بیگم رعنا لیاقت علی خان
بیگم رعنا لیاقت علی خان کی زندگی میں 13 کا ہندسہ مہد سے لحد تک ساتھ سفرکرتا نظر آتا ہے۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان کی زندگی میں 13 کا ہندسہ مہد سے لحد تک ساتھ سفرکرتا نظر آتا ہے۔ 1905 میں ان کی پیدائش کی تاریخ13 فروری ہے جب کہ جون کی13 تاریخ ہی کو1990 میں انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔
بیگم صاحبہ راسخ العقیدہ مسلمان تھیں جس کا اظہار انھوں نے متعدد مرتبہ نہ صرف خود اپنے بیان میں کیا بلکہ اپنے عمل سے بھی اسے ثابت کیا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان سے مکمل طور پر لاتعلق ہوگئی تھیں۔ ایسے میں ان کے صبر و استقلال کا امتحان دنیا نے اس وقت دیکھا جب16 اکتوبر 1951کو ان کے شوہر لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا۔
اس وقت ان کے دو کمسن بچے تھے ، وہ خود تھیں، ان کی یا ان کے شوہر کی کوئی جائیداد پاکستان میں نہیں تھی کیونکہ انھوں نے اپنی جائیداد اور ہندوستان میں چھوڑی ہوئی ہزاروں ایکڑ اراضی کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا تھا۔ پاکستان میں ان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار موجود نہ تھا،جو اس سانحے پر ان سے دلجوئی کرتا۔ اپنا یا اپنے شوہر کا کسی طرح کوئی مال و متاع بھی موجود نہ تھا لیکن یہ ایک کڑی آزمائش تھی جس پر انھوں نے ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے استقامت کا مظاہرہ کیا اور پاکستان میں اپنی سماجی خدمات کو جاری رکھا۔
اس موقع پر ان کی اعلیٰ تعلیم اور غیر معمولی صلاحیتیں کام آئیں اور ان کو سفارتی محاذ پر پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو دنیا میں روشناس کرانے اور ملک و ملت کی خدمت کا موقع میسر آیا۔ انھیں پہلی مسلم خاتون سفیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے بحیثیت سفیر نیدر لینڈ ، اٹلی اور تیونس میں سفارتکاری کے ذریعے پاکستان کا امیج بلند کیا۔ ہالینڈ کے پاکستانی سفارتخانے میں بیگم صاحبہ کے ساتھ تعینات ایک معروف سفارتکار برجیس حسن خان کا بیان ہے کہ 1956 میں نہر سوئز کے بحران کے موقع پر بیگم صاحبہ پاکستان کے نقطہ نظر سے مطمئن نہ تھیں۔
انھوں نے وزارت خارجہ کو ایک مراسلہ کے ذریعے اپنی برملا رائے کا اظہارکیا تھا اور مشورہ دیا تھا کہ پاکستان نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کے لیے قائد اعظم،لیاقت علی خان اور مشاہیر پاکستان کے موقف پر قائم رہتے ہوئے نہر سوئزکے تنازعہ میں عرب جمہوریہ مصرکی مکمل حمایت کرے اور برطانیہ ،فرانس اور اسرائیل حملہ آور ممالک پر نہر سوئز کو قومی ملکیت قرار دینے کے لیے مصرکے جائز اور قانونی موقف کو تسلیم کرے۔ سابق نگراں وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کا بیان ہے کہ بیگم صاحبہ اپنی آراء کے اظہار میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیتی تھیں۔
گورنر ہائوس کراچی میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے ایک معزز مہمان لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کی وطن واپسی کے موقع پر ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی تقریر بڑی برجستہ تھی جس کی وجہ سے پروٹوکول کے برعکس وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک بار پھر ڈائس پر آکر گفتگو کرنی پڑی تھی۔گورنر سندھ کی حیثیت سے بیگم رعنا لیاقت کے دور میں کیپٹن محمد فرحت علی خان ان کے ملٹری سیکریٹری تھے ۔وہ بیگم صاحبہ کے دوروں سمیت پروٹوکول کے اہتمام پر فائز تھے۔
بیگم صاحبہ کی بے مثال جرات اور قومی امور میں ان کی لگن کے حوالے سے کیپٹن فرحت کا بیان ہے کہ بیگم صاحبہ کو چانسلر کی حیثیت سے سندھ یورنیورسٹی کی تقریب تقسیم اسناد و اعزازات میں مدعو کیا گیا ۔اس وقت جامعہ میں طلبہ کا احتجاج جاری تھا۔بیگم صاحبہ کو اداروں نے مشورہ دیا کہ تقریب میں شریک نہ ہوں ، وہ دعوت قبول کر چکی تھیں انھوں نے سندھ یونیورسٹی جاکر نہ صرف تقریب میں شرکت کی بلکہ طلبہ کے احتجاج کو اپنے جمہوری مزاج کے باعث خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ اس تقریب میں بیگم نصرت بھٹو بھی مدعو تھیں۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان اپنے شوہر کے اس کارنامے میں بھی برابر کی شریک ہیں کہ دونوں نے انگلستان جاکربانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو وطن واپسی اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا تھا۔ بیگم صاحبہ اقتصادیات میں مہارت رکھتی تھیں اور انھیں انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا چنانچہ23 مارچ1940 کی قرار داد لاہور کے موئید چوہدری خلیق الزماں کے بیان کے مطابق قائد اعظم نے قرار داد کے متن کو سنوارنے کا کام بیگم صاحبہ کے سپرد کیا تھا اور قرار داد کے بنیادی نکات کی تجاویز میں بھی ان کا عمل دخل تھا۔
قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کے لیے برصغیر میں علیحدہ قومی وطن کے حصول کی جدوجہد میں بیگم صاحبہ بہت متحرک تھیں اور قیام پاکستان کے بعد انھوں نے ملک میں ترقی وحقوق نسواں کے میدان میں بے مثال کار بائے نمایاں انجام دیے۔ خواتین کو عسکری شعبے میں تربیت کی فراہمی کے لیے بیگم صاحبہ نے پاکستان ویمن نیشنل گارڈ قائم کی۔ ملک میں یا شاید پوری مسلم دنیا میں خواتین کی پہلی تنظیم کی تشکیل کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔
APWA (آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن)کا قیام جس کے ذریعے ملکی خواتین کو فعال کیا گیا ۔ان کو سماجی کاموں کی سمت رغبت دلائی گئی جب کہ دوسری جانب عورتوں کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا تاکہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ بیگم صاحبہ کی زیر قیادت اپوا کی جانب سے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ ملک بھر میں مہاجرین کی آبادی کاری کے لیے مکانات تعمیرکرائے گئے۔
پاکستان میں خواتین کے لیے ہوم اکنامکس کالجزکا قیام ان کی دلچسپی کا مظہر ہے۔ ملک بھر میں گھریلو صنعتوں کے فروغ اور خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا اہتمام کیا گیا ۔ان کی تیارہ کردہ مصنوعات کو منظر عالم پر لانے اور فروخت کے لیے مراکز قائم کیے گئے۔
پاک بحریہ کے سابق سربراہ وائس ایڈمرل ایچ ایم ایس چوہدری کا بیان ہے کہ بحریہ میں خواتین کو متعارف کرانے کے لیے بیگم صاحبہ کی تجویز پرکراچی اور چٹا کانگ میں ''ویمن نیول ریزرو'' دستے ترتیب دیے گئے، جن کو مکمل عسکری ترتیب فراہم کی جاتی تھی۔خواتین کے ان دستوں کا قیام نہ صرف اس سے قبل بلکہ بعد میں بھی سالہا سال تیسری دنیا کے کسی ملک میں موجود نہ تھا۔ بیگم رعنا لیاقت کا نہ صرف یہ قدم بلکہ سماجی و تعلیمی شعبے میں ان کے اقدامات سنہری حرف سے تحر یر کیے جانے کے لائق ہیں۔
بیگم صاحبہ راسخ العقیدہ مسلمان تھیں جس کا اظہار انھوں نے متعدد مرتبہ نہ صرف خود اپنے بیان میں کیا بلکہ اپنے عمل سے بھی اسے ثابت کیا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان سے مکمل طور پر لاتعلق ہوگئی تھیں۔ ایسے میں ان کے صبر و استقلال کا امتحان دنیا نے اس وقت دیکھا جب16 اکتوبر 1951کو ان کے شوہر لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا۔
اس وقت ان کے دو کمسن بچے تھے ، وہ خود تھیں، ان کی یا ان کے شوہر کی کوئی جائیداد پاکستان میں نہیں تھی کیونکہ انھوں نے اپنی جائیداد اور ہندوستان میں چھوڑی ہوئی ہزاروں ایکڑ اراضی کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا تھا۔ پاکستان میں ان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار موجود نہ تھا،جو اس سانحے پر ان سے دلجوئی کرتا۔ اپنا یا اپنے شوہر کا کسی طرح کوئی مال و متاع بھی موجود نہ تھا لیکن یہ ایک کڑی آزمائش تھی جس پر انھوں نے ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے استقامت کا مظاہرہ کیا اور پاکستان میں اپنی سماجی خدمات کو جاری رکھا۔
اس موقع پر ان کی اعلیٰ تعلیم اور غیر معمولی صلاحیتیں کام آئیں اور ان کو سفارتی محاذ پر پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو دنیا میں روشناس کرانے اور ملک و ملت کی خدمت کا موقع میسر آیا۔ انھیں پہلی مسلم خاتون سفیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے بحیثیت سفیر نیدر لینڈ ، اٹلی اور تیونس میں سفارتکاری کے ذریعے پاکستان کا امیج بلند کیا۔ ہالینڈ کے پاکستانی سفارتخانے میں بیگم صاحبہ کے ساتھ تعینات ایک معروف سفارتکار برجیس حسن خان کا بیان ہے کہ 1956 میں نہر سوئز کے بحران کے موقع پر بیگم صاحبہ پاکستان کے نقطہ نظر سے مطمئن نہ تھیں۔
انھوں نے وزارت خارجہ کو ایک مراسلہ کے ذریعے اپنی برملا رائے کا اظہارکیا تھا اور مشورہ دیا تھا کہ پاکستان نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کے لیے قائد اعظم،لیاقت علی خان اور مشاہیر پاکستان کے موقف پر قائم رہتے ہوئے نہر سوئزکے تنازعہ میں عرب جمہوریہ مصرکی مکمل حمایت کرے اور برطانیہ ،فرانس اور اسرائیل حملہ آور ممالک پر نہر سوئز کو قومی ملکیت قرار دینے کے لیے مصرکے جائز اور قانونی موقف کو تسلیم کرے۔ سابق نگراں وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کا بیان ہے کہ بیگم صاحبہ اپنی آراء کے اظہار میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیتی تھیں۔
گورنر ہائوس کراچی میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے ایک معزز مہمان لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کی وطن واپسی کے موقع پر ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی تقریر بڑی برجستہ تھی جس کی وجہ سے پروٹوکول کے برعکس وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک بار پھر ڈائس پر آکر گفتگو کرنی پڑی تھی۔گورنر سندھ کی حیثیت سے بیگم رعنا لیاقت کے دور میں کیپٹن محمد فرحت علی خان ان کے ملٹری سیکریٹری تھے ۔وہ بیگم صاحبہ کے دوروں سمیت پروٹوکول کے اہتمام پر فائز تھے۔
بیگم صاحبہ کی بے مثال جرات اور قومی امور میں ان کی لگن کے حوالے سے کیپٹن فرحت کا بیان ہے کہ بیگم صاحبہ کو چانسلر کی حیثیت سے سندھ یورنیورسٹی کی تقریب تقسیم اسناد و اعزازات میں مدعو کیا گیا ۔اس وقت جامعہ میں طلبہ کا احتجاج جاری تھا۔بیگم صاحبہ کو اداروں نے مشورہ دیا کہ تقریب میں شریک نہ ہوں ، وہ دعوت قبول کر چکی تھیں انھوں نے سندھ یونیورسٹی جاکر نہ صرف تقریب میں شرکت کی بلکہ طلبہ کے احتجاج کو اپنے جمہوری مزاج کے باعث خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ اس تقریب میں بیگم نصرت بھٹو بھی مدعو تھیں۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان اپنے شوہر کے اس کارنامے میں بھی برابر کی شریک ہیں کہ دونوں نے انگلستان جاکربانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو وطن واپسی اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا تھا۔ بیگم صاحبہ اقتصادیات میں مہارت رکھتی تھیں اور انھیں انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا چنانچہ23 مارچ1940 کی قرار داد لاہور کے موئید چوہدری خلیق الزماں کے بیان کے مطابق قائد اعظم نے قرار داد کے متن کو سنوارنے کا کام بیگم صاحبہ کے سپرد کیا تھا اور قرار داد کے بنیادی نکات کی تجاویز میں بھی ان کا عمل دخل تھا۔
قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کے لیے برصغیر میں علیحدہ قومی وطن کے حصول کی جدوجہد میں بیگم صاحبہ بہت متحرک تھیں اور قیام پاکستان کے بعد انھوں نے ملک میں ترقی وحقوق نسواں کے میدان میں بے مثال کار بائے نمایاں انجام دیے۔ خواتین کو عسکری شعبے میں تربیت کی فراہمی کے لیے بیگم صاحبہ نے پاکستان ویمن نیشنل گارڈ قائم کی۔ ملک میں یا شاید پوری مسلم دنیا میں خواتین کی پہلی تنظیم کی تشکیل کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔
APWA (آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن)کا قیام جس کے ذریعے ملکی خواتین کو فعال کیا گیا ۔ان کو سماجی کاموں کی سمت رغبت دلائی گئی جب کہ دوسری جانب عورتوں کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا تاکہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ بیگم صاحبہ کی زیر قیادت اپوا کی جانب سے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ ملک بھر میں مہاجرین کی آبادی کاری کے لیے مکانات تعمیرکرائے گئے۔
پاکستان میں خواتین کے لیے ہوم اکنامکس کالجزکا قیام ان کی دلچسپی کا مظہر ہے۔ ملک بھر میں گھریلو صنعتوں کے فروغ اور خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا اہتمام کیا گیا ۔ان کی تیارہ کردہ مصنوعات کو منظر عالم پر لانے اور فروخت کے لیے مراکز قائم کیے گئے۔
پاک بحریہ کے سابق سربراہ وائس ایڈمرل ایچ ایم ایس چوہدری کا بیان ہے کہ بحریہ میں خواتین کو متعارف کرانے کے لیے بیگم صاحبہ کی تجویز پرکراچی اور چٹا کانگ میں ''ویمن نیول ریزرو'' دستے ترتیب دیے گئے، جن کو مکمل عسکری ترتیب فراہم کی جاتی تھی۔خواتین کے ان دستوں کا قیام نہ صرف اس سے قبل بلکہ بعد میں بھی سالہا سال تیسری دنیا کے کسی ملک میں موجود نہ تھا۔ بیگم رعنا لیاقت کا نہ صرف یہ قدم بلکہ سماجی و تعلیمی شعبے میں ان کے اقدامات سنہری حرف سے تحر یر کیے جانے کے لائق ہیں۔