جاوداں

خاموش لمحوں کو یہ مت سمجھیں کہ اندر سے خالی ہیں ان میں باتوں کی گہرائی سمندر سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔


ایم قادر خان February 14, 2021

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں اپنے سے کمترکو دیکھنا چاہیے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں میں شامل ہو جائیں۔ مصیبت کے معاملے میں اپنے سے زیادہ مصیبت زدہ کو دیکھیں تو یقینا ہم صبر کرنے والے بن جائیں، بے شک میرے رب کے ہرکام میں مصلحت اور حکمت ہے۔ خواہشات بادشاہوں کو غلام بنا لیتی ہیں مگر صبر غلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔

حضرت علیؓ نے فرمایا'' تمہارا صبر تمہیں کامیابی عطا کرتا ہے'' زندگی کی محفل میں جب صبر آتا ہے تو بے شمار گناہ اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ صبر کے معنی مشکل تو ہو لیکن وہ کسی سے بیان نہ کی جائے۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں صبرکا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو ہر کام آسان ہونے سے پہلے مشکل ہوتا ہے۔ اللہ سب جانتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو چکا، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا اگر ہم صبر کرنا سیکھ لیں وقت بدل جائے گا مشکل آسان ہو جائے گی کیونکہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ جب ہم خاموش ہوکر برداشت کرلیتے ہیں تب ہم دنیا کو اچھے لگتے ہیں اور جب ہم اگر ایک بار ان کی غلطی انھیں بتا دیں تو ہم برے لگنے لگتے ہیں۔ اپنی روح کے دماغ میں صبرکی کھیتی کاشت کریں بے شک اس کا تخم کڑوا ضرور ہے لیکن پھل میٹھا ہے۔ ظالم کے ظلم سے نہیں بلکہ صابرکے صبر سے ڈریں کیونکہ رب تبارک تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔ انسان جب صبرکرنا سیکھ لیتا ہے تو دنیا کی کوئی شے اسے توڑ نہیں سکتی۔

صبر ایسی سواری ہے جو اپنے سوارکوکبھی گرنے نہیں دیتی نہ کسی کے قدموں میں کسی کی نظروں میں۔ صبر دل ہلا دینے والی مصیبتوں کو آسان بنا دیتا ہے موت اور محبت دونوں بن بلائے مہمان ہیں، فرق صرف اتنا ہے محبت دل اور موت دھڑکن لے جاتی ہے۔ رشتوں کی بقا کے لیے رابطے ضروری ہیں کیونکہ نظر اندازکرنے سے لگائے گئے درخت بھی سوکھ جاتے ہیں، سوچیں مجھ سے بڑا گناہ گار کوئی نہیں اور اللہ سے بڑا مہربان کوئی نہیں۔

جو بھلائی کرنی ہے کرلیں کیونکہ گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ۔ دعا کی قبولیت آواز کی بلندی ہرگز نہیں بلکہ قلب کی تڑپ کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ دعا صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں روح کی طلب اورکیفیت کا نام ہے۔ صبرکی ایک بات بہت اچھی ہے جب آجاتا ہے توکسی کی طلب نہیں رہتی۔ جس دن میں دوسروں کا درد خود پر محسوس کرنے لگوں تو مجھ کو سمجھ لینا چاہیے، میں اشرف المخلوقات ہوں۔

دوسروں کو ہر وقت تولنے والے خود بہت ہلکے ہوتے ہیں، جو بظاہر ہر تنہا اور خاموش دکھائی دے وہ نہ تنہا ہوتا ہے اور نہ ہی خاموش وہ اپنے اندر احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سموئے ہوئے ہے۔ بچہ چاہے جتنی آہستہ آواز سے روئے وہ آواز سوئی ہوئی ماں کو جگا دیتی ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میرا رب جسے نیند آتی ہے نہ اونگھ ۔ بندے کی آہ پر اس کی فریاد نہ سنے اپنے بندے کی حاجت پوری نہ کرے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر مانگنے والے بنیں، زندگی مکمل آسان ہو جائے گی، انسان اپنے اوصاف سے ہی حسین بنتا ہے، اونچا عہدہ حاصل کرنے سے نہیں ،کیونکہ اونچے مینار پر بیٹھنے سے کوا عقاب نہیں بن جاتا۔ لوگ جو بھی چھین لیں پر مقدر نہیں چھین سکتے۔

زمانہ کی گردش سے دل برداشتہ نہ ہوں صبر اگرچہ کڑوا ہے لیکن اس کا پھل میٹھا ہے۔ مشاہدے میں ہے گھرکبھی تنگ نہیں ہوتے، دل تنگ ہو جاتے ہیں ایک گھر میں رہتے ہوئے افراد اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں بات احساس کی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے ایک دوسرے کا احساس پیدا کردے۔ اللہ سے بہتر تو کوئی جان ہی نہیں سکتا کہ کس رنگ کے دھاگے سے کہاں پیوند لگانا ہے۔ کچھ لوگ ہاتھ ملانے سے پہلے مطلب نکال لیتے ہیں کہ اس شخص سے مجھے کتنا فائدہ ہونے والا ہے۔

غم نہ کریں کھوئی ہوئی چیز کسی دوسری صورت میں واپس مل جاتی ہے۔ میں نے ایک خط لکھا انسانیت کے نام پر ڈاکیہ ہی مر گیا پتا پوچھتے پوچھتے۔ کسی کی میٹھی باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں اس کے لیے خاص ہوں۔ بعض اوقات کبوتر کوکھلانے کے لیے نہیں بلکہ پکڑنے کے لیے دانہ ڈالا جاتا ہے، اگرکچھ لینے کی خواہش ہو دعائیں لیں اور اگرکچھ دینے کی خواہش ہو تو اللہ کی راہ میں دیں۔کسی بڑے منافق، عیارومکار آدمی کے ساتھ تصویرکشی سے اپنا تعلق ظاہر کرکے خوش ہونا ذہنی غلامی کی ایک قسم ہے جوکہ آج کل عام ہو رہی ہے۔

صورتاً بجھے ہوئے چہرے سیرتاً آفتاب ہوتے ہیں۔ ملازمت کی خاطر وہ صبح دفتر وقت سے پہلے بیدار ہو جاتا ہے مگر رازق کی خوشنودگی کے لیے نماز فجر میں بیدار نہیں ہو سکتا۔ نصیحت اگرچہ ناخوشگوار ہوتی ہے لیکن اس کا انجام خوشگوار ہوتا ہے۔ دنیا کے بازار میں زندگی کا سب سے قیمتی سکہ حوصلہ ہے۔ چند لوگ نیک بننا نہیں بلکہ نیک کہلانا چاہتے ہیں میری ذاتی رائے ہے یہ منافقت کا درجہ ہے۔جب زمانے میں ظلم ہو تو دو قسم کے لوگ اس ظلم کے معاشرے میں خاموش رہتے ہیں۔

ایک خودغرض، دوسرے بزدل۔ عدل وانصاف فقط حشر پر نہیں موقوف، زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ایک غم دیکھ باقی غم سے بے نیاز کردیتے ہیں۔ بدنصیب ہے وہ شخص جس کی صحت اس کا ساتھ دے اور وہ اپنے رب کے حضور سجدہ نہ کرے۔ آج کل لگتا ہے پیسے کی اہمیت ہے ہنر سڑکوں پر تماشا کرتا ہے اور قسمت محلات میں راج کرتی ہے۔ مصیبت اگرچہ مال و زر نہیں دیتی مگر عقل ضرور دیتی ہے۔ اگر، مگر، کاش اور ممکن میں ہوں عرصہ سے میں خود بھی اپنی تلاش میں ہوں۔

میرے دوست نے کہا خان صاحب! پرسوں سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں، میں جو اٹھا میرے دوست! میں تو برسوں سے اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ اس دنیا میں یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ کوئی اچھا ہے تو کیوں اچھا ہے۔ دنیا میں وہ شخص پرسکون ہے جس کوکم یا زیادہ کی فکر نہیں، زیادہ کی خواہش رکھنے والے خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنے پیاروں کی کبھی ناقدری نہ کریں، ہم نہیں جانتے کہ کون کون سی ملاقات ان سے آخری ملاقات ہے۔ انسان کتنا بھی مصروف ہو اگر رشتے اہمیت رکھتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سے وقت نکل آتا ہے۔

ہم سفر خوبصورت نہیں قدر کرنے والا ہو، گھر پیسے اور طاقت سے نہیں محبت اور اتفاق سے بنتے ہیں۔ ہم اپنی ہزارہا غلطیوں کے باوجود اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں، لیکن دوسروں کی صرف ایک غلطی کی وجہ سے ان سے کیوں نفرت کرنے لگ جاتے ہیں یا تو خود غلطیاں کرنا چھوڑ دیں یا پھر دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لیں۔ بار بار اپنے آنسو صاف کرنے کے بجائے ایک بار ہمت کرکے اپنی زندگی سے ان کو ہی دور کردیں جو ان آنسوؤں کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک دن ہمارے اعمال ہم سے ملنے آئیں گے جب ہم حیران ہوں گے۔

خاموش لمحوں کو یہ مت سمجھیں کہ اندر سے خالی ہیں ان میں باتوں کی گہرائی سمندر سے کہیں زیادہ ہوتی ہے بس ضبط کے عادی ہوجاتے ہیں۔بولنے والے یہ کب سوچ کر بولتے ہیں کہ ان کے چند الفاظ کسی کی عزت کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں یا کسی سے اس کی زندگی کا مان چھین لیتے ہیں۔ پہلے لگتا تھا تم ہی دنیا ہو، اب لگتا ہے تم بھی دنیا ہو۔ ہم اپنی زندگی سے بھلے خوش نہ ہوں پر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہم جیسی زندگی جینے کے لیے ترستے ہیں۔ تصویر اور تصور ہمیشہ حسین ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں