پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنی شاعری اور نثرنگاری میں وہ کمال حاصل کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنی شاعری اور نثرنگاری میں وہ کمال حاصل کیا جس کی مثال نہیں ملتی، وہ باغ ادب کی آبرو ثابت ہوئے،ان کی شاعری میں انفرادیت اور درد کی کیفیت نمایاں ہے، اس کی وجہ وہ چھوٹی سی عمر میں غم، دکھ اور مسائل میں گھرے رہے۔
غالب 8 رجب المرجب 1212ھ بہ مطابق 27 دسمبر 1797 کو اکبر آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد راجہ بختاور سنگھ کے ملازم تھے ان کا ایک معرکے میں انتقال ہو گیا اس وقت غالب کی عمر 5 سال تھی اور جب وہ 9 سال کی عمر کو پہنچے تو ان کے چچا نصر اللہ بیگ خان بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ مرزا نے چچا کے مرنے کے بعد اپنے دکھ کو اس طرح بیان کیا ہے۔
''چچا نے جب چاہا کہ نازونعم کے ساتھ میری پرورش کرے تو اس کو اجل نے امان نہ دی، بڑے بھائی کی موت کے بعد اس نے خود بھی اسی کے نقشِ قدم پر چل کر راہِ مرگ طے کی اور مجھے اس ویرانے میں تنہا چھوڑ دیا'' اس کے بعد کی کہانی بھی بڑی کرب ناک ہے۔ چچا کے گزرنے کے بعد حکومت نے جاگیر پر قبضہ کرلیا اور تھوڑے دنوں کے بعد ہی ان کے چار سو سواروں کے دستے کو بھی سبکدوش کردیا گیا اور زیادتیوں اور ناانصافیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس نے مرزا کی زندگی پر برے اثرات مرتب کیے ایک طرف حکومت وقت اور حالات زمانہ کی چیرہ دستی، دوسری طرف خانگی حالات بھی ناموافق رہے۔
دس سال کی عمر میں اشعار موزوں کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور بہ قول غالب ''بارہ برس کی عمر سے میں نظم و نثر میں مانند اپنے نامہ و اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں :
ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب
بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب
(آپ بیتی مرزا غالب۔ ڈاکٹر خالد ندیم)
ابتدا میں غالب بیدل و اسیر وشوکت کے طرز پر ریختہ لکھتے تھے، اپنی غزل کے مقطع میں اس کا اظہار اس طرح کیا ہے:
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خان قیامت ہے
اس بڑے شاعر نے 11 جون 1816 کو 239 غزلیات اور گیارہ رباعیات پر مشتمل اپنا دیوان خود اپنے ہاتھ سے لکھا جس کا مطلع یہ ہے:
نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
غالب کی شاعری فکر وآہنگ کی شاعری ہے، دانش وبینش، خرد وتحمل ان کی شاعری کا خاصہ ہے، غالب سے پہلے اردو شاعری میں دل کی باتیں، ہجرووصال کے قصائص درج تھے۔ غالب نے اپنی شاعری کو ذہن عطا کیا، علم وآگہی کے چراغ روشن کیے اس طرح اردو شاعری میں عقلیت اورگہرائی داخل ہوئی، غالب کی شاعری عشق مجازی کا عکس ہے مگر ان کی خرد مندی انھیں جذبات کی نذر نہیں کرتی ہے اور یہی فہم و فراست انھیں گلستانِ شعروسخن میں بلند مقام عطا کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دانشوری اور فلسفیانہ و صوفیانہ رنگ کے باعث ان کی شاعری میں میر کی سادگی جگہ نہ بنا سکی، لیکن ان کی شاعری صناعی و طبائی سے آراستہ ہوگئی۔ طنز و مزاح کی کاٹ نے اسے دوآتشہ بنا دیا۔
ڈاکٹر حنیف فوق نے غالب کے بارے میں لکھا ہے کہ ''غالب کی شاعری کے لیے اگر کوئی اصطلاح وضع کی جائے تو انھیں اعلیٰ ذہن کا شاعرکہا جاسکتا ہے کیونکہ غالب نے انسانی جذبہ و آرزو کی فطرت و ماحول سے پیدا شدہ جدلیاتی کشمکش کو پیش کیا ہے، اس قسم کی شاعری کو باآسانی دل و دماغ کی شاعری سے مختلف قرار دیا جاسکتا ہے۔''
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے غالب کی شاعرانہ عظمت کو اس انداز میں تسلیم کیا ہے، اگرکوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو کیا دیا تو میں تین چیزوں کے نام بتاؤں گا۔ تاج محل، اردو اور غالب۔''
ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے مطابق ''غالب باقاعدہ فلسفی نہ تھا مگر اس کے فلسفے پرکتابیں لکھی گئیں، وہ باعمل صوفی نہ تھا مگر اس کے متصفوانہ اشعار کی تشریح میں مقالات قلم بند کیے گئے ہیں غالب کو اس انحطاط پذیر نظام کا استعارہ قرار دیا گیا ہر چندکہ غالب نہ تو تاریخ ساز تھا اور نہ ہی (علامہ اقبال کی مانند) اس کا کلام تاریخ گر تھا اس کے باوجود کلامِ غالب کو اس عہد کی تاریخ کہا گیا ہے اور اس مرحوم تاریخ کا مرثیہ بھی اس میں تلاش کیا گیا، الغرض غالب کے اشعار میں معنی کا تنوع انھیں تنقید کی پرزم سے نکلتی بو قلموں کی روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے، ایسی روشنی جو آج بھی صدرنگ ثابت ہوئی ہے، اسی میں غالب کی سدابہار مقبولیت کا راز مضمر ہے۔''
غالب کی شاعری آفاقی ہے انھیں جو مرتبہ اور مقام اپنی زندگی میں نہ مل سکا وہ بعد از مرگ حاصل ہو گیا۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا نے اس حقیقت کا اظہار اس طرح کیا ہے۔''اس میں کوئی کلام نہیں کہ غالب دراصل بیسویں صدی کا انسان تھا جو غلطی سے انیسویں صدی میں پیدا ہو گیا اور اس بات کی اسے سزا بھی ملی اس کی شاعری کو مہمل اس کے اندازِ فکر کو ناموس اور اس کے اسلوبِ حیات کو قابلِ اعتراض قرار دیا گیا۔''
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
بہ قول فیض احمد فیض، انسانی محسوسات کے سب تیور غالب نے بیان کردیے ہیں'' انسانی نفسیات باطنی و خارجی احساسات کو شاعری کا ایسا پیکر عطا کیا ہے جس میں آپ بیتی اور جگ بیتی سما گئی ہے۔
عبدالرحمن چغتائی کو دیوان غالب تصویروں سے سجا نظر آتا ہے، اس کی وجہ غالب نے حالات و واقعات کو لفظوں سے پینٹ کردیا ہے الفاظ بولتے، چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے زندگی کے ہر پہلو کو ندرت بیان اور سبطوت الفاظ سے مرصع کردیا ہے اور حرفوں کی قندیل سے جگمگا دیا ہے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
ہم جب غالب کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ غالب جیسے صابر و شاکر حضرات کم ہی ہوتے ہیں، بچپن سے بزرگی تک، لاچاری، تنگ دستی، مرض اور قرض میں مبتلا رہے، سخت بیماری، معذوری، غربت افلاس کے دکھ سہے۔ لیکن زبان پر حرفِ شکایت نہیں آیا۔ اسی لیے شاید یہ شعر تخلیق ہوا:
یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
اعلیٰ ظرفی کی بہترین مثال دیکھیے:
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
ہے مجھے ابر بہاری کا برس کا کھلنا
روتے روتے غم ِ فرقت میں فنا ہو جانا
غالب 8 رجب المرجب 1212ھ بہ مطابق 27 دسمبر 1797 کو اکبر آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد راجہ بختاور سنگھ کے ملازم تھے ان کا ایک معرکے میں انتقال ہو گیا اس وقت غالب کی عمر 5 سال تھی اور جب وہ 9 سال کی عمر کو پہنچے تو ان کے چچا نصر اللہ بیگ خان بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ مرزا نے چچا کے مرنے کے بعد اپنے دکھ کو اس طرح بیان کیا ہے۔
''چچا نے جب چاہا کہ نازونعم کے ساتھ میری پرورش کرے تو اس کو اجل نے امان نہ دی، بڑے بھائی کی موت کے بعد اس نے خود بھی اسی کے نقشِ قدم پر چل کر راہِ مرگ طے کی اور مجھے اس ویرانے میں تنہا چھوڑ دیا'' اس کے بعد کی کہانی بھی بڑی کرب ناک ہے۔ چچا کے گزرنے کے بعد حکومت نے جاگیر پر قبضہ کرلیا اور تھوڑے دنوں کے بعد ہی ان کے چار سو سواروں کے دستے کو بھی سبکدوش کردیا گیا اور زیادتیوں اور ناانصافیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس نے مرزا کی زندگی پر برے اثرات مرتب کیے ایک طرف حکومت وقت اور حالات زمانہ کی چیرہ دستی، دوسری طرف خانگی حالات بھی ناموافق رہے۔
دس سال کی عمر میں اشعار موزوں کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور بہ قول غالب ''بارہ برس کی عمر سے میں نظم و نثر میں مانند اپنے نامہ و اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں :
ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب
بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب
(آپ بیتی مرزا غالب۔ ڈاکٹر خالد ندیم)
ابتدا میں غالب بیدل و اسیر وشوکت کے طرز پر ریختہ لکھتے تھے، اپنی غزل کے مقطع میں اس کا اظہار اس طرح کیا ہے:
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خان قیامت ہے
اس بڑے شاعر نے 11 جون 1816 کو 239 غزلیات اور گیارہ رباعیات پر مشتمل اپنا دیوان خود اپنے ہاتھ سے لکھا جس کا مطلع یہ ہے:
نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
غالب کی شاعری فکر وآہنگ کی شاعری ہے، دانش وبینش، خرد وتحمل ان کی شاعری کا خاصہ ہے، غالب سے پہلے اردو شاعری میں دل کی باتیں، ہجرووصال کے قصائص درج تھے۔ غالب نے اپنی شاعری کو ذہن عطا کیا، علم وآگہی کے چراغ روشن کیے اس طرح اردو شاعری میں عقلیت اورگہرائی داخل ہوئی، غالب کی شاعری عشق مجازی کا عکس ہے مگر ان کی خرد مندی انھیں جذبات کی نذر نہیں کرتی ہے اور یہی فہم و فراست انھیں گلستانِ شعروسخن میں بلند مقام عطا کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دانشوری اور فلسفیانہ و صوفیانہ رنگ کے باعث ان کی شاعری میں میر کی سادگی جگہ نہ بنا سکی، لیکن ان کی شاعری صناعی و طبائی سے آراستہ ہوگئی۔ طنز و مزاح کی کاٹ نے اسے دوآتشہ بنا دیا۔
ڈاکٹر حنیف فوق نے غالب کے بارے میں لکھا ہے کہ ''غالب کی شاعری کے لیے اگر کوئی اصطلاح وضع کی جائے تو انھیں اعلیٰ ذہن کا شاعرکہا جاسکتا ہے کیونکہ غالب نے انسانی جذبہ و آرزو کی فطرت و ماحول سے پیدا شدہ جدلیاتی کشمکش کو پیش کیا ہے، اس قسم کی شاعری کو باآسانی دل و دماغ کی شاعری سے مختلف قرار دیا جاسکتا ہے۔''
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے غالب کی شاعرانہ عظمت کو اس انداز میں تسلیم کیا ہے، اگرکوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو کیا دیا تو میں تین چیزوں کے نام بتاؤں گا۔ تاج محل، اردو اور غالب۔''
ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے مطابق ''غالب باقاعدہ فلسفی نہ تھا مگر اس کے فلسفے پرکتابیں لکھی گئیں، وہ باعمل صوفی نہ تھا مگر اس کے متصفوانہ اشعار کی تشریح میں مقالات قلم بند کیے گئے ہیں غالب کو اس انحطاط پذیر نظام کا استعارہ قرار دیا گیا ہر چندکہ غالب نہ تو تاریخ ساز تھا اور نہ ہی (علامہ اقبال کی مانند) اس کا کلام تاریخ گر تھا اس کے باوجود کلامِ غالب کو اس عہد کی تاریخ کہا گیا ہے اور اس مرحوم تاریخ کا مرثیہ بھی اس میں تلاش کیا گیا، الغرض غالب کے اشعار میں معنی کا تنوع انھیں تنقید کی پرزم سے نکلتی بو قلموں کی روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے، ایسی روشنی جو آج بھی صدرنگ ثابت ہوئی ہے، اسی میں غالب کی سدابہار مقبولیت کا راز مضمر ہے۔''
غالب کی شاعری آفاقی ہے انھیں جو مرتبہ اور مقام اپنی زندگی میں نہ مل سکا وہ بعد از مرگ حاصل ہو گیا۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا نے اس حقیقت کا اظہار اس طرح کیا ہے۔''اس میں کوئی کلام نہیں کہ غالب دراصل بیسویں صدی کا انسان تھا جو غلطی سے انیسویں صدی میں پیدا ہو گیا اور اس بات کی اسے سزا بھی ملی اس کی شاعری کو مہمل اس کے اندازِ فکر کو ناموس اور اس کے اسلوبِ حیات کو قابلِ اعتراض قرار دیا گیا۔''
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
بہ قول فیض احمد فیض، انسانی محسوسات کے سب تیور غالب نے بیان کردیے ہیں'' انسانی نفسیات باطنی و خارجی احساسات کو شاعری کا ایسا پیکر عطا کیا ہے جس میں آپ بیتی اور جگ بیتی سما گئی ہے۔
عبدالرحمن چغتائی کو دیوان غالب تصویروں سے سجا نظر آتا ہے، اس کی وجہ غالب نے حالات و واقعات کو لفظوں سے پینٹ کردیا ہے الفاظ بولتے، چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے زندگی کے ہر پہلو کو ندرت بیان اور سبطوت الفاظ سے مرصع کردیا ہے اور حرفوں کی قندیل سے جگمگا دیا ہے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
ہم جب غالب کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ غالب جیسے صابر و شاکر حضرات کم ہی ہوتے ہیں، بچپن سے بزرگی تک، لاچاری، تنگ دستی، مرض اور قرض میں مبتلا رہے، سخت بیماری، معذوری، غربت افلاس کے دکھ سہے۔ لیکن زبان پر حرفِ شکایت نہیں آیا۔ اسی لیے شاید یہ شعر تخلیق ہوا:
یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
اعلیٰ ظرفی کی بہترین مثال دیکھیے:
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
ہے مجھے ابر بہاری کا برس کا کھلنا
روتے روتے غم ِ فرقت میں فنا ہو جانا