بلدیاتی انتخابات سے گریز کیوں
پاکستان میں جتنے بھی جمہوری دور یا حکومتیں گزری ہیں تمام ہی ان کے انعقاد سے پہلو تہی کرتی رہی ہیں.
ہرجمہوری ملک میں بلدیاتی نظام خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس نظام کو جمہوریت کی نرسری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نظام عوام میں جمہوری شعور بیدارکرکے انھیں معاشرے کا ذمے دار شہری بنانے میں انتہائی مددگار ثابت ہوا ہے۔
بلدیاتی اداروں کے ذریعے لوگوں کو اپنے علاقے کے عوام سے رابطہ رکھنے اور مقامی مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے تحت کوئی بھی شخص اپنی خدمات اور کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہوکر ملک و قوم کی قیادت سنبھال سکتا ہے۔ مقامی بنیادی مسائل کو حل کرنے میں یہ نظام کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس نظام کے بے شمار فوائد کے باوجود وطن عزیز میں اسے ایک بوجھ سمجھ لیا گیا ہے۔
پاکستان میں جتنے بھی جمہوری دور یا حکومتیں گزری ہیں تمام ہی ان کے انعقاد سے پہلو تہی کرتی رہی ہیں جب کہ ہر آمرانہ دور میں اس نظام کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے منعقد کرائے گئے ہیں، البتہ ان ادوار میں قومی اور صوبائی سطح پر انتخابات کو اہمیت حاصل ہی نہیں رہی اس لیے کہ ہر آمر نے خود کو ہی لائق قیادت سمجھا ہے اور وہ جمہوری روایات کو اپنانے سے گریزکرتا رہا ہے، تاہم خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لیے بلدیاتی نظام کو فوقیت دیتا رہا ہے اور جمہوریت کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
اس وقت خوش قسمتی سے ملک میں 2007 سے مسلسل تیسری جمہوری حکومت قائم ہے۔ بلاشبہ برسر اقتدار تحریک انصاف جمہوری روایات کی حامی ہے، وہ اقتدار میں آنے سے قبل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سست روی اور کسی حد تک عدم دلچسپی دکھانے پر تنقید کرتی رہی ہے مگر اب اقتدار حاصل کرنے کے بعد بلدیاتی نظام کو تسلسل سے جاری رکھنے اور اس کے تحت وقت پر الیکشن کرانے کی اہمیت کو بھول بیٹھی ہے۔ اس وقت یہ بھی سابقہ حکومتوں کی طرح بلدیاتی انتخابات کرانے میں لیت و لال کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
صوبہ پنجاب جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے نہ جانے کیوں وہاں بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی انھیں تحلیل کردیا گیا ہے جس پر اب عدالت عالیہ کی جانب سے سوال اٹھایا گیا ہے کہ ایسا کس قانون کے تحت کیا گیا۔ عدالت عالیہ کے اس سوال کا حکومت پنجاب کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام کو بیورو کریسی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے حالانکہ بلدیاتی نظام کو جمہوری انداز میں بحال کرنے کے لیے بروقت الیکشن منعقد کرائے جانے تھے مگر اس کے انعقاد میں دیر لگائی جا رہی ہے جس سے عوام میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔ اب سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کے احکامات دے دیے ہیں۔ ان احکامات کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے چاروں صوبائی حکومتوں سے انتخابات کرانے کے شیڈول مانگ لیے ہیں۔ سندھ کے علاوہ پنجاب کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں نے ستمبر کے مہینے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اظہار کیا ہے۔ البتہ سندھ حکومت نے انتخابات کرانے سے گریزکیا ہے اس کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں سب سے زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اگر نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرائے جانے ہیں تو اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ کراچی ہی کیا سندھ کے تمام شہروں کی متنازعہ مردم شماری ہے مگر نئی مردم شماری کا اگلے پانچ سال تک ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ اس ضمن میں گورنر سندھ پہلے ہی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو یہ بات گوش گزار کرچکے ہیں کہ اس وقت ملک کی معیشت نئی مردم شماری کرانے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، چنانچہ بلدیاتی انتخابات موجودہ مردم شماری کے مطابق ہی منعقد کرائے جاسکتے ہیں۔
سندھ حکومت نے دراصل نئی حلقہ بندیوں کا جواز پیش کرکے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت صوبے میں بنیادی سہولتوں کی مخدوش صورتحال، بیورو کریسی کے ذریعے بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی اور بلدیاتی اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ جلدازجلد بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال سندھ حکومت کو پہلے ہی مشورہ دے چکے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کا انتظار کرنے کے بجائے پرانی حلقہ بندیوں پر ہی بلدیاتی انتخابات کرانے سے عوامی تشویش کو دور کیا جاسکتا ہے۔
چنانچہ سندھ کی تمام سیاسی پارٹیوں کو سندھ حکومت پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنے ارادوں کو بدلے اور دوسرے صوبوں کی طرح سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کا انتظام کرے جب دوسرے صوبے ستمبر میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کرچکے ہیں تو پھر سندھ حکومت کو بھی عوامی جذبات کا خیال کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ تاہم سندھ حکومت پہلے ہی ثابت کرچکی ہے کہ اس کے نزدیک بلدیاتی نظام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
وہ میئر کے اختیارات میں کٹوتی کرچکی ہے ساتھ ہی میئر کو بلدیاتی نظام کے تحت تفویض کردہ کئی محکموں کو بیورو کریسی کے ذریعے چلاتی رہی ہے جس سے نہ صرف میئر کی کارکردگی متاثر ہوئی بلکہ بیورو کریسی کی کارکردگی بھی سوالات کے گھیرے میں رہی۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی طور پر بے اختیار بنا کر بلدیاتی نظام کو ہی بے اثر بنا دیا ہے۔ حال ہی میں ایم کیو ایم نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں شکایت کی گئی ہے کہ غیر متعلقہ افراد کو لوکل کونسل میں تعینات کیا جا رہا ہے جب کہ اس ادارے کے لوگوں کو ہی تعینات کیا جانا چاہیے۔
ایم کیو ایم کا یہ اعتراض درست ہے مگر اسے دراصل صوبے میں جلد انتخابات کرانے اور بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی طور پر بااختیار بنانے پر زور دینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ایم کیو ایم نے متنازعہ مردم شماری پر اپنی مہر ثبت کردی تھی اسی طرح اس نے بلدیاتی اختیارات خاص طور پر میئر کے اختیارات میں کمی کرنے پر بھی اپنی رضامندی ظاہر کردی تھی۔ کاش کہ وہ ایسا نہ کرتی تو اس کا میئر وسیم اختر اپنے پورے دور میں اپنے اختیارات میں کٹوتی پر روتا نہ رہتا اور اپنی نااہلی کا خود ہی پرچار نہ کرتا رہتا۔