلت میں ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کردیا ۔ اسی دوران پچھلے سینیٹ انتخابات کی ایک ویڈیو بھی ریلیز کی گئی ، جس پر بہت شور اٹھا، الزامات کی گرد ابھی بیٹھی نہیں ہے، جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی موجودگی میں فرانزک رپورٹ کے ذریعے سچ ، جھوٹ کا فیصلہ ہوسکتا ہے، لیکن حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک حکومتی کمیٹی کا خود ہی اعلان کردیا ہے،لیکن اصل سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ کسی کے دامن کو داغدار کرنے کی سازش تو نہیں اور سیاسی انتقام وبدلہ لینے کا عمل تو نہیں ہے ۔
دو برس پرانی ویڈیوکو سامنے لانے کی ٹائمنگ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے،کیا یہ ویڈیو، فیصلہ حکومت کے حق میں کروانے میں مددگار ثابت ہوگی ، یہ بات چند دنوں میں واضح ہوجائے گی ۔
سینیٹ کا ادارہ استحکام پاکستان کی علامت ہے، کیونکہ اس میں تمام صوبوں کے اراکین کی تعداد برابر ہوتی ہے، یعنی یہاں سب برابری کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں برخواست کیے جانے کے باوجود سینیٹ کا ادارہ موجود رہتا ہے،اسے نہیں توڑا جاتا کیونکہ اگر سینیٹ کو توڑا جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور سینیٹ کا چیئرمین، صدرپاکستان کی غیرموجودگی یا کسی ہنگامی صورتحال میں صدر کا عہدہ سنبھال کر امور مملکت بھی چلاتا ہے ۔
سینیٹرز کی آئینی مدت چھ برس ہے اور ہر تین برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی باون نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے بارہ سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے گیارہ سینیٹرز منتخب ہوں گے جب کہ فاٹا سے چاراور اسلام آباد سے دو ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔
اس وقت سینیٹ میں جس کو پارلیمنٹ کا ایوان بالا بھی کہا جاتا ہے اپوزیشن کو حکومت پر واضح عددی اکثریت حاصل ہے جس کی وجہ سے حکومت کو کسی بھی قانون کی ایوان بالا سے منظوری کے لیے اپوزیشن کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے،چونکہ سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج قومی اور صوبائی اسمبلیاں ہوتی ہیں جہاں 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی اکثریت ہے اس لیے حکومت بے تابی سے سینیٹ انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے ،دوسری طرف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں تھے اس لیے ان کی بنیاد پر سینیٹ میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل کرنے کا حق حاصل نہیںہے ۔
قانونی جنگ بھی شدت اختیار کرسکتی ہے ،کیونکہ صدارتی آرڈیننس پر ن لیگ نے اپنا تحریری موقف سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ہے اور صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ عدالت اس معاملے میں قرار دے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے آرٹیکل226 کے تحت ہوتے ہیں۔ ریفرنس میں سیاسی نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ وزیراعظم کے ایک بیان میں یہ حیرت انگیز دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے مفاد میں سینیٹ انتخاب میں اعلانیہ ووٹنگ کے خواہاں ہیں ایسا نہ ہوا تو حزب اختلاف روئے گی، رلانے کی پالیسی فقط سینیٹ انتخابات کے موقع پر تبدیلی اور اس قدر سادگی کے مظاہرے میں کیا راز پوشیدہ ہے ، یہ دلچسپ امر ہے ۔
بات کو آسان پیرائے میں سمجھنے کی کوشش کریں تو بات کچھ یوں ہے کہ حکومتی اراکین اور حزب اختلاف کے اراکین کی ایک تعداد ہے اور اسی شرح سے سینیٹ میں ان کی نشستیں آنی چاہئیں جس کے بھی ممبراپنے پارٹی کے نامزد امیدوار کے علاوہ کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے ،وہ سب کے سامنے آجائے گا۔ حزب اختلاف کے ممبران کے ٹوٹنے اور حزب اختلاف کو رونے کا موقع کیوں ملے گا؟ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے بھی ہارس ٹریڈنگ تو نہیں ہورہی ہے، دوسری کسی صورت میں ایسا ممکن نہیں۔
کسی بھی ملک میں حکومت اور اپوزیشن جمہوری سیٹ اپ کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے۔ حکومت ملک و قوم کے لیے منصوبہ بندی کرتی ہے اور حزب اختلاف اس اَمر کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی پالیسی یا منصوبہ ملکی اور قومی مفادات کے خلاف نہ بنے، وہ ایسی پایسیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، لیکن یہ امر طے ہے کہ کوئی حکومت سبھی پالیسیاں تن تنہا مرتب نہیں کرسکتی ہے،لیکن یہاں پر راقم الحروف کی رائے میں قومی قیادت کا فقدان ہے، ہمارے یہاں جمہوریت اس طرح پروان نہیں چڑھ سکی ہیں جیسے دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں ہیں ۔
حکومت اور اپوزیشن قومی معاملات پر ایک پیج پر نہیں ہے، یہ طرزعمل افسوسناک ہے کہ ہمارے ملک میں سینیٹ انتخابات میں ''ہارس ٹریڈنگ '' نتائج پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ گویا ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ووٹ خریدنے کے لیے منڈی لگتی ہے ،بولیاں ہوتی ہیںاور یہ ہی سب کچھ اس باربھی ہونے جارہا ہے، کیونکہ یہ انتخابی نظام میرٹ پرقومی قیادت کے چنائو میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مستقبل میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ جس وفاقی نظام میں قومی جماعتوں اور قومی قیادت کا فقدان ہو جائے ،وہاں بحران دربحران پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
میری ادنی ترین رائے کے مطابق سینیٹ کے ارکان کے انتخابات کے لیے وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے جو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخابات کے لیے آئین میں درج ہے۔حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے جن امیدواروں کے نام سامنے آئے ہیں ، ان میں سے بعض ناموں پر اعتراضات سامنے آرہے ہیں ، کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں میں امیدواروں کی نامزدگی ذاتی پسند وناپسند پر ہوتی ہے نہ کہ میرٹ پر۔
پاکستان تحریک انصاف،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں میں جن امیدواروں کا حق بنتا تھا کہ انھیں ٹکٹ دیا جائے انھیں نہیں دیا گیا ہے جب کہ امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سفارشی امیدواروں کو ترجیح دی گئی ہے یعنی پراشوٹ کلچر کو پروان چڑھایا گیا ہے ۔ایک جانب تو جمہوریت اور جمہوری نظام کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے لیکن دوسری جانب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدارنظر نہیں آتی ہیں ، ایسی صورتحال میں جو امیدوار جیتے گا وہ مشکل گھڑی میں اپنی پارٹی کا ساتھ نہیں دے گا۔
ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا کہ سندھ سے جو بھی سینیٹ چنائو ہوتا ہے ، اس میںدوسرے صوبوں کے امیدواروں کو نامز د کردیا جاتا ہے جیسے ماضی میں سندھ سے رحمن ملک اور بابراعوان کوسینیٹ کا رکن بنوایا گیا ، اس طرزعمل سے اہل سندھ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار سیاسی جماعتیں کیا ترجیحات طے کرتی ہیں۔
جو صورتحال ہمارے سامنے ہے ، اس کا ایک غیرجانبدار تجزیہ پیش کرنے کی سعی کی ہے،بہرحال جو بھی ہو جاری سینیٹ انتخابات کے بعد سول سوسائٹی کی طرف سے یہ مطالبہ اُٹھایا جانا چاہیے کہ آیندہ کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا راستہ مکمل طور پر بند کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور ایوان بالا میں حقیقی نمایندگی ہو، نہ کہ دولت کے بل بوتے پر کوئی ایوان بالا پہنچ سکے۔ سیاسی جماعتوں میںقانونی اور آئینی ماہرین کی کمی نہیں ہے لہٰذا آسان طریقہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی ماحول کو خیانت سے پاک کرنے کی جانب پیش رفت ممکن بنائی جائے۔