حسن علی کا شاندار کم بیک محمد رضوان کی مسلسل عمدہ کارکردگی

قومی کرکٹ ٹیم کو مستقبل کیلئے مضبوط سہارے ملنے لگے

قومی کرکٹ ٹیم کو مستقبل کیلئے مضبوط سہارے ملنے لگے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
دورہ نیوزی لینڈ قومی ٹیم کا ایک مشکل امتحان تھا،مہمان بیٹسمین اور بولرز میزبان ملک کی کنڈیشنز میں جدوجہد کرتے نظر آئے، انفرادی طور پر چند کھلاڑیوں کی مزاحمت ضرور نظر آئی مگر شکستوں کا سلسلہ روکنے کیلئے کافی نہیں تھی،قومی ٹیم کی اس کارکردگی سے مینجمنٹ بھی دباؤ کا شکار ہوئی۔

کرکٹ کمیٹی نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے بعد دوبارہ جائزہ لینے کی بات کرکے دباؤ مزید بڑھا دیا، ہوم سیریز کے لیے سکواڈ کی سلیکشن چیف سلیکٹر محمد وسیم کیلئے بھی پہلی ذمہ داری تھی،انہوں نے ڈیبیو کے منتظر 9کرکٹرز کو20 رکنی اسکواڈ میں شامل کرکے داد بھی سمیٹی، گرچہ انٹرنیشنل کیریئر شروع کرنے کا موقع 2کو ہی ملا، ان میں سے نعمان علی کا تجربہ تو کامیاب رہا انہوں نے کراچی ٹیسٹ کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈیبیو کرنے والے دوسرے کرکٹر عمران بٹ پہلے میچ کے بعد راولپنڈی ٹیسٹ میں بھی ناکام رہے، ساتھی تجربہ کار اوپنر عابد علی کے مسلسل آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے بھی ان پر دباؤ زیادہ رہا، پاکستان کی ٹاپ آرڈر کی کارکردگی توقعات کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے مڈل آرڈر بھی جدوجہد کرتی دکھائی دی۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ مشکل صورتحال میں بھی کھلاڑیوں نے ہار ماننے کی بجائے سخت مزاحمت کرتے ہوئے ٹیم کی پوزیشن بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا،فواد عالم، محمد رضوان اور فہیم اشرف نے چیلنج قبول کرتے ہوئے ٹاپ اور مڈل آرڈر کی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیا،ٹیسٹ سیریز کی سب سے مثبت بات حسن علی کا شاندار کم بیک تھا، انجریز کے طویل سلسلہ کے بعد کسی پیسر کا ردھم میں آنا آسان نہیں ہوتا۔

حسن علی نے نہ صرف کہ فٹنس کی بحالی کے لیے سخت محنت کی بلکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں دل و جان لگاکر خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر انٹرنیشنل مقابلوں کے لیے تیار بھی کیا،کم بیک کے بعد دوسرے ہی میچ میں 10 شکار ان کے آہنی عزم کا ثبوت ہیں، وکٹ فواد عالم اور حسن علی دونوں ہی نوجوان کرکٹرز کے لیے ایک مثال ہیں، مڈل آرڈر بیٹسمین نے 10سال کے صبر آزما انتظار میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور قومی ٹیم کی ضرورت بن چکے، حسن علی نے انجریز کو دل کا روگ بنانے کے بجائے آہنی عزم سے اپنی جگہ دوبارہ بنائی۔


بیرون ملک مسلسل ناکامیوں کے بعد بالآخر ہوم ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ خوش آئند ہے لیکن قومی ٹیم کے کئی مسائل نظر انداز نہیں کیے جا سکتے، بیشتر بیٹسمینوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں،خاص طور پر اوپننگ کا دیرینہ مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھا چکا ہے، فیلڈنگ میں کچھ بہتری آئی ہے مگر ابھی اس شعبے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،ان وسائل کیساتھ ہوم سیریز کی کارکردگی بیرون ملک مشکل ٹورز میں دہرانا آسان نہیں ہوگا۔

پاکستان کے لیے اچھی خبر محمد رضوان کی مسلسل عمدہ کارکردگی ہے،ایک عام تاثر تھا کہ توقعات کا تمام تر بوجھ بابر اعظم کے کندھوں پر ہوتا ہے دیگر بیشتر اوقات اعتماد پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے ٹیم کی مشکلات کم نہیں ہوتیں،دورہ نیوزی لینڈ میں بابر اعظم کی انجری کے سبب عدم دستیابی کے بعد محمد رضوان نے ناصرف کہ ٹیسٹ قیادت کا بوجھ اٹھایا بلکہ بطور بیٹسمین بھی میدان میں لڑتے نظر آئے،ٹی ٹوئنٹی میں بھی یادگار اننگز کھیل کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

ان کے بارے میں ایک تاثر یہی دیا جاتا تھا کہ وہ مختصر فارمیٹ کے لیے موزوں نہیں ہیں مگر انہوں نے محنت جاری رکھی، ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا اعتماد بلندیوں پر پہنچایا، نیوزی لینڈ کی مشکل کنڈیشنز میں شاندار اننگز نے محمد رضوان کے ناقدین کو چپ کرادیا تھا مگر انہوں نے پروٹیز کے خلاف ہوم سیریز میں بھی جدوجہد کرنے والی پاکستانی بیٹنگ کو سہارا دیتے ہوئے ناقابل شکست سنچری سے شائقین اور سابق کرکٹرز کے دل جیت لیے۔

ماڈرن کرکٹ میں صورتحال سے گھبرانے والے نہیں بلکہ اپنی دلیری سے فرید کو دباؤ کا شکار کرنے والے کھلاڑی ہی اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، بابر اعظم ہر میچ میں سنچری اسکور نہیں کر سکتے، محمد رضوان نے ان کا بوجھ کم کیا ہے۔

حیدرعلی، خوشدل شاہ، حسین طلعت اور افتخار احمد سمیت کئی کرکٹرز کارکردگی میں تسلسل نہیں لاسکے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل کئی پوزیشنز پر خلا نظر آ رہا ہے، نوجوان کرکٹرز کو محمد رضوان سے سبق سیکھ کر میچ کی صورتحال کو سمجھتے ہوئے پرفارم کرنا ہوگا، کارکردگی نکھارنے کا ہوم سیریز سے بہتر کوئی موقع نہیں ہوسکتا۔

 
Load Next Story