اجمیر شریف سلطان ہند حاضری
مسلمانوں کے لیے یہ شہر حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ کی وجہ سے محترم ہے۔
چند سال قبل مجھے بھی حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ پر حاضری کا موقعہ ملا۔ سلطان ہند حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ کو بھارت میں موجود تمام اولیاء کرام اور بزرگان دین کے مزارات میں سب سے زیادہ مقدم تصور کیا جاتا ہے۔ روحانی ایڈمنسٹریشن (تکوین) کا علم رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ ہندوستان کے روحانی امور کے انچارج ہیں۔
خواجہ صاحب کی پیدائش ایران میں ہوئی، حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے تبلیغ اسلام کے لیے ایران سے ہندوستان کا سفر کیا۔ آپ نے کچھ عرصہ ملتا ن میں بھی قیام کیا، پھر آپ لاہور آگئے ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر آپ نے چلہ کشی کی ۔(حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے چلہ کی جگہ اب بھی داتا صاحب ؒکے مزار کے ساتھ موجودہے) اس موقع پر آپ نے داتا صاحب ؒ کے بارے میں تاریخی شعر کہا۔ جو زبان زد عام ہے۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں پیر کامل کامل را رہنما
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ امام زین العابدین ؒ کی اولاد سے ہیں ۔ تاریخی حوالے تکرار سے بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیا (برصغیر پاک وہند) کے ماضی اور حال کے سبھی حکمرانوں نے حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ پر اکثر و بیشتر حاضری دی۔ اکبر بادشاہ تو ہر سال باقاعدگی سے اجمیر شریف جایا کرتا تھا۔اندار گاندھی اور راجیو گاندھی بھی باقاعدگی سے یہاں آیا کرتے تھے۔ متحدہ ہندوستان پر برطانیہ کے راج کے دوران ملکہ وکٹوریہ نے بھی درگاہ پر حاضری دی اور یادگار کے طور پر درگا ہ کے صحن میں ایک حوض بھی بنوایا۔ یہ حوض اب بھی موجود ہے۔
حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے مزار پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو، عیسائی، پارسی سبھی منتیں مانگنے آتے ہیں، ہندو انھیں بھگوان کا درجہ دیتے ہیں۔ بھارت کے سبھی صدر اور وزرائے اعظموں نے بھی درگاہ پر حاضری دی ہے۔پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ضیا الحق اور صدر مشرف بھی اجمیر شریف حاضری دے چکے ہیں۔ اجمیر شریف حاضری کو بھی بلاوے کا نام دیا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی کئی باریہاں حاضری دے چکی ہیں۔ جب آصف زرداری رہا ہوئے تو وہ انھیں لے کر حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے حضور حاضر بھی ہوئیں۔
سلطان ہند حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ روحانی اعتبار سے فیوض و انوار کا مرقع ہے لیکن اس کے گرد و نواح کا ماحول پرا گندہ ہو چکا ہے۔ زائرین کے لیے سہولتوں کی خاصی کمی ہے۔ حکومت ہند یہاں کے انتظام و انصرام کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہی جتنی کہ ضرورت ہے ۔صفائی کا معیار اور زائرین کے لیے صاف ستھری رہائش کا انتظام بہتر نہیں ہے۔درگاہ کے قرب و جوار میں سبھی عمارتیں اور دوکانیں مسلمانوں کی ہیں، صر ف اجمیر شریف میں ساڑھے چار سو مسجدیں ہیں۔ مقامی لوگ بتا رہے تھے کہ آہستہ آہستہ بھارت کے ہندو مسلمانوں کی املاک خرید رہے ہیں اور اجمیر شریف میں ہندو مسلمانوں پر حاوی ہو گئے ہیں، اس شہر کے کلچر پر بھی ہندو مت کو برتری حاصل ہو گئی ہے۔
اجمیر شہر کی بنیاد راجہ اجے پال چوہان نے گیارہویں صدی میں رکھی ۔اجمیر کا نام ملحقہ پہاڑی اجے میرو(AJAIMERO) کے نام سے موسوم ہے۔ اجے میرو کا مطلب نا قابل تسخیرہے۔ یہ شہر ہندو اور مسلم دونوں تہذیبوں نمایندہ ہے۔ شہر میں گھومتے ہوئے دونوں تہذیبوں کی تفریق اور امتزاج بیک وقت نظر آتا ہے۔ مسلمان چوڑی دار پاجامے اور کرتے میں ہیں تو ہندو مرد لنگی پہنے اور عورتیں ساڑھیوں میں ملبوس ہیںتو مسلمان عورتیں شلوار قمیض اور چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔اجمیر کا شہر بیک وقت منفرد صحرائی،پہاڑی اور میدانی خصوصیت لیے ہوئے ہے۔ بھارت کی قدیم کتابوں رامائن، مہا بھارت اور پرناس میں بھی اجمیر شریف کا ذکر ہے۔ ان کتابوں میں اس شہر کو ''پشکر''کے نام سے پکارا گیا ہے۔ دہلی سے گڑھ گائوں، بہاول، ریواڑی، کوٹ پُتلی، پراگ پور ، شاہ پورا اور جے پور سے گزر کر اجمیر پہنچا جاتا ہے۔
اجمیر شریف ریاست راجھستان کا اہم شہر ہے۔ یہ راجھستان کے دارالحکومت جے پور سے ایک سو تیس کلو میٹر اور دہلی سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پرہے۔ اجمیر سڑک اور ریل کے راستے دہلی سمیت بھارت کے دوسرے شہروں سے ملا ہوا ہے۔دہلی سے اجمیر شریف کے لیے یوں تو کشادہ ہائی وے بھی موجود ہے جس کے ذریعے چھ ، ساڑھے چھ گھنٹے میں با آسانی اجمیر تک کا سفر کیا جا سکتا ہے لیکن ریل کا سفر انتہائی آرام دہ ہے۔ غیر ملکی زائرین کے لیے اس ٹرین میں خصوصی کوٹہ ہے، اس کوٹے کے تحت سفر کرنے کے لیے ٹکٹ ڈالر میں خریدنا ضروری ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ شہر حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ کی وجہ سے محترم ہے تو ہندئوں کے لیے یہ شہر پشکر جھیل کے ساتھ تعمیر کیے جانے والے منفرد برھما مندرکی وجہ سے پوجا کا مرکز ہے۔ اجمیر شہر کے وسط میں ایک پر ہجوم گلی سے گزر کر درگاہ کا صدر دروازہ آتا ہے۔یہ صدر دروازہ ریاست حیدر آباد کے نظام نے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر بنایا۔صدر دروازے سے اندر داخل ہوں تو اندرونی دروازہ آتا ہے۔ یہ دروازہ اکبر بادشاہ نے بنوایا تھا۔ اس دروازے کے اوپر بالکونی میں دو بڑے ڈھول رکھے ہوئے ہیں، یہ ڈھول اکبر بادشاہ نے قلعہ چتوڑ کی فتح کے وقت حاصل کیے تھے۔ ان ڈھولوں کو فتح کے نشان کے طور پر یہاں نصب کروایا۔
مزار کے اوپر سوا من سونے کا ایک تاج لگا ہوا ہے۔ متولی نے ہمیں بتایا کہ یہ تاج نواب رام پور نے چڑھایا تھا۔درگاہ میں داخل ہوں تو تین مسجدیں نظر آتی ہیں۔ ایک مسجد اکبر بادشاہ نے دوسرے شاہ جہاں نے بنوائی۔ اکبر بادشاہ کی مسجد سفید سنگ مرمر کی ہے ۔ تیسری مسجد اورنگزیب نے تعمیر کی۔ان مساجد میں زائرین کی سہولت کے لیے یکے بعددیگر باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔خواجہ غریب نواز ؒ کا مزار زیارت کے لیے صبح نماز فجر کے بعد سے نماز عشاء تک کھلا رہتا ہے۔رات کو مزار کا اندرونی حصہ بند کر دیا جاتا ہے۔ تاہم بیرونی احاطے میں عبادات، نوافل اور قرات قرآن پاک کا عمل جاری رہتا ہے۔
درگاہ کے احاطے میںمورسلی کے قدیم درخت لگے ہیں۔ مورسلی کا درخت بیر اور نمبولی (نیم کا پھل) کی شکل کا ہوتا ہے۔ اس درخت پر خوشبودار پھول آتے ہیں جس سے ماحول مہک اٹھتا ہے۔ مزار کے احاطے میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے ہاتھ کا لگایا ہوا درخت بھی موجود ہے۔ یہاں سفید سنگ مرمر کا کمرہ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا نے بنوایا۔تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا کو بزرگان دین سے خصوصی نسبت تھی ۔
مزار کے اندر دا خل ہونے والے دروازے کے اوپر فارسی زبان میں یہ اشعار درج ہیں۔
تو آں رفیع مکا نی کہ سایہ کنان فلک
برآستان تو دارند میں دربانی
چہ حا جتسث بہ پیش تو حال دل گفتی
کہ حال خستہ دلاں راتو خوب میدانی
ترجمہ۔ میں آپ سے کیا زبانی عرض کروں آپ دلوں کا حال جانتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ میرے دل میں کیا ہے۔ (جاری )
خواجہ صاحب کی پیدائش ایران میں ہوئی، حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے تبلیغ اسلام کے لیے ایران سے ہندوستان کا سفر کیا۔ آپ نے کچھ عرصہ ملتا ن میں بھی قیام کیا، پھر آپ لاہور آگئے ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر آپ نے چلہ کشی کی ۔(حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے چلہ کی جگہ اب بھی داتا صاحب ؒکے مزار کے ساتھ موجودہے) اس موقع پر آپ نے داتا صاحب ؒ کے بارے میں تاریخی شعر کہا۔ جو زبان زد عام ہے۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں پیر کامل کامل را رہنما
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ امام زین العابدین ؒ کی اولاد سے ہیں ۔ تاریخی حوالے تکرار سے بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیا (برصغیر پاک وہند) کے ماضی اور حال کے سبھی حکمرانوں نے حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ پر اکثر و بیشتر حاضری دی۔ اکبر بادشاہ تو ہر سال باقاعدگی سے اجمیر شریف جایا کرتا تھا۔اندار گاندھی اور راجیو گاندھی بھی باقاعدگی سے یہاں آیا کرتے تھے۔ متحدہ ہندوستان پر برطانیہ کے راج کے دوران ملکہ وکٹوریہ نے بھی درگاہ پر حاضری دی اور یادگار کے طور پر درگا ہ کے صحن میں ایک حوض بھی بنوایا۔ یہ حوض اب بھی موجود ہے۔
حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے مزار پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو، عیسائی، پارسی سبھی منتیں مانگنے آتے ہیں، ہندو انھیں بھگوان کا درجہ دیتے ہیں۔ بھارت کے سبھی صدر اور وزرائے اعظموں نے بھی درگاہ پر حاضری دی ہے۔پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ضیا الحق اور صدر مشرف بھی اجمیر شریف حاضری دے چکے ہیں۔ اجمیر شریف حاضری کو بھی بلاوے کا نام دیا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی کئی باریہاں حاضری دے چکی ہیں۔ جب آصف زرداری رہا ہوئے تو وہ انھیں لے کر حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے حضور حاضر بھی ہوئیں۔
سلطان ہند حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ روحانی اعتبار سے فیوض و انوار کا مرقع ہے لیکن اس کے گرد و نواح کا ماحول پرا گندہ ہو چکا ہے۔ زائرین کے لیے سہولتوں کی خاصی کمی ہے۔ حکومت ہند یہاں کے انتظام و انصرام کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہی جتنی کہ ضرورت ہے ۔صفائی کا معیار اور زائرین کے لیے صاف ستھری رہائش کا انتظام بہتر نہیں ہے۔درگاہ کے قرب و جوار میں سبھی عمارتیں اور دوکانیں مسلمانوں کی ہیں، صر ف اجمیر شریف میں ساڑھے چار سو مسجدیں ہیں۔ مقامی لوگ بتا رہے تھے کہ آہستہ آہستہ بھارت کے ہندو مسلمانوں کی املاک خرید رہے ہیں اور اجمیر شریف میں ہندو مسلمانوں پر حاوی ہو گئے ہیں، اس شہر کے کلچر پر بھی ہندو مت کو برتری حاصل ہو گئی ہے۔
اجمیر شہر کی بنیاد راجہ اجے پال چوہان نے گیارہویں صدی میں رکھی ۔اجمیر کا نام ملحقہ پہاڑی اجے میرو(AJAIMERO) کے نام سے موسوم ہے۔ اجے میرو کا مطلب نا قابل تسخیرہے۔ یہ شہر ہندو اور مسلم دونوں تہذیبوں نمایندہ ہے۔ شہر میں گھومتے ہوئے دونوں تہذیبوں کی تفریق اور امتزاج بیک وقت نظر آتا ہے۔ مسلمان چوڑی دار پاجامے اور کرتے میں ہیں تو ہندو مرد لنگی پہنے اور عورتیں ساڑھیوں میں ملبوس ہیںتو مسلمان عورتیں شلوار قمیض اور چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔اجمیر کا شہر بیک وقت منفرد صحرائی،پہاڑی اور میدانی خصوصیت لیے ہوئے ہے۔ بھارت کی قدیم کتابوں رامائن، مہا بھارت اور پرناس میں بھی اجمیر شریف کا ذکر ہے۔ ان کتابوں میں اس شہر کو ''پشکر''کے نام سے پکارا گیا ہے۔ دہلی سے گڑھ گائوں، بہاول، ریواڑی، کوٹ پُتلی، پراگ پور ، شاہ پورا اور جے پور سے گزر کر اجمیر پہنچا جاتا ہے۔
اجمیر شریف ریاست راجھستان کا اہم شہر ہے۔ یہ راجھستان کے دارالحکومت جے پور سے ایک سو تیس کلو میٹر اور دہلی سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پرہے۔ اجمیر سڑک اور ریل کے راستے دہلی سمیت بھارت کے دوسرے شہروں سے ملا ہوا ہے۔دہلی سے اجمیر شریف کے لیے یوں تو کشادہ ہائی وے بھی موجود ہے جس کے ذریعے چھ ، ساڑھے چھ گھنٹے میں با آسانی اجمیر تک کا سفر کیا جا سکتا ہے لیکن ریل کا سفر انتہائی آرام دہ ہے۔ غیر ملکی زائرین کے لیے اس ٹرین میں خصوصی کوٹہ ہے، اس کوٹے کے تحت سفر کرنے کے لیے ٹکٹ ڈالر میں خریدنا ضروری ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ شہر حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ کی وجہ سے محترم ہے تو ہندئوں کے لیے یہ شہر پشکر جھیل کے ساتھ تعمیر کیے جانے والے منفرد برھما مندرکی وجہ سے پوجا کا مرکز ہے۔ اجمیر شہر کے وسط میں ایک پر ہجوم گلی سے گزر کر درگاہ کا صدر دروازہ آتا ہے۔یہ صدر دروازہ ریاست حیدر آباد کے نظام نے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر بنایا۔صدر دروازے سے اندر داخل ہوں تو اندرونی دروازہ آتا ہے۔ یہ دروازہ اکبر بادشاہ نے بنوایا تھا۔ اس دروازے کے اوپر بالکونی میں دو بڑے ڈھول رکھے ہوئے ہیں، یہ ڈھول اکبر بادشاہ نے قلعہ چتوڑ کی فتح کے وقت حاصل کیے تھے۔ ان ڈھولوں کو فتح کے نشان کے طور پر یہاں نصب کروایا۔
مزار کے اوپر سوا من سونے کا ایک تاج لگا ہوا ہے۔ متولی نے ہمیں بتایا کہ یہ تاج نواب رام پور نے چڑھایا تھا۔درگاہ میں داخل ہوں تو تین مسجدیں نظر آتی ہیں۔ ایک مسجد اکبر بادشاہ نے دوسرے شاہ جہاں نے بنوائی۔ اکبر بادشاہ کی مسجد سفید سنگ مرمر کی ہے ۔ تیسری مسجد اورنگزیب نے تعمیر کی۔ان مساجد میں زائرین کی سہولت کے لیے یکے بعددیگر باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔خواجہ غریب نواز ؒ کا مزار زیارت کے لیے صبح نماز فجر کے بعد سے نماز عشاء تک کھلا رہتا ہے۔رات کو مزار کا اندرونی حصہ بند کر دیا جاتا ہے۔ تاہم بیرونی احاطے میں عبادات، نوافل اور قرات قرآن پاک کا عمل جاری رہتا ہے۔
درگاہ کے احاطے میںمورسلی کے قدیم درخت لگے ہیں۔ مورسلی کا درخت بیر اور نمبولی (نیم کا پھل) کی شکل کا ہوتا ہے۔ اس درخت پر خوشبودار پھول آتے ہیں جس سے ماحول مہک اٹھتا ہے۔ مزار کے احاطے میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے ہاتھ کا لگایا ہوا درخت بھی موجود ہے۔ یہاں سفید سنگ مرمر کا کمرہ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا نے بنوایا۔تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا کو بزرگان دین سے خصوصی نسبت تھی ۔
مزار کے اندر دا خل ہونے والے دروازے کے اوپر فارسی زبان میں یہ اشعار درج ہیں۔
تو آں رفیع مکا نی کہ سایہ کنان فلک
برآستان تو دارند میں دربانی
چہ حا جتسث بہ پیش تو حال دل گفتی
کہ حال خستہ دلاں راتو خوب میدانی
ترجمہ۔ میں آپ سے کیا زبانی عرض کروں آپ دلوں کا حال جانتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ میرے دل میں کیا ہے۔ (جاری )