کسی مرد یا عورت کو حق نہیں کہ وہ کسی کو بھی ہراساں کرے نعمان اعجاز
ہمارے معاشرے میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کسی تحریک کا غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہو، نعمان اعجاز
اداکار نعمان اعجاز کا کہنا ہے کہ کسی مرد یا عورت کو حق نہیں کہ وہ کسی کو بھی ہراساں کرے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی سزا ہونی چاہیے۔
حال ہی میں نعمان اعجاز نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جنسی ہراسانی کے موضوع پر مبنی اپنے ڈرامے ''ڈنک'' اور ڈراما سیریل ''رقیب سے'' کے بارے میں بات کی۔ اس ڈرامے میں نعمان اعجاز کو ایک شادہ شدہ مرد دکھایا گیا ہے اور ان کی محبوبہ (حدیقہ کیانی) اپنی بیٹی کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے آجاتی ہے۔
نعمان اعجاز کے ڈرامے ''ڈنک'' کی کہانی کالج کے ایک پروفیسر کے گرد گھومتی ہے جس پر اس کی طالبہ جنسی ہراساں کرنے کا جھوٹا الزام لگاتی ہے۔ پروفیسر یہ الزام برداشت نہیں کرپاتا اور خودکشی کرلیتا ہے۔ نعمان اعجاز نے ڈرامے میں پروفیسر کردار نبھایا ہے۔ تاہم ان پر اس کردار کو کرنے کے لیے تنقید بھی کی گئی۔
اس بارے میں نعمان اعجاز کا کہنا تھا کہ نکتہ چینی ان پر نہیں بلکہ اس کردار یا موضوع پر کرنی چاہیے تھی۔ تاہم یہ ایک سچا واقعہ ہے، جہاں سے اس کا مرکزی خیال مستعار لیا گیا۔ یہ واقعہ پنجاب میں ہوا تھا اور پروفیسر پر جھوٹا الزام لگا تھا۔ الزام لگانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ الزام کا اثر اس شخص اور اس کے خاندان پر کیسے پڑے گا، پروفیسر کا کردار الزام نہیں سہہ سکا اور اس نے خود کُشی کرلی۔
انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے کے ذریعے 'می ٹو' تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ وہ خود اس کے حق میں ہیں کیونکہ کسی مرد یا عورت کو حق نہیں کہ وہ کسی کو بھی ہراساں کرے، اس کی سزا ہونی چاہیے۔
نعمان اعجاز نے واضح کیا کہ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کوئی اس موومنٹ کو غلط استعمال تو نہیں کررہا؟ اسی لیے کسی کو سزا دینے سے پہلے تحقیق اور تصدیق کرلی جائے تو بہتر ہے۔ 'ہمارے معاشرے میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کسی تحریک کا غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہو، اس لیے حکومت کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جھوٹا الزام لگانے کی بھی سزا ہونی چاہیے۔'
اپنے کردار پروفیسر ہمایوں کے خودکشی کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ تو پھر بھی سات ہفتے بعد ہوا، لوگوں نے تو سات دنوں میں خودکشی کرلی، البتہ اب ان کا کردار اس ڈرامے سے ختم ہوگیا ہے، اس پر وہ اپنے مداحوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کا کام پسند کیا گیا۔
حال ہی میں نعمان اعجاز نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جنسی ہراسانی کے موضوع پر مبنی اپنے ڈرامے ''ڈنک'' اور ڈراما سیریل ''رقیب سے'' کے بارے میں بات کی۔ اس ڈرامے میں نعمان اعجاز کو ایک شادہ شدہ مرد دکھایا گیا ہے اور ان کی محبوبہ (حدیقہ کیانی) اپنی بیٹی کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے آجاتی ہے۔
نعمان اعجاز کے ڈرامے ''ڈنک'' کی کہانی کالج کے ایک پروفیسر کے گرد گھومتی ہے جس پر اس کی طالبہ جنسی ہراساں کرنے کا جھوٹا الزام لگاتی ہے۔ پروفیسر یہ الزام برداشت نہیں کرپاتا اور خودکشی کرلیتا ہے۔ نعمان اعجاز نے ڈرامے میں پروفیسر کردار نبھایا ہے۔ تاہم ان پر اس کردار کو کرنے کے لیے تنقید بھی کی گئی۔
اس بارے میں نعمان اعجاز کا کہنا تھا کہ نکتہ چینی ان پر نہیں بلکہ اس کردار یا موضوع پر کرنی چاہیے تھی۔ تاہم یہ ایک سچا واقعہ ہے، جہاں سے اس کا مرکزی خیال مستعار لیا گیا۔ یہ واقعہ پنجاب میں ہوا تھا اور پروفیسر پر جھوٹا الزام لگا تھا۔ الزام لگانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ الزام کا اثر اس شخص اور اس کے خاندان پر کیسے پڑے گا، پروفیسر کا کردار الزام نہیں سہہ سکا اور اس نے خود کُشی کرلی۔
انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے کے ذریعے 'می ٹو' تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ وہ خود اس کے حق میں ہیں کیونکہ کسی مرد یا عورت کو حق نہیں کہ وہ کسی کو بھی ہراساں کرے، اس کی سزا ہونی چاہیے۔
نعمان اعجاز نے واضح کیا کہ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کوئی اس موومنٹ کو غلط استعمال تو نہیں کررہا؟ اسی لیے کسی کو سزا دینے سے پہلے تحقیق اور تصدیق کرلی جائے تو بہتر ہے۔ 'ہمارے معاشرے میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کسی تحریک کا غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہو، اس لیے حکومت کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جھوٹا الزام لگانے کی بھی سزا ہونی چاہیے۔'
اپنے کردار پروفیسر ہمایوں کے خودکشی کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ تو پھر بھی سات ہفتے بعد ہوا، لوگوں نے تو سات دنوں میں خودکشی کرلی، البتہ اب ان کا کردار اس ڈرامے سے ختم ہوگیا ہے، اس پر وہ اپنے مداحوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کا کام پسند کیا گیا۔